مری ‘ کوٹلی ستیاں اور تحصیل
کہوٹہ کی تین یونین کونسلوں کو شامل کرکے نیا ضلع مری بنانے کے مجوزہ فیصلے
کے بعد گوجرخان ضلع بنانے کی دم توڑتی ہوئی تحریک میں ایک دفعہ پھر جان
آگئی ہے جس کی وجہ سے شرقی و غربی گوخرخان کے علاوہ شہر بھر سے سیاسی و
سماجی حلقوں اور سول سوسائٹی نے ضلع گوجرخان بنانے کی آواز بلند کرنا شروع
کردی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رائے عامہ
ہموار کرنے لیے اجلاس بلانے ‘ کمیٹیاں تشکیل دینا اور اخبارات میں بیانات
جاری کرناشروع کردئیے ہیں اوریہاں سے منتخب لیگی اراکین سے مستعفیٰ ہونے کے
بھی مطالبات سامنے آئے ہیں اگر ماضی میں دیکھاجائے تو مسلم لیگ ن اور
پیپلزپارٹی نے ہر دور میں گوجرخان کو ضلع بنانے کے عوامی مطالبے کی حمایت
کرکے ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرنے کے بعد عوامی مطالبے کی جانب کوئی
توجہ نہ دی راجہ پرویز اشرف کے اتفاقی وزیر اعظم بننے کے بعد عوام میں ضلع
بنانے کی امید میں تقویت آئی اور محفل میں یہ بات موضو ع بحث بننے لگی کہ
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف گوجرخان کے پہلا دورہ موقع پر اس کو ضلع بنانے
کا وعدہ ضرور پورا کرینگے اور ضلع بنانے کے اعلان کو سننے کے لیے تحصیل
گوجرخان کے عوام نے سیاسی وابستگیوں کو پس پشت رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے
دورہ گوجرخان کے موقع پر ان کا بھر پور استقبال کرنے کے لیے جلسہ گاہ کا رخ
کیا اور پنڈال کو کھچا کھچ بھر ا دیکھ کر وزیر اعظم نے اپنے حلقہ کے عوام
آواز کی ترجمانی کرتے ہوئے ضلع گوجرخان بنانے کا دھمیے لہجے میں اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت ضلع بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کرے اس مد میں
آنیوالے تمام اخراجات کو وفاقی حکومت برداشت کرے گی راجہ پرویز اشرف کی
جانب سے ضلع بنانے کی حتمی ذمہ داری پنجاب حکومت کے سر ڈالنے کے بعد عوام
کی توقعات پر ایک مرتبہ پھر پانی پھیر گیا کہ وفاقی حکومت گوجرخان کو ضلع
بنانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے جس کی بناء پر گزشتہ ایک دہائی سے کوشاں
گوجرخان ضلع بناؤ تحریک نے بھی مکمل خاموشی اختیارکرلی اس میں کوئی شک نہیں
کہ گزشتہ دودہائیوں سے وفاقی دارالحکومت کے گردونواح میں ہاوسنگ سوسائٹیوں
کی بھر مار ہونے اور کراچی جیسے روشنیوں کے شہر میں حالات خراب ہونے کی وجہ
سے کاروبار ی حلقوں اور امراء نے راولپنڈی اسلام آباد کی جانب رخ کرلیا اور
جس سے وفاقی دارلحکومت کے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ ضلع راولپنڈی کے ساتوں
تحصیلوں کلرسیداں کہوٹہ کوٹلی ستیاں مری ٹیکسلا اور گوجرخان کی آبادی میں
لاکھوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک ضلعی انتظامیہ کیلئے اتنی بڑی
آبادی کو یکساں حقوق کی فراہمی ایک مسلہ بناء ہوا ہے اس حوالے سے اگر محکمہ
صحت کی کارکردگی کو ہی دیکھا جائے تو ضلع راولپنڈی میں تقریبا98بنیادی
مراکز صحت ہیں پنجاب حکومت نے بجٹ 2013-14 میں ضلع راولپنڈی کے مذکورہ
بنیادی مراکز صحت کے لیے صرف 60لاکھ روپے ادویات کی مد میں مختص کیے تھے جس
کے تحت ایک مرکز صحت کیلئے سالانہ 61224اور ماہانہ5102روپے جس کے تحت
ہسپتال کے ماہانہ 26ورکنگ دنوں کیلئے ایک دن کی ادویات کیلئے 197روپے
ادویات فراہمی راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کرتی ہے جبکہ ان مراکز صحت میں
روزانہ اوسط مریضوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جن کو 6روپے کی ادویات کی
فراہمی بنتی ہے اس لیے محکمہ کی جانب سے ملنے والی ادویات ماہ کے پہلے ہفتہ
میں ہی ختم ہوجاتی ہیں باقی دنوں میں مریضوں کوپرائیویٹ میڈیکل سٹوروں اور
کلینک سے ادویات کی خریداری کے مشورے دیئے جاتے ہں جبکہ ہر مرکز صحت میں
موجود عملہ کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ماہانہ چار سے پانچ
لاکھ روپے برداشت کرنے پڑرہے ہیں اسطرح رورل ہیلتھ سنٹر اور تحصیل
ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں ادویات اور پیر امیڈیکل سٹاف کی بھی سخت کمی پائی
جارہی ہے راولپنڈی کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظررکھتے ہوئے اگرگوجرخان کو
تحصیل کلرسیداں کے ساتھ ملا کر ضلع کا درجہ دے دیا جائے تو عوامی مسائل میں
کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے گوجرخان کی موجودہ آبادی تخمینہ کے مطابق چھ
لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جس طرح سے اس کے گردونواح میں تیزی سے اضافہ ہورہا
ہے آئندہ چند برسوں میں اس کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے لیکن
صوبائی حکومت محض اس لیے صوبے میں مذید ضلع بنانے سے گریزاں نظر آرہی ہے کہ
ضلع کے معاملات کو چلانے کے لیے اتنے بڑے انفراسٹرکچر کو بنانے کے لیے
اربوں روپے کے اخراجات کرنے پڑیں گے اس لیے ہر اٹھنی والی آواز کو ہر طرح
سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ سیاسی مفادات کو مدنظر
رکھتے ہوئے ضلع بنانے کے فیصلے کرتی آئی ہیں اگر ن لیگ کی صوبائی حکومت نے
پہاڑی علاقہ پر مشتمل کوٹلی ستیاں اور مری کو ملا کر ضلع کوہساریا مری
بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ صرف اور صرف سیاسی او ر مفاداتی ہی نظر آتا ہے
اگر آبادی اور وسائل کے لحاظ سے میرٹ پر فیصلہ کیا جائے تو حق گوجرخان کی
عوام کا بنتا ہے اگر مری کو سیاحتی حوالے سے مذید خوبصورت اور جدید سہولیات
کی فراہمی کو ممکن بناناضروری ہے تو اس کو وفاقی دارلحکومت کے ساتھ شامل
کیا جائے چونکہ1997میں ن لیگ کی وفاقی حکومت کے دوران مری کو وفاق میں شامل
کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی جس کو مری کے عوام نے بھی سہرا تھا لیکن اس کے
بعد حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ تجویز سرد خانہ میں چلی گئی تھی ن لیگ کی
حکومت کو چاہیے کہ ضلع راولپنڈی میں ن لیگ کا اپنا تشخص برقرار رکھنے کیلئے
انتظامی معاملات میں فیصلے میر ٹ کی بنیادوں پر کریں - |