’ادارہ فروغ اردو اسلام آباد‘ اورششماہی علمی و تحقیقی مجلہ ’علم و فن‘

ہم اردو کو سب علوم و فنون کی زبان سمجھتے ہیں اور اس پر کسی طبقے کی اجارہ داری تسلیم نہیں کرتے۔لیکن اردو زبان کے پنڈتوں نے اسے مشاعروں اور شاعروں تک محدود کیا ہوا ہے۔اسی وجہ سے ادبی رسائل صرف ادبی اصناف اور ان کے تخلیق کاروں کے تذکروں سے ہی لبریز ہوتے ہیں۔اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس ملک میں اب شاعر کون ہے اور متشاعر کون لیکن ہر تک بند اپنے آپ کو شاعر کہلوانے پر مصر ہے۔بہت عرصے بعد ’علم و فن‘ کے دوسرے شمارے کی صورت میں ایک مجلہ دیکھنے اور پڑھنے کو ملا جو منفرد ہے اگرچہ اس کا پہلا شمارہ بھی باقی رسائل ہی کی طرح تھا۔اس دفعہ محمد اسلام نشتر اور ان کی ٹیم نے بہت محنت کی ہے اور جانے کتنے ادبی پنڈتوں کے دباؤ کو برداشت کیا ہوگا۔مجلہ ’علم و فن‘ ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد کا ششماہی علمی ، تحقیقی اور تجزیاتی مجلہ ہے اور ’استقبال‘ میں مدیر کی اس بات کو میں درست نہیں سمجھتا کہ ’حکومت پاکستان نے آئینی فرض کو پورا کرنے کے لیے مقتدرہ نامی سابق خود مختار ادارہ کو ۱۷اگست ۲۰۱۲ء سے وزارت کا ملحقہ سرکاری محکمہ قرار دے کر قومی زبان کے لیے عملی پیش رفت کر دی ہے اور یہ خوش گوار تبدیلی ہے‘۔آپ پہلے خودمختار تھے اور اب آپ مقتدر اور خود مختار نہیں رہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں آپ کی حیثیت مزید کمزور ہوگی جب اسی طرح کے ادارے صوبوں میں بھی کھلیں گے اور ماروی میمن منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اردو کی حیثیت کو پاکستان کی باقی زبانوں کے برابر کر دیا جاہے گا(اﷲ وہ دن نہ دکھائے)۔

آپ نے ’قرآن کا تصور قومی زبان‘ ایک طویل مقالہ پیش کیا ہے۔تاہم معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ عربی کو اپنے علاقوں میں کسی اور زبان سے خطرہ نہ تھا اور نہ ہوگا۔وہ ماضی میں اقتدار کی زبان رہی ہے اور آج بھی درجنوں ممالک کی اقتداری زبان ہے۔ہمارے ملک میں اقتدار اردو کو ملا ہی نہیں۔یہاں تو انگریزی دان اقلیت ملک کی عدلیہ، فوج اور انتظامیہ پر قابض ہے۔کیا نجی اور کیا سرکاری ،ہر سطح پر اردو کش پالیسیاں جاری ہیں۔پاکستان کی غالب اکثریت کے لیے تعلیمی پالیسی کو انگریزی میں لکھا گیا۔جو اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔عربی ’لنگوا فرانکا‘ نہیں کیونکہ اسے اس کے خطوں میں سب بولتے ہیں:اردو لنگوافرانکا‘ ہے کیونکہ اسے سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے ذریعے گزارا کر لیتے ہیں۔عربی کا رسم الخط ایک تھا اور ہے۔اس کی عمر ہزاروں سال ہے۔ اردو ایک نئی زبان ہے جس کی عمر دو صدیوں سے زیادہ نہیں۔عربی کا مقابلہ کرنے والی فارسی کا رسم الخط بھی وہی تھا اور ہے۔اردو کے ساتھ ایسا نہیں۔اس کے پہلے دو رسم الخط ہوئے اور پھر اب اردو کے مزید دو رسم الخط ہوچکے ہیں۔اردو اور رومن۔یہاں بحث لہجوں کی نہیں ،رسم الخط کی ہے۔تاہم آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن شاعری نہیں،نثر ہے۔اردو شاعری سے شروع ہوئی اور شعراء کا رویہ آپ دیکھ اور جانچ سکتے ہیں۔ہم نے عربی کے تمام حروف تہجی لیے ہیں اور ہمارا خمیر عربی سے اٹھا ہے۔یہ بات بہت سے ادیبوں کو ہضم نہیں ہوتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے مولد و مسکن کے بارے میں ماہرین لسانیات نے کئی ایک نظریات پیش کیے ہیں اور یہ بھی اچھا ہے کہ برعظیم کے کئی خطے اور علاقے اس حق کے دعویٰ دار ہیں۔ہم بھی یہی محسوس کرتے ہیں کہ ’سہل اردو تحریک‘ لسانی عمارت کو منہدم کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔

