سائنس یا خود کشی

سن دو ہزار پچیس تک مارس کے منصوبے کے تحت انسان کو مریخ پر بھیجا جائے گا ، بڑے خطرات کو مدنظر رکھ کر اسلامی مذہبی اتھارٹی اس منصوبے کے خلاف ہے ان کا کہنا ہے یہ منصوبہ حرام اور خود کشی کے مترادف ہے ۔

’’ ڈچ فاؤنڈیشن مارس ون ‘‘ انسان کو دوہزار پچیس تک مریخ پر بھیج کر اس عظیم الشان منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس تاریخی منصوبے میں متعدد روکاوٹیں پیش آ رہی ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے سرخ پڑوسی سیارے پر جانے کا صرف یک طرفہ ٹکٹ ہے واپسی کے سفر کو خارج کر دیا گیا ہے ۔ مریخ پر زندگی گزارنا خطرے سے خالی نہیں ہے چند لوگوں میں اس منصوبے کو خود کشی کے مشن کا نام دیا جا رہا ہے ۔مسلم دنیا کے مذہبی لوگوں کی اتھارٹی نے اس ناخوشگوار منصوبے میں مسلمانوں کو حصہ لینے سے منع کیا ہے کیونکہ اسلام میں اسے حرام اور خود کشی سمجھا گیا ہے ۔

دوبئی میں قائم General Authority of Islamic Affair and Endowment نے مسلمانوں کو اس منصوبے میں شرکت کرنے سے منع کیا ہے اور کہا کہ جو اس منصوبے کا حصہ بنے گا اس پر فتویٰ جاری کیا جائے گا ، مسلم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مریخ پر اگر کسی کی موت واقع ہو جائے تو وہ جہنم میں جائے گا علاوہ ازیں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ خود کشی حرام ہے اور دوسرے انسان کو مارنے والا جہنمی ہے-

مارس ون فاؤنڈیشن نے اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے مسلم اتھارٹی سے التجا کی ہے کہ مریخ پر جانے کے اس تاریخی منصوبے پر جاری فتویٰ واپس لیا جائے اور اس سفر کو مسلمانوں کے لئے بھی ممکن بنایا جائے ، بظاہر یہ ایک خطرناک منصوبہ لگتا ہے کہ انسانوں کو مریخ پر بھیجا جائے لیکن انسان کو مریخ پر بھیجنے سے پہلے کم سے کم آٹھ روبوٹ پر مشتمل ٹیم اس مشن میں شامل ہو گی جو وہاں پہنچ کر تمام حالات واقعات کا جائزہ لیں گے مختلف یونٹس ریسرچ کریں گے ، ہوا پانی اور دیگر چیزوں پر کام ہونگے یہ سب خطرناک اور رسک سے بھر پور مشن ہے ان تمام کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ہی انسان کو مریخ پر بھیجنے کا اہتمام کیا جائے گا ۔ مارس ون کے مطابق اب تک دنیا بھر سے دو لاکھ سے زائد لوگوں نے مریخ پر جانے کی درخواست دی ہے ان میں پانچ سو سے زائد سعودی باشندے اور دیگر عرب ممالک کے افراد شامل ہیں ، گزشتہ سال دسمبر میں اورگنائزیشن نے ایک ہزار اٹھاون امید واروں کو منتخب کیا تھا جو اس سرخ سیارے کا سفر کرنا چاہتے ہیں ان میں کتنے مسلمان ہیں فی الحال نہیں بتایا جا سکتا ۔
’’ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ خود کشی حرام ہے اور انسان کو مارنے والا جہنمی ‘‘ ۔اتھارٹی کیا اس بات سے لاعلم ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات اسلامی ممالک میں ہی رونما ہوتے ہیں انسانوں کو صرف اسلامی ممالک میں ہی بے رحمی ، بے دردی اور سفاکی سے قتل کیا جاتا ہے ؟

مغربی دنیا میں شاز و ناظر ہی اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر انہیں کڑی سزائیں بھی دی جاتی ہیں جبکہ کئی اسلامی ممالک میں دن دیہاڑے روزانہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور قاتل کھلے عام سڑکوں پر وحشی درندوں کی طرح دندناتے پھرتے ہیں انہیں کوئی اتھارٹی حرام قرار کیوں نہیں دیتی ، کیا کسی اتھارٹی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ ’’ کس کتاب میں لکھا ہے سائنس حرام ہے اور انسان کو قتل کرنا حلال‘‘ ۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.