بسم اﷲ الرحمن الرحیم
فیروزاحمدندوی،نمائندہ خصوصی بصیرت آن لائن متحدہ عرب امارات
ہندوستان کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے خاص کر باریش مسلمانوں کے لئے
پریشان کن بنتا جارہا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہونے کے امکانات بڑھتے
ہی جارہے ہیں ، یہ خدشہ ملک کے کونے کونے میں مزید بڑھ رہا ہے ۔ جس کی زندہ
جاویدمثال معصوم وبے گناہ پونے کے آئی ٹی پروفیشنل 28 سالہ محسن صادق شیخ
کی لاٹھی اورڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر قتل کرنا ہے جس کو محض ایک مسلمان ہونے کے
ناطے ہندو راشٹر سینا کے غنڈوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ وہیں ایک
موقرروزنامہ کی خبر کے مطابق مظفرنگر کے شاملی سے بڈھانہ آرہی بس میں ایک
فیکٹری کے مینیجر کو نصف درجن غنڈوں نے محض مسلم سمجھ کر جم کر پیٹا اور
لہو لہان کردیا اور بس میں بیٹھے تمام مسافر تماشائی بن کریہ غنڈہ گردی
دیکھتے رہے ، بعدمیں جب خود متاثرہ شخص نے کہا کہ میں ہندو ہوں تو ان غنڈوں
نے اسے چھوڑ دیا ۔ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند وقف کے طالبعلم کا گولی
مارقتل کر دینا اور ٹرینوں میں مسلمان سمجھ کر مار پیٹ کرنا بسا اوقا ت
ٹرین سے پھینک دینا ان تمام و اقعات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کے
دلوں میں مسلمانوں کے لئے شدید نفرت بھر دی گئی ہے ۔
یہ نفرت سیاسی لیڈران کی دین ہے جنہیں ووٹ کے لئے کچھ بھی کرنا ہوتا ہے
چاہے ہندو مسلمان کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہو یاہندو نوجوانوں کے ذہن میں
مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنا ہو وہیں دوسری طرف جانب دار میڈیا کا بھی اہم
کردار ہے جو مسلم نوجوانوں کی غیر قانونی دھڑ پکر کو اس ناحیہ سے پیش کرتا
ہے کہ جیسے مسلم نوجوان ہی دہشت گرد ہیں ، اور جہاں ہندو نوجوان پکڑے جاتے
ہیں اس خبر کو یکسر دبا دیا جاتا ہے گویا وہ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔
اس طرح کے ماحول اور حالات میں بعض ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں جس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان اپنا فرض منصبی ادا کرنا شروع کردے تو یہ
غیرمسلموں کی نفرت وبغاوت کا تیورمحبت ومودت میں بدل سکتا ہے ، جیسے ایک
خبر کے مطابق سابق مرکزی وزیر گوپی ناتھ منڈے کی آخری رسومات کے دوران بہت
سے مسلم نوجوانوں نے لوگوں کے درمیان پانی اور ریفریشمنٹ انسانیت کے ناطے
تقسیم کئے جو اپنے آپ میں ایک اسلامی اخلاق کا اعلی نمونہ ہے ۔اسی طرح ایک
دیگر واقعہ میں مسلم نوجوان کو ایک بس کے کنڈکٹر نے ٹکٹ دینے کے ساتھ ایک
روپیہ زیادہ دیا ، جب وہ مسلم نوجوان بس سے اتر نے کے بعد پیسہ دیکھتا ہے
تواسے احساس ہوتاہے کہ کنڈکٹر نے اسے ایک روپیہ زیادہ دیدیاہے ۔ اس کے
اندراسلامی احساس پیدا ہو تا ہے کہ ایک روپیہ واپس کردینا چاہئے وہ بس کے
کنڈکٹر کو ایک روپیہ واپس کردیتا ہے ۔ کنڈکٹر کہتا ہے کہ میں مسلمان ہونے
جارہا تھا اور یہ ایک روپیہ زیادہ دیکر آپ کو آزمارہا تھا کہ دیکھیں کہ
مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟ اسلام کیسا ہوتا ہے؟ جو میں نے اسلام کے بارے میں
سنا ہے کیا واقعی صحیح ہے یا بس سنی سنائی باتیں ہیں ، اب میں سمجھ گیا کہ