سب سے فکر انگیز مقالہ ’’شوریتی زراعت‘‘ پر ’گندم کی مختلف اقسام کے اگاؤ پر نمکیات کا اثر ‘ لگا۔شاعری اور ادب اور ادیبوں کے چرچے پڑھ پڑھ کر دماغ پک گیا ہے اور اس مقالے کا انداز بھی منفرد لگا۔اگر ہم اردو کو ایک زندہ اور متحرک زبان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے مزید مقالات کو سامنے لانا ہوگا۔یہ ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کے موضوع پر مزید اس طرح کی تحریروں کی ضرورت ہے۔یہ مقالہ جہاں قارئین کو دلچسپ معلومات بہم پہنچاتا ہے وہیں ایک خوفناک صورتحال کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔پاکستان کا ۶۷. ۶ملین ایکڑ رقبہ شورزدہ ہے۔اور ہم چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔اس سے سالانہ بیس ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ہمارے زخموں پر نمک پاشی کے لیے اندرونی اور بیرونی ادبی اور غیر ادبی پنڈت کیا کم تھے کہ زمین نے بھی ہمارے زخموں پر نمک پاشی شروع کردی۔ اسی مقالے سے آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ ایسے بیج موجود ہیں جو زیادہ نمک برداشت کرسکتے ہیں۔

دوسرا وقیع مقالہ ’پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورت حال‘ ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا ۲۱فی صد زرعی شعبہ سے حاصل ہوتا ہے۔تاہم یہ المیہ ہے کہ ۵۲فیصد زیر کاشت اراضی پر ۱۴فی صد جاگیردار کاشت کاری کروا رہا ہے۔پاکستان اور آزادکشمیر میں غذائی صورتحال اچھی نہیں۔لوگ علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے اور مہنگی ہونے کی وجہ سے بروقت علاج کروانے سے گریزاں ہیں۔SDPI کی رپورٹ خوفناک صورتحال کی نشاندھی کر رہی ہے۔پاکستان کے ۱۳۱ اضلاع کے مطالعے نے ثابت کیا کہ ۸۰ اضلاع غذائی قلت کا شکار ہیں۔اس مقالے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں اصلاح احوال کی تدابیر بھی بتائی گئی ہیں۔گندم کی کاشت کے لیے رقبہ بڑھانا ہوگا۔گندم کی سال میں ایک فصل کاشت ہوتی ہے جسے پانی کا بندوبست کرکے دو تک لے جا سکتے ہیں۔نیز دالوں ،روغنی بیجوں اور دیگر ربیع فصلوں کے لیے مزید رقبے کی ضرورت ہوگی۔مرغن ،مصالحہ دار، مصنوعی اور غیرمعیاری مشروبات پر پابندی سے بیماریوں کی روک تھام میں مدد کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر غیرضروری دباؤ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔اور قومی خزانے پر بھاری اخراجات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔یہ بھی درست ہے کہ اگر امدادی رقوم مستحق افراد کو ملیں تو بھی غربت کی سطح میں کمی ہو سکتی ہے۔کرپشن کی وجہ سے صرف دو فیصد افراد کا سرکاری ذرائع سے زکوٰۃ وصول کرنا بھی افسوس ناک امر ہے۔دنیا کی تین کروڑ بیس لاکھ تعلیم سے محروم بچیوں میں پچاس لاکھ پاکستانی بچیوں کا شامل ہونا بھی ہمارے لیے ندامت کا باعث ہے اور ہونا بھی چاہیے۔مقالہ نگار کا کہنا درست ہے کہ خوراک کے متبادل ذرائع مثلاً ثانوی اجناس جیسے چاول ، مکئی ، باجرہ اور جوار پر توجہ دینا ہوگی۔بنجر و بے آباد اراضی کو قابل کاشت بنا کر غذائی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔گندم کی UG-99 قسم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن بات اگلی دہائی کی نہیں،اگلے پچاس سال کی کریں۔مخصوص پیداواری خطوں کا چناؤ بھی ضروری ہے۔مثال کے طور پر بلوچستان کے ضلع چاغی اور خاران میں جہاں زیر زمین پانی خاصا قریب ہے ،۱۵ لاکھ ہیکٹر ایسی اراضی دستیاب ہے جہاں پر گندم اور دیگر ثانوی فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں۔اسی طرح کم پانی والی فصلیں بھی اس علاقے میں کاشت کی جا سکتی ہیں۔لیکن ان علاقوں میں امن لانے کی ضرورت ہے۔بلوچستان کی ساحلی پٹی پر پام آئل کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ ۳۰فیصد تک پھل ضائع ہو جاتے ہیں۔جدید تکنیک کے ذریعے اس میں کمی لائی جا سکتی ہے۔مقالات میں جگہ جگہ ٹیکنالوجیوں کا لفظ گراں گزرتا ہے۔کیا ’فارمرز فیلڈ‘ کی جگہ ’کسان کھیت سکول‘ ٹھیک نہیں۔

