شام کی بگڑتی صورتحال کے سبب
ہجرت کرنے والے شامی عوام کی بہت بڑی تعداد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر
مجبور ہیں۔UNHCRکے مطابق 6مارچ 2014 تکلبنان میں , 957,773 جبکہ لبنانی
حکومت کے مطابق 21نومبر 2013 ء تک تعداد 1.400,000جبکہ UNRWA کے مطابق
52,788 شامی فلسطینی مہاجرین رجسٹرڈ ہوئے ۔مصر اور نارتھ افریقہ میں
UNHCRکے مطابق 10مارچ 2014 ء تک 154,728جبکہ مصر حکومت کے مطابق 27فروری
2014ء تک 300,000مہاجرین نے شام سے ہجرت کی ۔عراق میںUNHCR کے مطابق 5مارچ
2014ء تک 226,934شامی عوام نے ہجرت کی ۔اردن میں UNHCR کے مطابق 10مارچ
2014تک 584,600جبکہ حکومت اردن کے مطابق 27فروری2014ء تک 600,000مہاجرین نے
ہجرت کی جبکہUNRWA کے مطابق 3مارچ 2014تک 11,438شامی فلسطینی مہاجرین کو
رجسٹرڈ کیا گیا ۔ جبکہ اعداد وشمار کے مطابق 2,558,379 شامی عوام نے ہجرت
کی ہے جس میں مصر و نارتھ افریقہ میں 6فیصد، ترکی میں 23فیصد ،اردن میں
25فیصد، لبنان میں 37فیصد ہیں ۔ مارچ 2013میں مہاجرین کی تعداد
1,184,948تھی جو کہ مارچ2014 میں 2,558,379ہو چکی ہے۔
یہ انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے جس پر مسلم امہ خاموش بیٹھی ہوئی ہے
اور شامی عوام مسلمانوں کو ایک طرف صحت ، تعلیم ، خوراک کی کمی کا سامنا ہے
تو دوسری طرف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے بھی بڑی تباہی مچا دی ہے ۔
فرینڈز آف سیریا گروپ میں شامل ممالک کا اجلاس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں
ہوا ۔ اس اجلاس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے شامی صدر بشار الاسد کے
خلاف بر سرپیکار شامی باغیوں کیلئے ٹھوس فوجی امداد کے بارے میں تبادلہ
خیال کیا گیا۔باغیوں کی فری سیرین آرمی FSA کاماننا تھا کہ ا نکے پاس
ہتھیار پہنچ گئے ہیں تاہم باغیوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار
امریکہ سے نہیں آئے ہیں۔فری سیرین آرمی کے ایک ترجمان سمبر النشرنے ایک خبر
رساں ادارے ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ"ہماری طرف سے فرینڈز آف
سیریا کے اجلاس میں اس امر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ شامی حکومت
اور اس کی حامی حزب اﷲ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید ہتھیاروں اور
جنگی ساز و سامان بھیجنے کا عمل کتنا ضروری ہے۔"ان گیارہ رکنی فرینڈز آف
سیریا گروپ میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی ، ا‘ردن ، سعودی
عرب ، ترکی ، مصر ، متحدہ امارات اور قطر شامل ہیں۔اس اجلاس کے بارے میں
امریکی ترجمان کا یہ کہنا تھا کہ قطر میں اس ملاقات کا مقصد اس بات پر غور
کرنا ہے کہ عالمی برداری کس طرح شامی باغیوں کیصورتحال بہتر کرسکتی
ہے۔اُردن اور امریکہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے کہ عمان اور
واشنگٹن نے شامی باغیوں کیلئے ایک سال پرانے تربیتی پروگرام میں توسیع کی
تھی۔پہلے یہ پروگرام کیمیائی ہتھیاروں کا سراغ لگانے اور انہیں محفوظ رکھنے
تک محدود تھا تاہم اب اس میں توسیع کرتے ہوئے اس میں طیارہ اور توپ شکن
میزائلوں کا ستعمال بھی شامل کردیا گیا ہے۔امریکہ اس جنگ کا نقشہ تبدیل
کرنے کیلئے نو فلائی زون اور بفر زون قائم کرنا چاہتا ہے۔امریکی اہلکاروں
کے مطابق واشنگٹن نے دو ہزار اضافی عسکری تربیت دہندگان اور مشیر اردن
بھیجے جنکاکام فری سیرین آرمی FSAکے پانچ ہزارر کمانڈرز اور افسروں کی تر
بیت کرنا تھا ۔
شام میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کی مطابق دو سال میں کم ازکم 93ہزار افراد
ہلاک ہوچکے ہیں۔شامی حزب اختلاف کے قومی اتحاد کے عبوری صدر جارج صبرا نے
کہا ہے کہ لبنان کی مسلح جنگجو تنظیم حزب اﷲ نے شامی عوام کے خلاف جنگ مسلط
کر رکھی ہے اور اس کے جنگجو سرحد عبور کرکے ہمارے شہروں اور قصبوں میں داخل
ہو رہے ہیں۔عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے جارج صبرا نظریاتی طور پر
کمیونسٹ ہیں ، انھیں شامی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی حکموت کی
مخالفت کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور آٹھ سال تک جیل میں قید
