کشمیریوں پربھارتی مظالم ،آخر کب تک؟

بھارتی فوج نے ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کو مخبر بننے کیلئے مجبور کرنا شروع کر دیا۔ کشمیری مجاہدین کی مخبری سے انکارکرنے والوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ بارہ مولہ میں بھارتی فوج کے ایک کیپٹن اور دیگر فوجیوں کی جانب سے مخبری سے انکار پرسات بیٹیوں کے باپ کوگرم استریوں سے داغا گیا جس پر مقامی کشمیریوں نے سخت احتجاج کیا ہے۔ محمد افسر خاں نامی بزرگ کشمیری نے بتایاکہ بارہمولہ میں 46راشٹریہ رائفلز کے کیمپ میں تعینات کیپٹن بالی ہناکا پچھلے ایک سال سے اسے کشمیری مجاہدین کی مخبری کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا جس سے ہمارے پورے خاندان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی۔مذکورہ کیپٹن کا کہنا تھا کہ وہ میرے کہنے پر مخبری کرے گا تو اس کی فوج میں ترقی ہو جائے گی لیکن جب میں نے انکار کیا تو مجھے کیمپ بلاکر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔افسر خاں نے بتایاکہ مجھے مخبر بننے کیلئے انعامات کا لالچ بھی دیاجاتا رہا ہے۔ تاہم میرے انکار کرنے پر میجر بالی ، میجر پردھان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے میری پشت پر گرم استریاں لگائیں اور نڈھال ہونے پر بارہمولہ کے اسٹیڈیم گیٹ پر پھینک گئے۔افسر خاں کی اہلیہ زاہدہ کا کہنا ہے کہ میں سارا دین کیمپ کے باہر کھڑی ہو کر چلاتی رہی جب میرے شوہر کی حالت غیر ہو گئی تو اسے نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا ۔ ابھی تک میرے شوہر کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں اور ہر روز انکی ڈریسنگ کرنا پڑتی ہے۔ زاہدہ کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کا گلیکسی موبائل ابھی بھی مذکورہ کیپٹن کے پاس پڑاہے جبکہ اس کے دس ہزرا روپے بھی چھین لئے گئے۔ اسی طرح انٹروگیشن کی رات مذکورہ کیپٹن نے اس کے شوہرکے کاندھے پر اے کے 47رائفل اور ہاتھ میں ایک پستول رکھ کر فوٹو کھنچوایا، ہمیں ڈر ہے کہ فوج اس تصویر کا غلط فائدہ نہ اٹھا کرہماری زند گی برباد نہ کرے۔20برس قبل دوران حراست لاپتہ نوجوان ‘کا’کیرتی چکرایوارڈیافتہ باپ بیٹے کی جدائی کاغم لئے چل بسا‘جبکہ ماں کوبیٹے کااب بھی انتظارہے لیکن بہن اپنے بھائی کے غم میں دماغی توازن کھوبیٹھی ۔ قصبہ بارہمولہ سے تقریباً5کلو میٹر کی دوری پر واقع فتح پورہ نامی گاؤں میں زیادہ ترلوگ معاشی طور بہتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس گاؤں میں اکثر لوگوں کے پاس پختہ رہائشی مکانات ہیں لیکن اسی گاؤں میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں ایک ایسی خاتون بھی اپنے بچوں اور دماغی طور معذور بیٹی کے ساتھ زندگی کے انتہائی مشکل ترین ایام گزار رہی ہے ۔20سال قبل تک خدیجہ کے گھر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا کیونکہ اس کا شوہر غلام محمد ڈار فوج میں بطور مزدور کام کیا کرتا تھا اور اس کام کے عوض اس کو اچھی اجرت بھی ملا کر تی تھی ۔میاں بیوی کے5بچے تھے اور یہ کنبہ غربت میں بھی پر سکون زندگی گزار رہا تھا لیکن 20سال قبل بھارتی فوج نے ان کے دوسرے بیٹے ریاض احمد کو گرفتار کر لیا اور تب سے اس نوجوان کاکوئی اتہ پتہ نہیں ہے جبکہ اس کا باپ اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔خدیجہ بیگم نے اپنی داستان غم بیان کرتے ہوئے مقامی حقوق انسانی فورم وی او وی کے ایک وفد کو بتایا کہ تقریباً20سال قبل گلی بل چندوسہ کنڈی میں قائم ایک فوجی کیمپ سے وابستہ اہلکاروں کی ایک ٹیم نے اس کے بیٹے ریاض احمد کو گرفتار کر لیا اور جب ہم وہاں اُس کے بارے میں چھان بین کرنے گئے تو بقول خاتون فوجی کیمپ میں تعینات افسر نے کہا کہ ریاض فورسز کو چکمہ دیکر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔اسکے بعد انہیں کہیں سے دوران حراست لا پتہ بیٹے کے بارے میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔غم سے نڈھال خاتون نے بتایا کہ فوج میں بطور مزدور تعینات رہنے کے دوران اپنی خدمات ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دینے کے صلہ میں اس کے شوہر غلام محمد ڈار کو فوج کا ایک اعلیٰ ترین اعزاز کیرتی چکر دیا گیا ۔اپنے شوہر کو ملے تمغوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ اس کے شوہر نے فوج میں محنت مشقت کر کے اپنے بچوں کی خون پسینے سے پرورش کی لیکن فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ریاض احمد کے لا پتہ ہونے میں غلام محمد ڈار کو ایسے نڈھال کر دیا کہ 2002میں وہ اپنے بیٹھے کی جدائی کا غم سینے میں لیکر اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ انہوں نے لا پتہ بیٹے کی بازیابی کیلئے ہر ممکنہ دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں ڈپٹی کمشنر بارہمولہ نے یہ کہہ کر معاوضہ لینے پر مجبور کر دیا کہ ان کا بیٹا ریاض مر چکا ہے ۔