’نظام حکومت‘ میں ’پاکستان میں صوبوں کا نظام حکومت‘ اور ’وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات اور طریقہ کار‘کی طرز پر ’گلگت بلتستان‘ اور ’آزادکشمیر‘ کے نظام حکومت پر بھی ایک مبسوط مقالے کی ضرورت ہے۔’آثار اردو‘ میں ۱۹۲۸ء کا لکھا ہوا ’کیمیائی تالیف‘ از پروفیسر محمود احمد خان ایک وقیع مضمون ہے تاہم میرا موقف یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات (سائنسی) اسی طرح لکھی جائیں جس طرح مستعمل ہیں۔انگریزی نے خود بھی یونانی اور لاطینی اصطلاحات کو تبدیل نہیں کیا جیسے الفا،بیٹا اور گاما وغیرہ۔اگر ایسا نہ ہوا تو یہ اردو اصطلاحات کچھ لوگ ہی استعمال کریں گے اور زباں زد عام نہ ہو سکیں گی۔نیز اردو اصطلاح کے ساتھ انگریزی لفظ کا لکھا جانا بھی مفید ہوگا۔اصطلاحیات کا سلسلہ خوب ہے ۔کچھ الفاظ بہت خوب ہیں جیسے دخولیہ ، ارتعاشیہ ،والدینی نگہداشت ،موش خور ، شجری ٹڈا ، نشان انداز ، پیشرو وغیرہ۔’اشاریہ اردو جرائد‘ کے سلسلے کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بے مقصد قسم کے ادبی موضوعات پر لکھا جا رہا ہے اور اکثریتی لکھنے والوں کی اردو شاعری جیسے موضوعات سے متعلق ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جمود کی سی کیفیت ہے۔۲۰۰ صفحات کے اس علمی مجلے میں املا اور تلفظ کے مسائل تو نہیں تاہم الفاظ کے درمیان وقفے بہت ہیں۔اس پر آیندہ توجہ دیں۔

مجلے کی اس انفرادیت کو بحال رکھنے کی ضرورت ہے اور طب کے شعبے سے مقالات کو بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔اس سے پاکستان میں صحت کے حوالے سے جہاں صورت حال سامنے آئے گی وہیں پر طب میں اردو زبان میں لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ویسے بھی طب اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن پر اردو میں سائنسی انداز میں کام کرنے کی ضرورت اور گنجایش موجود ہے۔اردو صرف شاعروں اور مشاعروں کی زبان نہیں اس لیے اسے ادبی اور غیر ادبی میں تقسیم نہ ہونے دیں۔اس سماج میں بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو مختلف فنون جیسے انجینئرنگ ،تعمیرات ، تابکاری ،ماحولیات ، سماجیات ، نفسیات وغیرہ پر اردو میں بہترین مقالات پیش کرسکتے ہیں۔اور اس ٹوٹے پھوٹے سماج کو جوڑنے کے نسخے بھی پیش کر سکتے ہیں۔محدود کینوس سے آپ باہر نکلے ہیں۔باہر ہی رہیے گا۔کیونکہ باہر ہی تازہ ہوا ہے۔آپ کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے دعاگو ہیں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 56937 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More