خوش نصیب شعرا

دنیا میں شاعری اور شاعروں کا نصیب کبھی قابلِ رشک نہیں رہا۔ ویسے بھی شاعری کا مزاج فقیرانہ ہوتا ہے اور کچھ امیروں کی مہربانیاں بھی امیروں ہر ہی زیادہ ہوتی ہیں۔وقت ا ور حالات بھی شاعروں کے موافق نہیں رہتے۔غالبؔ چاہے یہ کہے:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

لیکن شاعر اگر فقیر کے بھیس میں نہ بھی ہو ، وہ فقیر ہی ہوتا ہے، کیونکہ شاعری کی اساس ہی فقیری ہے۔ میرؔ نے بھی فقیر ہونے میں تھوڑا سا اغماض برتا ہے:
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

لیکن بعد میں انھوں نے اپنے آپ کو فقیر مان بھی لیا:
ہم فقیروں سے کج ادائی کیا
آن بیٹھے جو تو نے یاد کیا

ان فقیروں کو زمانے کے امیروں نے جس قدر ستایا ہے یہ وہی جانتے ہیں۔زمانے کے امیروں میں کہیں بادشاہ،سلطان،حکمران،گورنر،درباری وغیرہ رہے ہیں۔ لیکن جس امیر نے ان کو نشانِ عبرت بنایا ہے وہ ان کا اپنا ہی منتخب کردہ محبوب، معشوق، صنم،شوخ،چنچل اور قاتل شخص ہوتا ہے۔اسی کے ہاتھوں بار بار ستائے جانے پر شاعر کو مجبوراً کہنا پڑا:
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہر سمت اور ہر علاقے میں شاعر اس ناخدا کو خدا کی طرح پوجتے تو رہے ہیں مگر اس ناخدا نے ہمیشہ صنم بے دل ہونے کا ثبوت ہی دیا ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ شاعر اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کو ایسے ترسا کرتے تھے جیسے لوگ میدانِ حشر میں پانی کی ایک بوند کو ترسیں گے۔ لیکن یہ معشوق، معبود کی سی بے نیازی اختیار کرتے اور عاشقوں کو جرمِ عشق پر سزائے موت سے بھی بڑی عقوبتیں دیتے۔ اُدھر یہ عاشق محبوب کی قربت کو زندگی پر ترجیح دیتے عام پائے جاتے:
موت بہتر ہے اس زندگی سے مجھے
پاس بیٹھے رہو دَم نکلتا رہے

لیکن وہ بے نیاز اس شرط پر بھی پاس بیٹھنے کو تیار نہ ہوتے، کیونکہ وہ بے وقوف نہیں تھے کہ کسی دیوانے کا قتل اپنے سر لے لیں۔

یہ نامراد شاعر گھر بار سے تنگ آکر مشاعروں میں سر جوڑ کر بیٹھا کر تے اور ایک دوسرے کی بپتا سن کر اپنا کتھارسس کیا کرتے۔ ایک دوسرے کی غزلوں میں جی بھر کر واہ واہ کیا کرتے۔ ایک دوسرے کی عطا کردہ داد اپنے لئے سرمایہء آخرت سمجھا کرتے۔یوں زخمِ جگر پر پرہم لگا کر اپنے محبوب کی یاد سے وقتی فرار حاصل کرتے۔محبوب کی یاد جنگلوں اور ویرانوں میں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑتی۔ گھر کی طرح دشت بھی ویراں ہو جاتے:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اس ستم گر بے اعتنائی کو آج کے حالات سے موازنہ کریں تو آج کا شاعر کتنا خوش نصیب نظر آتا ہے جس کے معشوق کے پاس چار چار سموں والے دو تیں موبائل ہوتے ہیں۔شاعر کو صرف کارڈ لوڈ کروا کے دینا ہوتا ہے۔ پھر چاٹ، میسجنگ،کالنگ وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ۔محبوب یا عید کے چاند کے نظر نہ آنے کے زمانے اب پرانے ہو چکے ہیں۔فیس بک پر اکثر محبوب مل ہی جاتا ہے۔ اس سے آن لائن ہو کر ساری رات باتیں کی جا سکتی ہیں۔ خفیہ کمیونیفیکیشن کے نظام بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔

آج کا شاعر خوش نصیب ہے کہ اسے محبوب تک رسائی کے متعد د ر استے دستیاب ہیں۔بس پیسے کا دھوکا ہے، محبوب بالکل قریب ہے۔ماضی کی تمام نہیں تو بہت ساری رکاوٹیں تو وقت کے اس تغیر نے قصہء ماضی بنا ہی دی ہیں۔قاصد یا نامہ بر کی راہ تکنے یا منہ تکنے کی اب چنداں ضرورت نہیں۔

آج کل کے شاعر اس لحاظ سے بھی خوش نصیب ہیں کہ آج کل کی کچھ شاعرات شاعروں کے شانہ بشانہ مشاعرے پڑھ رہی ہیں۔اس خوش نصیبی پر ماضی کے آرام فرما شاعر ضرور اپنی آرام گاہوں میں بے چین ہو کر اپنی قسمت کو کوس رہے ہوں گے کہ وہ اس زمانے میں کیوں نہ ہوئے جب محبوب اتنے مہربان ہو چکے ہیں۔ہائے وہ تو ہجروفراق کی آگ میں ہی جلتے جلتے راکھ ہو گئے۔

آج کا شاعر اس لحاظ سے بھی خوش نصیب ہے کہ کچھ شاعرات اور بہت سے محبوب انسان دوست اور ترقی پسند بھی ہیں اور قدیمی روایات کے پابند ہرگز نہیں۔ بے اعتنائی، بے رخی، بے مروتی جیسی چیزیں اتنا اچھی نہیں سمجھی جاتیں۔

جبکہ کچھ شاعروں پر اس صورتِ حال کا اثر الٹ بھی ہوا ہے۔ گھر میں بیوی سے اکتا جانے کے بعد جب وہ مشاعروں میں آتے ہیں تو وہاں بھی بیوی جیسی صورتیں بیٹھی ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ پھر سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ایسی حالت میں اس شعر کی آمد ایک لازمی امر ہے:
کدی تے پیکے جا نی بیگم
آوے سُکھ دا ساہ نی بیگم

آج کے اس خوش نصیب شاعروں کے زمانے میں ہر شاعر کا نصیب اچھا ہو ضروری تو نہیں ۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285256 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More