میں الطاف بھائی کے لیے کچھ نہیں کرسکا سوائے دعا کے دوست
مشکل میں ہو تو اس کی فوری مدد کرنا چاہیے،دوست تو دوست ہوتا ہے اس میں
خوبیاں بھی ہوتی ہے اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ آسودگی میں خامیوں کا ذکر بھی
ہوجاتا ہے، مگر دوست کی خامی کا بھی حامی ہونا چاہئے، دوست کے لیے حمایت
ہونا چاہئے، مجھے الطاف بھائی کی خامیاں یاد نہیں آرہی ہیں، انہوں نے اپنے
لیے ایک راستہ چنا تھا وہ اپنے راستے پر ہیں۔ وہ بہت بڑے مسافر ہیں ہمسفر
بھی ہیں میں ان سے کبھی ملا نہیں ہوں، نہ ان کی پارٹی ایم کیو ایم سے میرا
کوئی تعلق ہے، ان کی تقریریں سنتا ہوں، پر میں انہیں بہت لائیک کرتا ہوں وہ
مجھے اچھے لگتے ہیں ان کی باتیں اچھی لگتی ہیں، الطاف بھائی اور سیاستدانوں
سے بہت مختلف قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، اگر ان سے فون پر باتیں کرو تو
آدھے پون گھنٹے سے کم بات نہیں کرتے وہ بور بھی نہیں کرتے، وہ لاکھوں
کروڑوں عوام کے لیڈر ہیں۔ واقعی وہ لیڈر ہیں۔ ورنہ پاکستان میں آج کل صرف
سیاستدان ہیں لیڈر نہیں ہیں، سیاستدان تو حکمران بننا چاہتے ہیں-
ہزاروں میل دور کئی برسوں سے بیٹھے ہوئے انسان کے ساتھ رابطہ ضبط قائم ہے،
الطاف بھائی کے اکثر چاہنے والوں نے انہیں حقیقت میں دیکھا نہیں ہوگا پر
انہیں توجہ اور شوق سے سنتے ہیں سننے والے بڑے کام کے ہوتے ہیں وہ لاکھوں
عوام کے دلوں میں رہتے ہیں اور راج کرتے ہیں، میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ
جو جو میں نے پڑھا ہے مجھے کم کم یاد ہے اور جو میں نے سنا ہے وہ مجھے سب
یاد ہے، کون ہے اس زمانے میں لوگوں کو معلوم ہوں وہ بہت دور سے بولتا ہے وہ
کہتا ہے کہ خاموش ہوجائوں تو فورا ایک سناٹا چھا جاتا ہے اور کہیں سے
سرگوشی کی آواز بھی نہیں آئے، اتنی خاموشی کہ خاموشی بھی بولنے لگے۔ کسی
بھی لیڈر بلکہ سیاستدان کی تقریر کے دوران ڈسپلن ہوتا ہے، لوگ نعرے مارتے
ہیں پر خاموش نہیں ہوتے۔ اگر آج کسی سیاسی پارٹی کو ڈسپلن سیکھنا ہے تو
متحدہ قومی موومنٹ سے سیکھے-
ایک شخص الطاف حسین صرف سنائی دیتا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آواز کی
بھی کوئی شکل ہوتی ہے، ویسے تو میاں نواز شریف زرداری کے لیے بھی ایک نا
واقف سی محبت ہے میرے دل میں پر یہ سیاستدان اپنے قول وفعل میں سچے ثابت
نہیں ہوئے آج تک آج میاں صاحب تیسری بار برسر اقتدار ہیں پر وہ کبھی اپنی
حکومت کے دن پورے نہیں کرسکے، انہیں ہٹانے والے حیران ہیں کہ وہ پھر آجاتے
ہیں، وہ جانے کے لیے آتے ہیں، ان کے لیے یہ جملہ بہت اچھا ہے کہ وہ آتے
جاتے رہتے ہیں، ان کے متوالے نعرے لگاتے ہیں کہ نواز شریف قدم بڑھائو ہم
تمہارے ساتھ ہیں، انہوں نے ایک بار خود کہا کہ اس نعرے کی باز گشت میرے
لاشعور میں تھی میں پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا، الطاف بھائی تو
نظر بھی نہیں آرہے ہوتے اور عوام ان کے ساتھ ہوتی ہیں، نواز شریف پر یہی
افسوس ہے کہ انہوں نے جلاوطنی اور ہموطنی کو آپس میں رلایا ہے ملایا نہیں؟
الطاف حسین تو کہتے ہیں کہ میں کبھی وزیراعظم نہیں بنوں گا، میرے قبیلے کا
کوئی بھی آدمی کوئی عہدہ نہیں لے گا اور یہ انہوں نے کر دیکھایا ہے، یہی
باتیں ہیں کہ لوگ ان سے پیار کرتے ہیں، ان پر اعتبار کرتے ہیں، خاندانی