رہے تھے ، بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مارچ 2011ء سے جاری احتجاجی تحریک
میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی طرح لبنانی صدر مشعل سلیمان نے شیعہ
ملیشیا حزب اﷲ پر زور دیا کہ وہ شام میں جاری جنگ میں حصہ لینا بند کردے
اور لبنان لوٹ آئے کیونکہ اس کے شام میں کردار کی و جہ سے اندرون ِ ملک
کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔لبنانی صدر نے یہ بیان حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصر اﷲ
کے اس اعلان کے بعددیا کہ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم شامی
تنازعے میں شریک رہے گی حزب اﷲ نے شام کے وسطی صوبے حمص کے قصبے القصیر پر
قبضے کی جنگ میں صدر بشار الاسد کی فوج کا ساتھ دیا اور اب وہ شمالی شہر
حلب میں بھی شمای باغیوں کے خلاف ایک نئے محاذ کی تیاریو ں میں ہے۔
لبنان نے سرکاری طور پر تو شامی تنازعے کے حوالے سے غیر جانبدارانہ موقف
اختیار کئے رکھا ہے لیکن حزب اﷲ کے جنگجو اس وقت شام میں باغیوں کے مقابلے
میں صدر بشار الاسد کی کھلم کھلا جنگی ، سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی حمایت
کر رہے ہیں۔حزب اﷲ کے جنگجوعلوی فرقے سے تعلق رکھنے والے شامی صدر بشار
الاسد کی وفادار فوج کے شانہ بہ شانہ خانہ جنگی کا شکار ملک میں سُنی
جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ شامی
حکومت یہ جنگ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر لڑ رہی ہے۔ایران کی جانب سے
شامی حکومت کی بھرپور حمایت جاری ہے اور عراق کی جانب سے معذوری ظاہر کی
گئی کہ وہ ایران کو عراق کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں روک
سکتا۔انہی اطلاعات کے تناظر میں پاکستانی طالبان کی جانب یہ خبر آئی کہ شام
میں جاری جہاد پر نظر رکھنے کے لئے وہاں اڈا قائم کرلیا ہے۔ اور میڈیا کی
جانب سے یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ شام کی حکومت کے خلاف جہاں
طالبان باغیوں کا ساتھ دیں گے تو دوسری جانب کالعدم لشکر جھنگوی بھی اس
محاذ میں بھر پور حصہ لے گی۔ گو کہ پاکستان نے اس کی تردید کی ہے۔تاہم شام
کی خانہ جنگی اب مکمل طور پر فرقہ ورانہ جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس
فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے نتائج خطے میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہونگے۔
شام کا اپنی عوام کے خلاف جبری طاقت کا استعمال اور لبنان سے حزب اﷲ اور
ایران کی جانب سے تعاون حاصل ہونا جہاں شام کی عوام کیلئے مصائب کا سبب بن
رہا ہے تو دوسری جانب اب طالبان کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے
کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی جانب سے شام کی حکمران جماعت کے خلاف باغیوں کو
ہتھیاروں کی فراہمی اور امریکہ کی جانب سے ایران کو اپنی حدود تک محدود
رکھنے کی خواہش نے ہزاروں بے گناہ شامی مسلمانوں کا خون بہا دیا ہے۔شام کی
عوام کی جانب سے تبدیلی حکومت کی مطالبات کے جواب میں حزب اﷲ شیعہ ملیشیا
کی طرح لبنان کے جنوبی حصے کے سُنی مسلمان عملی طور پر شامل نہیں ہوئے ہیں
یہی وجہ ہے کہ لبنان کے صدر کو پریس کانفرنس میں حزب اﷲ سے اور اقوام متحدہ
میں یادداشت پیش کئے جانے کی صورت میں حزب اﷲ پر زور دیا کہ وہ شام میں
جاری جنگ میں حصہ لینا بند کردے اورلبنان لوٹ آئے کیونکہ اس کے شام میں
کردار کی و جہ سے اندرون ِ ملک کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
شام کی صورت حال میں طالبان کی جانب سے" جہاد"کی صورت میں نگرانی کی ساتھ
ساتھ عملی طور پر باقاعدہ اعلانیہ آغاز ہوگیا تو پھر اس کے مضمرات سے
پاکستان کے ساتھ پورے خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے گا ۔دیکھنا یہی
ہے کہ اقوام متحدہ کب تک خاموشی سے یہ نظارہ دیکھتی رہی گی اور انسانی حقوق
کی کھلم کھلا خلاوف ورزیوں پر اپنے تضاد بھرے ایجنڈے پر کاربند رہے گی ۔یقینی
طور پر یہ بھی عالمی اسکرپٹ کا وہ حصہ ہے جس میں مسلمانوں کے درمیاں فقہی
اختلافات کا فائدہ براہ راست بین الاقوامی قوتیں اپنے مفادات کے لئے
استعمال کرتی ہیں اور تضادات کے اس چومکھی کی لڑائیوں میں مسلمانان عالم
اسی طرح کٹتے مرتے رہیں گے۔ |