اسلام واقعتا اچھا دین ہے۔ وہ مسلم نوجوان یہ سب دیکھ کر سوچنے لگتا ہے اگر
میں آج ایک روپیہ رکھ لیتا اور اسے واپس نہیں کرتا تو اس کے دل میں اسلام
اور مسلمان کے بارے میں نفرت پیداہوجاتی ، اوروہ کبھی ایمان نہیں لاتا۔
یہ حالات تو اتنے زیادہ خطرناک نہیں ہوئے جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
بعثت کے وقت تھے کہ ہر طرف مشرک ہی مشرک کوئی اﷲ وحدہ لاشریک کا نام لینے
والا نہیں معمولی باتوں پر ایسے ایسے جھگڑے اور فساد ، لوٹ مار کہ پشتوں
اور خاندانوں تک یہ جھگڑے ہوا کرتے تھے ، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی نور کی
معمولی کرن بھی نظر نہیں آتا تھا ۔ ایسے حالات میں نبی صلی اﷲ علیہ اور
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے کیا راستہ اپنایا ؟اور اس جھگڑے اور
فساد ، گھٹاٹوپ تاریکی کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا؟ وہ تمام
واقعات اور نمونے ایک مومن کے لئے مشعل راہ ہیں جسے اپناکر آج کے حالات کا
مقابلہ کیا جاسکتا ہے ، اور وہ اسوہ ونمونہ غیر مسلموں کے درمیان پیش کرکے
اس کے دلوں میں اسلام اورمسلمانوں کے لئے محبت پیدا کی جاسکتی ہے۔
کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو صحابہ کی طرح نہیں ہیں پھر کس طرح ان حالات کا
مقابلہ کریں ؟؟ لیکن ایک مومن کو صحیح معنی میں مومن بننا پڑیگا تب جاکر
حالات بدلیں گے اﷲ تعالی کا یہی فرمان ہے ( تم ہی سربلند رہوگے اگر تم
حقیقی معنوں میں مومن بن کر زندگی گزارو )۔مثبت اور تعمیری سوچ وفکر کو
اپنانا ہوگا عقل وفہم سے صحیح فیصلہ لینا ہوگا ایسا نہ ہو کہ کسی کے معمولی
اکساوے میں آکر یا جوش میں ہوش کھوکر ایسا قدم اٹھائیں جس سے معمولی نقصان
پہونچائیں اور اس کے بدلے میں ہم اپنے قوم وملت کو بھیانک نقصان میں ڈال
دیں ، جس طرح ایک علاقے میں مسلم آبادی زیادہ ہیں تو وہاں ہم غلبہ حاصل
کرلیں لیکن جہاں مسلم آبادی کم ہے وہاں کے مسلمانوں کا کیا حشر کریں گے یہ
سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں آسام
اور مظفرنگر میں کیا ہوا کہ پورا مسلم محلہ اپنے گھر بار چھوڑ کر ریفیوجی
کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں ، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر
مسلمان معمولی احتجاج یا بعض نوجوان جوش میں پتھر بازی کرتے ہیں تو اس کے
بدلے میں پولیس گولی باری کرتی ہے جس کے نتیجہ میں کئی بے گناہ نوجوان شہید
ہوجاتے ہیں ، وہیں دوسری طرف اگر غیر مسلم احتجاج بلکہ توڑ پھوڑ اور غنڈہ
گردی بھی کرتا ہے تو پولس صرف تماشائی بنی رہتی ہے اور میڈیا بھی اس طرح کی
خبروں سے کنارہ کشی کرتا ہے اس کی مثال بھیونڈی اور کئی جگہیں جہاں مسلم
نوجوانوں نے پتھر بازی کی اس کے بدلے میں پولیس کی گولی باری ہوئی اور
میڈیا کا رویہ بھی ہمیشہ جانب دارانہ رہا ہے ابھی حال میں پونے کے واقعہ
میں خود میڈیا نے اعتراف کیا کہ جب پونے میں شرپسندوں نے کئی دنوں تک توڑ
پھوڑ، آگ زنی ، لوٹ مار کا ننگا ناچ کھیلا تو میڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی
جب ایک بے قصور مسلم نوجوان کی موت واقع ہوئی تو میڈیا نے اس جانب توجہ کی
۔
اس سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ حالات کے سدھارنے اور بگارنے میں میڈیا کا