حکومت اور مورثی سیاست کا کوئی طعنہ ایم کیو ایم پر کبھی نہیں لگا، میڈل
کلاس کے لوگ اسمبلیوں میں ہیں، وزیر بھی یہی لوگ بنے انہیں معلوم نہیں کہ
وہ واقعی وزیر ہے، اب کچھ لوگوں نے اپنی کلاس قبول کی ہے۔ جاگیرداروں اور
سرمایا داروں کی ساری نسلوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ وزیر شذیر ہوتے ہیں-
میں شاہد الطاف حسین کو کبھی نہ دیکھوں، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے میں
سوچتا ہوں کہ ہر کوئی انہیں الطاف بھائی کیوں کہتا ہے، رشتے اور رتبے کو
ملا جلا دیا گیا ہے بھائی لیڈر کے معنی میں بھی ہے اور ایم کیو ایم کا تو
ہر شخص بھائی ہے، عورتیں بے چاری کیا کریں وہ ہر کسی کو تو بھائی نہیں کہتی
مگر پارٹی میں تو ہے اب الطاف حسین کے لیے گھروں سے نکل آئی ہے، الطاف
بھائی کی رہائی کے لیے بچوں کی طرح روئی ہیں، الطاف حسین کو الطاف بھائی
کہتی ہیں، یہ ادائے دلبرانہ بھی الطاف بھائی کو حاصل ہے، ایک نقطہ اور لگا
دیا جائے تو یہ ادائے دلیرانہ بھی بن جاتی ہے-
الطاف بھائی لندن میں ہیں اور ان کی حکومت کراچی میں ہے، وہ 20 برس سے لندن
میں ہیں برطانوی پولیس کو اب پتہ چلا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کیس میں ملوث
ہیں، برطانوی پولیس کی بڑی دھوم ہے انہوں نے شہید بی بی کے قاتلوں کے لیے
زرداری کے کہنے پر تفتیش کی تھی، یورپ اور امریکہ میں دو قانون ہوتے ہیں
ایک اپنے ملک کے لیے اور ایک کمزور ملکوں اور مسلمانوں کے لیے، اس کے لیے
انصاف ضروری نہیں ہوتا، الطاف حسین برطانیہ کے شہری ہے تو وہ پاکستان کے
شہری بھی ہیں، الطاف بھائی نے برطانیہ میں رہ کر پاکستان کی سیاست کی ہے
برطانیہ میں منی لانڈرنگ کا معاملہ ان کے ملک کا نہیں کراچی سے جڑا ہوا ہے،
کراچی کی عوام غصے میں تھی ان کی حراست کے دوران انہیں کسی بات پر کوئی
اعتراض نہیں تو برطانیہ کی پولیس کو کیوں اعتراض ہے، اس طرح کی بات پر ایک
پولیس افسر نے کہا کہ یہ برطانیہ ہے پاکستان نہیں ہے یہ بات پاکستان کے
حکمرانوں کے لیے شرمناک ہے، اب وہ اس تشویش میں مبتلا ہیں، کہ منی لانڈرنگ
کا مقدمہ ان کے خلاف بھی بن سکتا ہے، ہمارے چھوٹے بڑے تمام سیاتدانوں کی بے
تحاشا جایئدادیں اور سرمایا لندن میں ہے تو پھر برطانوی پولیس ہمت کرے اور
ان سب کرپٹ حکمرانوں پر مقدمے چلائے، ان سب لوگوں کی سیاست اور حکومت
پاکستان میں ہوتی ہے اور دولت سرمایا یورپ امریکہ میں ہے، الطاف بھائی بھی
بہت سادہ لگتے ہیں ورنہ وہ پاکستانی سیاستدانوں سے پتہ کرسکتے تھے کہ دولت
کو کس طرح محفوظ کیا جاسکتا ہے، وہ نواز شریف زرداری کو چھوڑ کر عمران خان
سے پوچھ لیتے سنا ہے عمران خان کے بڑے اثاثے لندن میں ہے-
یہ کرپٹ حاکم بار بار اقتدار میں آتے رہتے ہیں کسی کو آج تک کوئی سزا نہیں
ملی لوٹی ہوئی دولت کبھی واپس نہیں آئی ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اس کے
باوجود انعام پاتے ہیں، اب ہم کہتے ہیں کہ الطاف بھائی پاکستان آجائو یہاں
کسی میں اتنی جرات نہیں کہ آپ کو گرفتار کرسکے الطاف بھائی بہادر آدمی ہیں
وہ سزا کے لیے بھی تیار ہیں میں ان کے لیے دعا گو ہوں، بردارم فاروق ستار
نے کہہ دیا کہ الطاف بھی سے محبت کرنے والوں اور شرپسندوں کو الگ الگ کردیا
ہے- |