مذاکرات کا ’’کھیل ‘‘ ختم؟

اختر وڑائچ
فتح جنگ میں ایک خود کش حملے میں پاک فوج کے دوافسروں سمیت پانچ افراد شہید ہوگئے۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اس طرح دہشت گردوں کے پھر سے منظم ہوکر ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف صف آراء ہونے کی شنید ہے۔ حملے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ دہشت گرد خود مذاکرات کے حامی نہیں تھے اور انہوں نے جو وقت دیا اور لیا اس دوران انہوں نے خود کو پھر سے منظم کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس ’زمانہ امن‘ میں بھی طالبان ریاست کے خلاف سرگرم رہے اور انہیں جہاں موقع ملا انہوں نے اپنے مقاصد پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ بعض حلقے یہ کہہ رہے تھے کہ طالبان کے وہ دھڑے جو مذاکرات کے خلاف ہیں، وہ یہ کام کررہے ہیں تاہم بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر طالبان کے بہت سے گروپ ہیں تو مذاکرات پھر کس سے کیے جائیں۔ یعنی سوالات ہی سوالات ہیں اور وہ بھی پرپیچ۔ گزشتہ دنوں مذاکرات کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔ شمالی وزیرستان میں حالیہ آرمی ایکشن اور مذاکرات زیر بحث تھے۔ پروفیسر مذکور آرمی ایکشن پر بہت ہی نالاں تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ویسے بہت سے لوگ مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کے مال املاک اور پیارے دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے۔ میرے خیال میں مذاکرات کی بات دراصل القاعدہ کا ایجنڈا بڑھانے والی بات ہے اور القاعدہ بقول بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے امریکی پیداوار ہے۔میدان جنگ کے ا پنے اصول ہوتے ہیں۔ وہاں کے حالات اور صورتحال کی نوعیت سپاہی کے علاوہ کسی اور کی سمجھ میں آنا مشکل ہے۔ میری درخواست ہے کہ پروفیسر اور ان جیسی سوچ رکھنے والے اپنے کسی بیٹے ، بھتیجے یا کسی اور نزدیکی رشتہ دار کو چند ماہ محاذ پر بھیج دیں۔ انہیں جنگ کے ماحول کا ادراک ہو جائے۔کچھ عرصہ پہلے تک فوج نے وزیرستان میں نقصا ن پرہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا لیکن صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ہمارے سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں نے دہشت گردی کے کسی واقعے پر کبھی بھی سخت الفاظ میں مذمت نہیں کی۔ طالبان نے دہشتگردانہ کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کی مگر مذمت کہیں نظر نہ آئی۔بہت سے لوگ حقیقت جانتے ہوئے بھی ان کے موقف کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ہاں لیکن اپنی حکومت کو بچانے کیلئے فوج کی مخالفت میں اتنا آگے مت جایئے او ر یاد رکھئے کہ پچھلے دور حکومت میں اے این پی نے بھی کاروبار حکومت چلانے کیلئے مولانا فضل اﷲ سے ہر قیمت پر مذاکرات کو ترجیح دی مگر آخر میں وہی کرنا پڑاجو بہت پہلے ہونا چاہئے تھا۔ دہشت گردی کی قیمت عوام اور فوج نے دی ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھئے اور معاملات کو اتنا نہ کھینچئے کہ آپکی اس ضد کی قیمت بھی عوام ا ورفوج کو دینی پڑے ۔ فتح جنگ کا واقعہ یہ شنید سنا رہا ہے کہ مذاکرات کا کھیل ختم ہوچکا۔ طالبان اپنی صفیں منظم کرچکے اور شاید انہیں پاکستان کے دشمنوں کی بھی سپورٹ حاصل ہے اسی لیے تو وہ پھر سے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف کمر کس چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے ہم اپنی سوچوں کا دھارا تبدیل کریں اور مذاکرات کی رٹ کی بجائے ہمارے ملک کو تیزی سے نگلتے اس عفریت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔
Hamayon Warriach
About the Author: Hamayon Warriach Read More Articles by Hamayon Warriach: 5 Articles with 3167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.