بچے من کے سچے
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
19اگست 1982میں جنرل اسمبلی میں
قرارداد پیش ہوئی جس میں اسرائیل کے وحشیانہ جنگی اقدام کی وجہ سے فلسطین
کے معصوم بچوں کی شہادت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیا اور نوخیر پھولوں
کے ساتھ ایسی ذیادتی پر فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 04جون کو بچوں کے
جنسی،جسمانی ،ذہنی استحصال کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجی دن منایا جائے گا۔
لہذا تب سے ہر سال یہ دن بڑے جوش و خروش سے تمام ترممالک کے ساتھ ساتھ
پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے ۔اگرچہ پاکستان میں اس دن کے منانے کا کوئی
خاص فائدہ تو حاصل نہیں ہوا ہے مگر بہرحال صورت حال میں مجموعی طور پر کوئی
بہتری نہ بھی ہوئی ہو مگر اس حوالے سے شعور اُجاگر ہوا ہے کہ بچوں کے ساتھ
کسی بھی طرح کی ذیادتی نہ ہو۔مغرب میں اس حوالے سے سخت قوانین ہیں کہ بچوں
سے کم عمری میں مشقت کروائی جائے جبکہ ہمارے ہاں تو بیشتر کام کاج ہی بچوں
کو اُجرت پر رکھ کرکروائے جاتے ہیں، قالین بافی کی صنعت ہو، فٹ بال کی
تیاری ہو، ہوٹلوں پر، گھروں میں انکو آٹے میں نمک جتنی تنخواہ دے کر جتنا
کام کروایا جاتا ہے اس کے بارے میں محض سوچا ہی جا سکتا ہے۔چونکہ ہمارے ہاں
غربت زیادہ ہے توکم آمدنی کے حامل خاندان زیادہ آمدن کے حصول کیلئے بچوں کو
کم عمری سے ہی روزگار پر لگاتے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی کا حصول میں حائل
روکاوٹیں ختم ہو سکیں اور وہ اپنی زندگی کا نظام بہتر خطوط پر استوار کر
سکیں۔
بچے من کے سچے ہوتے ہیں اور جو انکے دل میں ہوتا ہے وہی انکی زبان پر
ہوتاہے جو کہ اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ بڑے مصلحت کے تحت بات یا
عمل کرتے ہیں مگر وہ بن لگی پٹی منہ پر صاف بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ابھی
اس کی مثال کچھ یوں دینا چاہوں گا کہ میرے والد صاحب اسی سال جہان فانی سے
رخصت ہوئے ہیں تو میری چھوٹی بھتیجی سیدہ سائرہ بتول کو میں باہر لے کر
اسکی فرمائش پوری کرنے سے انکاری تھا تو اس نے اچانک کہا ’’دادا نے کہا تھا
کہ مجھے باہر لے جایا کرو‘‘۔یہ جملہ اس نے اکثر داد ا کی زبانی سنا ہوا تھا
اور اس وقت اُس نے دہرا کر میرے ہوش و حواس گم کر دیئے اور میں فورا اسکی
ضد پوری کرنے کا تیار ہوگیا ۔مگر جناب بچوں کی ضدیں زیادہ پوری کرنا بھی
بسااوقات بہت سے مسائل کھڑے کر دیتا ہے ۔اسی طرح سے جب تک معاشرے میں بچوں
کے ساتھ کسی بھی حوالے سے غیر اخلاقی و غیر شرعی حرکات ہوتی ہیں تو بھی
انکے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اگر
اسلام کے قوانین اوراﷲ کے احکام کے مطابق چلانا شروع کردیں تو ہمارے بہت سے
مسائل ختم ہو سکتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی مفادات پر کسی بھی
طرح کا نقصان برداشت کرنے کے قائل نہیں ہو پا رہے ہیں جو کہ معاشرے میں
بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔
ہمارے ہاں قانون پر عمل درآمد نہ وہنے کے بر ابر ہے اسی وجہ سے آئے روز
بچوں کے ساتھ نارواسلوک کی خبریں اخبارات کی زنیت بنتی رہتی ہیں مگر حکام
بالا کی طرف سے خاطر خواہ موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات کی
روک تھام نہیں ہو پا رہی ہے۔اگر ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کو قرارواقعی
سزا دے کر کیفر کردار تک پہنچا دیا جا ئے تو ایسے گھناؤنے جرائم جو بچوں کے
ساتھ ہوتے ہیں ان سے چھٹکار ہ کافی حد تک ہمیں مل سکتا ہے اور اس کیلئے ہم
سب کو مل کر آواز بلند کرنی پڑے گی کہ کل کلاں کو خدانخواستہ ہمارے کسی
اپنے کے ساتھ بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ |
|