خاتون کے بقول انہیں معاوضہ نہیں بیٹا چاہئے تھا لیکن ہاتھ میں کچھ رقم دیکر ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اپنے بھائی ریاض احمد کی جدائی کے اس کی بہن حسینہ دماغی توازن کھو بیٹھی اور گزشتہ کئی برسوں سے وہ کچھ بولے بغیر صرف دروازے پرنظریں لگائے بیٹھی ہے کہ شاید اس کا بھائی لوٹ آئے ۔ خدیجہ نے اپنے آنسو پیتے ہوئے کہا کہ اس کا کلیجہ پھٹنے کو آیا ہے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو ایک پل بھی بھول نہیں پا رہی ہے ۔بارہمولا قصبے کے واحد پولیس اسٹیشن کو باضابطہ طور ایک ٹارچرسیل میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہاں نظربند درجنوں نوجوانوں کو مسلسل اذیت ناک حراستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مقید نوجوانوں کے اہل خانہ جب تھانوں میں اپنے عزیزوں سے ملنے جاتے ہیں تو وہاں ان کے ساتھ بھی تذلیل آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں خواتین کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی ۔ پولیس افسر بھرے بازاروں میں نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد گھسیٹ کرلے جاتا ہے اور بعد میں تھانوں میں انٹروگیشن کے دوران میں انہیں الف ننگا کیا جاتا ہے۔ عاشق قادر لون نامی نوجوان کو حراست کے دوران میں اتنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اب وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا بھی نہیں رہ سکتا ہے اور اس کی داڑھی تک نوچ نوچ کر نکالی گئی ہے۔ ان کے علاوہ مفتی عبدالاحد تارزو سوپور، جاوید حسین نجار، عبدالرشید راتھر اور دانش احمد گوجری بھی ابھی تک حبس بے جا میں ہیں اور انہیں حراستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بارہ مولہ کے لوگوں نے اس بات پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا کہ چھاپوں کے دوران میں لوگوں کے گھروں سے نقدی اور زیورات بھی لوٹ لیے جاتے ہیں اور متعلقہ پولیس افسر نظربندوں کی خواتین کے فون نمبر زبردستی حاصل کرتا ہے اور پھر رات گئے ان کو فون کرکے تنگ اور پریشان کرتا رہتا ہے۔ لوگوں نے مذکورہ افسر کی شکایت سول انتظامیہ کے پاس بھی کی ہے، البتہ ابھی تک اس کی کوئی شنوائی ہوئی ہے اور نہ اس کو کسی قسم کی سرزنش کی گئی ہے۔ سیلو سوپور میں تعینات فوجی کیمپ کے اہلکاروں نے اسی طرح قاضی آباد، سہی پورہ، منڈگام، کھہی پورہ اور کچھلو علاقوں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔بھارتی فوج اس علاقے کا روز گشت کرتی ہے اور اس دوران میں نوجوانوں سے ان کے شناختی کارڑ چھین لئے جاتے ہیں اور انہیں کیمپوں پر حاضری دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ فوجی کیمپوں پر ان کے ساتھ نہ صرف تذلیل آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے، بلکہ وہاں ان کی اکثر مارپیٹ بھی کی جاتی ہے۔ فوجی جبروقہر کی وجہ سے کئی طالب علموں نے اسکول جانا تک ترک کیا ہے اور وہ خوف کی وجہ سے گھروں سے باہر ہی نہیں نکلتے ہیں۔حریت رہنما سید علی گیلانی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ پہلی بار انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی غیر سرکاری تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ بارہ مولہ قصبے میں کسی پولیس افسر کے ہاتھوں عام لوگوں اور خاص کر طالب علموں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات کرانے کے لیے اس قصبے کا دورہ کریں اور اس سلسلے میں نظربند نوجوانوں کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کریں اور ان سے ان باتوں کی تصدیق حاصل کریں، جن کی انہوں نے شکایات کی ہیں۔ امریکہ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں گمنام قبروں بارے تحقیقات نہ کروانے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان قبروں میں 2943 نعشیں 1990ء سے 2009ء تک ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنائے جانے والوں کی ہیں۔ محکمہ خارجہ نے بھارت میں حقوق انسانی کی ایگزیکٹو سمری پر جاری کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگرچہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں گمنام قبروں بارے تحقیقات کا ارادہ ظاہر کیا تھا تاہم سال کے اختتام تک اس حوالے سے کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کی گئی کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ سرعام دستیاب نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے تشکیل دئیے گئے تین رکنی پینل نے رپورٹ پیش کی تھی کہ مسلح فورسز افسپا کے تحت حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہیں جس کے بعد بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پینل کی رپورٹ کو کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے سامنے رکھے گی۔ قومی ہیومن رائٹس کمیشن نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ عدالت اس قانون کے تحت جموں و کشمیر میں قتل کا ارتکاب کرنے والوں کیخلاف کارروائی کے احکامات جاری کرے تاہم اس معاملات پر پیشرفت نہیں ہوئی۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 176645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.