بہت بڑا رول ہوتا ہے ، ہندوستان کا میڈیا خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا
الیکٹرانک میڈیا کس کے ہاتھ میں ہے؟ ہمیں خوب علم ہے ،اس لئے اس جانب شدت
سے ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ مسلمان اپنا اثر و رسوخ والا میڈیاہاؤس قائم
کریں اور مسلم نوجوان اس میدان میں سامنے آئیں۔ جو صاحب ثروت ہیں اس جانب
قدم اٹھائیں اور قوم وملت کی بھلائی کے لئے غیر جانب دار ہوکر کام کریں ،
مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ دی گئی ہے اس کی تصحیح کریں اور قوم وملت کے ساتھ ہم
وطنوں کو یہ پیغام دیں کہ اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے اور اس کے ماننے والے
سلامتی پسندہیں جو اپنے ملک میں امن وآشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں دوسروں
کے لئے بھی امن وسلامتی کا پیغامبر ہے ۔
میڈیا میں صرف اردو میڈیا تک محدود نہ رہیں کیونکہ اردو میڈیا صرف مسلمانوں
تک محدود ہے اس سے آگے بڑھنا ہوگا ۔ ہندی اور انگلش اور علاقائی زبانوں تک
رسائی کرنی ہوگی بلکہ پرنٹ میڈیا سے آگے الیکٹرانک میڈیا میں قدم جمانا
ہوگا ، اس کیلئے ذی فہم لوگ اور مسلمانوں میں سے مالداروں کو اس جانب قدم
آگے کرنا ہوگا ، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ا یسے لوگوں
کی کمی ہے یا صحیح ادراک رکھنے والے نہیں ہیں بس عزم مصمم اور عمل پیہم کی
ضرورت ہے ۔
ایک بات اور یہ کہ ادھر کئی سالوں سے یہ دیکھنے میں آیا ہے غیر مسلم نوجوان
مسلمانوں کا حلیہ بناکر مسلمانوں کا نقصان کرتے ہیں مالیگاؤں بم دھماکے کے
بعد اخباروں کی خبروں کے مطابق کئی نقلی داڑھی اور ٹوپی ملے تھے۔ اس سے بڑھ
کر حیران کن بات یہ کہ ایک اور نیوز کے مطابق ہریانہ کے میوات کے علاقے میں
اکثریتی فرقہ کے ۶ لڑکے ایسے پکڑے گئے جو کسی مدرسے کا چندہ وصول کررہے تھے
اور شکل وصورت میں بالکل مدرسوں کے طالب علم کی طرح تھے اور مسلم نام ظاہر
کرتے تھے حالانکہ سب کے سب ہندو لڑکے تھے ، پولیس کو خبر دی گئی تو پولس
بھی کچھ نہیں کر سکی ، اور بعض ہندو نوجوان گائے کو جنگل میں ذبح کرکے شہر
میں مسلم نام سے بیچا کرتے تھے ، بمبئی کے آزاد میدان میں ایک مسلمانوں کے
احتجاجی جلوس کے درمیان اچانک میڈیا پر حملہ کرنا اور افراتفری مچانا یہ سب
ہندو نوجوانوں کا ہوناجو مسلم نوجوانوں کے شکل میں رہے ہوں گے سمجھ میں آتا
ہے ۔
ان تمام واقعات و حادثات سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ حالات
میں بالکل ہوشیا ر رہنا ہوگا اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے ساتھ
ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہماری صفوں میں، ہمارے احتجاج اور دھرنوں
میں ، ہماری مسجدوں اور مدرسوں میں ، ہمارے دینی مجلسوں اور پروگراموں میں
، اور ہمارے وہ تمام کام جو اجتماعیت یا انفرادیت کے ساتھ ہوتے ہیں گہری
نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں کوئی نامانوس چہرہ تو نہیں ہے ، کہیں کوئی مشکو ک
حرکت میں تو نہیں مبتلا ہے ، اگر اس طرح کا کوئی شخص نظر آجائے تو فورا
علاقے کے ذمہ داروں کے ساتھ پولس اسٹیشن میں خبر کردیں اگر پولس والے آنا
کانی کریں تو اس سے اعلی ذمہ دار آفیسر تک لیجائیں ۔ اﷲ تعالی ہندوستان کے
مسلمانوں کو اپنی حفاظت میں رکھے آمین ۔ |