لاہور کے علاقہ اچھرہ میں جس طرح
آگ میں جھلس کر تین پھول جیسی بچیاں زندگی کی سرحد پار کر گئی اگر اسی آگ
کی تپش حکمرانوں کی اولاد کو بھی زرا سی محسوس ہو تو شائد ان کے اندربچی
ہوئی کوئی انسانیت جوش مارے اور انہیں بھی خیال آئے کہ آگ نے تین انسانی
جانوں کو جلایا ہے لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کو نہیں پاکستان واحد ایسا ملک ہے
جہاں حکمران جن سے ووٹ لیتے ہیں انہی پر عذاب بن کر نازل ہوتے ہیں الیکشن
سے قبل بلند وبانگ دعوے کرنے والوں نے اپنے وعدوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی
غریب عوام کو بھی کچلنا شروع کررکھا ہے پاکستان کا کوئی بھی شہر ،دیہات اور
قصبہ ایسا نہیں ہو گا جہاں چوری ،ڈاکہ زنی اور ان کو پروان چڑھانے والے
موجود نہ ہوں یہاں پر کسی بھی شریف انسان کو لوٹنا اسکی جائیداد پر قبضہ
کرنا اور اسے بھرے بازار میں تماشا بنانا کوئی مشکل اور بڑا کام نہیں
عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے مدتوں ذلیل وخوار ہونا پڑتا ہے اسکے بعد بھی
انصاف کی کوئی امید اور توقع نہیں محنتی اور پڑھے لکھے شخص کے لیے روزگار
کا حصول ناممکن بن چکا ہے جبکہ چور اچکے اور ڈاکوؤں کو ہر طرف سے نوازا
جاتا ہے ہمارے ملک کے عوامی نمائندوں کو ہی ایک نظر دیکھ لیں جو ہر ترقیاتی
کام میں اپنا کمیشن رکھے ہوئے ہیں اور اپنے علاقے میں ایسے افسران کو چن چن
کر لگائیں گے جن کے پاس سے ایمانداری اور شرافت کے الفاظ بھی جانے سے ڈرتے
ہوں پاکستان میں آئے روز لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے ایک طرف دہشت گرد
ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کررہے ہیں اور پھر اسی ملک میں رہتے ہوئے بڑی
دیدہ دلیری سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ کاروائی ہم نے کی ہے دوسری
طرف کراچی میں اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے کے لیے لاشوں سے کھیلا جارہا ہے
اور اس گندی سیاست کے زریعے لٹیروں کے روپ میں ہر رہنماء اپنے اپنے مقاصد
کی تکمیل میں مصروف ہے اور انکو پکڑنے والا کوئی نہیں ہے آج تک پاکستان کو
ترقی کی شاہرہ پر گامزن کرنے والا کوئی حکمران ہمیں نہیں ملا سب نے اپنی
اپنی باریاں لگائی غریب ملک کو لوٹا اور غریب عوام کو مزید غربت کی دلدل
میں دھکیلا اور خاموشی سے بیرون ملک اثاثے جمع کرتے رہے یہاں پر جتنا بڑا
ڈاکو ہو گا اتنا ہی عزت داربھی ہوگا پاکستان میں آج تک قانون پر عملدرآمد
نہیں ہوسکا جبکہ جن کو ہم پاکستان میں بیٹھ کر برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور
اپنی اپنی سیاسی دوکانداریاں چلانے کے لیے کبھی امریکہ کو تو کبھی برطانیہ
کو مختلف الفاظ سے نوازتے ہیں وہاں پر تو قانون کی حکمرانی ہے کسی کا بھی
قتل ہوجائے تو پوری فورس حرکت میں آجاتی ہے برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹر
عمران فاروق کا قتل ہوا وہاں کی پولیس نے پوری محنت کی اور بلا آخر قاتل کے
گریبان تک جاپہنچے یہاں مقتول کا خون انصاف کے لیے برسوں ٹرپتا ہے مگر
انصاف پھر بھی نہیں مل پاتا اس جمہوری ملک میں سب مداری کے کھیل کی طرح بچہ
جمورہ بنے ہوئے ہیں جو مداری کہتا ہے وہی بچہ جمورہ کرتا ہے شروع سے لیکر
آج تک مداریوں نے ایسا کھیل کھیلا ہے کہ ہم خوشحالی کا سفر بھول کر خونی
کھیل میں شامل ہوگئے ہیں یہاں پر لوگ اپنے حقوق کے لیے اتنے دھرنے نہیں
دیتے جتنے اپنے لیڈروں کے غیر قانونی کاموں کو تحفظ دینے کے لیے دھرنے دے
رہے ہیں اگر یہی عوام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہو تو پھر ہمیں کسی لیڈر
اور حکمران کی ضرورت نہیں سب راہ راست پر آجائیں گے مگر اس کے لیے عوام کو
اپنے آپ سے مخلص ہونا پڑے گا ورنہ ملک میں محفوظ تو کوئی بھی نہیں ہے نہ
ملک کے محافظ ،نہ غریب عوام اور نہ ایماندار شریف افسران آج اگر غریب اور
محنت کش کی تین بچیاں بروقت امداد نہ ملنے سے آگ میں جل گئی تو کل کو ہماری
اپنی لگائی ہوئی آگ میں ہم خود بھی جل سکتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی
ذاتی پسند و ناپسند کو کسی گہرے گڑھے میں پھینک کر ملک اور قوم کے لیے متحد
ہو جائیں تاکہ ہمارا آنے والا کل محفوظ ہو سکے ہم اپنی تو گذار چکے اب بچوں
کو جینے کا حق دیں آخر میں یہ بھی لکھتا چلوں مجھے حیرت اور حیرانگی اس بات
پر بھی ہے کہ جس ادارے ریسکیو 1122کو میں سب سے بہتر اور اچھا سمجھتا تھا
کیا وہ بھی ہمارے دوسرے سرکاری اداروں کی راہ پر چل نکلا ہے جو اپنے قریب
ترین اچھرہ میں لگی ہوئی آگ بجھانے وقت پر نہ پہنچ سکا کیا ہم یہ سمجھ لیں
کہ اس ادارے کے ملازمین نے جو عزت برسوں محنت سے کمائی تھی وہ اس ایک واقعہ
کے بعد ان معصوم بچیوں کے جسموں کے ساتھ ہی خاک میں مل گئی۔ |