پروفیسر اختر حنیف
(Dr Rais Samdani, Karachi)
پروفیسر اختر حنیف۔شعبہ لائبریری
و انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی کے ایک استاد
دنیا فانی ہے، موت ایک فطری عمل اور حقیقت ہے اس بات پر پختہ یقین اور
ایمان ہونے کے باوجود کبھی کبھی کسی کی موت ایک قابل یقین واقعہ بن جاتی ہے
اور دل و دماغ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔پروفیسر اختر
حنیف کی موت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء کووہ ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے ہم سے جدا ہوگئے ۔انا اﷲ وانا علیہ راجیعون۔
پروفیسر اختر حنیف اب ہم میں نہیں لیکن ان کی یادیں ، اعلیٰ کردار اور حسن
اخلاق ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ وہ شرافت کا پیکر، تصنع و بناوٹ سے
پاک ، کم گو اور خاموش طبع ہونے کے ساتھ ساتھ صاف ذہن و دل کے مالک تھے۔
ہندوستان کے شہر میرٹھ میں ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے ، بی اے ۱۹۵۴ء میں
میرٹھ کالج سے کیا ، دو سال بعد ۱۹۵۶ء میں پاکستان ہجرت کی اور اپنے خاندان
کے ہمراہ کراچی کی ایک قدیم بستی ’’بہار کالونی ‘‘ کو اپنا مسکن بنایا۔
ہندوستان سے نقل مکانی، ڈاکٹر عبد المعید سے تعلق اور پاکستان لائبریرین شپ
سے اپنی وابستگی کا ذکر اختر حنیف نے اپنے ایک مضمون اس طرح کیا کہ ’’ہم
لوگ ۱۹۵۶ء میں ہندوستان سے نقل وطن کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں بہار
کالونی میں سکونت اختیار کی اپنے مکان کے سامنے سے سوٹ میں ملبوس ایک پر
کشش شخصیت کو صبح و شام آفس جاتے ہوئے دیکھتا تھا ۔ مکان کے سامنے سے بہت
سے لوگ آتے جاتے تھے مگر اس انسان میں کچھ عجیب سے جاذبیت تھی جو میرے ذہن
میں اب تک محفوظ ہے ایک دن تعارف بھی ہوگیا۔ مسلم لیگ کے اخبار ’منشور‘ کے
ایڈیٹر حسن ریاض صاحب جو بہار کالونی ہی میں مقیم تھے سے ملاقات ہوئی اور
معلوم ہوا کہ آپ عبدالمعید ہیں اور کراچی یونیورسٹی کے لائبریرین ہیں۔ اب
سلام دعا ہونے لگی۔ایک دن ہمارے ہاں بڑے بھائی صاحب کے دوست محمود اختر
صاحب آئے اور ’پاکستان لائبریری ریویو‘ کا پہلا شمارہ دیا وہ اس کے ناشر
تھے اور کراچی یونیورسٹی کے ڈپلومہ (لائبریری سائنس ) کی پہلی کلاس کے طالب
علم ۔ انہوں نے لائبریری سائنس کی تعلیم اور لائبریری کے پیشہ کی بڑی مسحور
کن تصویر پیش کی اور مجھے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کرنے کی کی ترغیب دی،
میں ہندوستان سے بی اے کرکے آیا تھا اور اب تک کسی منا سب پیشہ سے وابستہ
نہیں ہو ا تھا لائبریری سائنس میں داخلہ لینے کے لیے راضی ہو گیا۔ یہ ۱۹۵۹ء
کی بات ہے اب معید صاحب پڑوسی کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہوگئے‘‘۔
اپنی ملازمت کے بارے میں اختر حنیف صاحب نے اپنے اسی مضمون میں لکھا کہ ’’
اب ملازمت کا سوال ہوا دبے الفاظ میں معید صاحب سے بات ہوئی صاف صاف الفاظ
میں فرمایا کہ میں آپ کو یونیورسٹی میں تو نہیں لے سکتا کسی اور جگہ سفارش
کردوں گا۔ مجھے بعد میں آئی بی اے میں ملازمت مل گئی اور اب میں لائبریرین
ہونے کے ناطے معید صاحب کا ہم پیشہ ہوگیا، پھر شعبہ لائبریری سائنس سے
منسلک ہونے کی وجہ سے ماتحتی میں بھی کام کیا‘‘۔ اختر حنیف صاحب ان خوش
قسمت لوگوں میں سے تھے کہ جنہوں نے جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم
اے کیا اور اسی تعلیمی استطاعت کی بنیاد پر نہ صرف آئی بی اے کے لائبریرین
ہوئے بلکہ جامعہ کراچی شعبہ لائبریری سائنس میں لیکچرر ، بعد ازاں ترقی
کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر شعبہ کے فرائض بھی انجام دئے۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۷ء تک
آپ نے نائیجیریا میں بھی خدمات انجام دیں۔۱۹۶۰ء میں جامعہ کراچی سے
لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ، ۱۹۶۳ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔
۱۹۶۰ء میں کینٹ پبلک اسکول کے لائبریرین ہوئے ، ۱۹۶۱ء میں آئی بی اے کے
لائبریرین مقرر ہوئے، ابتدا میں شعبہ لائبریری سائنس میں جزو وقتی لیکچرر
مقرر ہوئے بعد ازاں ۱۹۷۲ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے ترقت پاتے ہوئے پہلے
ایسو سی ایٹ پھر پروفیسر ہوئے اس دوران صدر شعبہ کے فراٗض بھی انجام دئے۔
آپ نے جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانے ’ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ‘ کے جزو
وقتی لائبریرین کے فرائض بھی انجام دئے۔ جامعہ کراچی سے منسلک رہتے ہوئے آپ
پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے زیر انتظام اسکول آف لائبریرین شپ میں
اعزازی استاد بھی رہے ریٹائر منٹ کے بعد آپ اس اسکول کے ڈائریکٹر بھی مقرر
ہوئے۔۱۹۹۳ء میں جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کالج آف فزیشن اینڈ
سرجن کے کتب خانہ سے منسلک ہوئے ۔اسی دوران آپ کو بیماری نے آگھیرا جس کے
باعث طویل سفر مشکل ہوگیا چنانچہ آپ نے یہ ملازمت تر ک کردی اور سر سید
یونیورسٹی کی لائبری سے منسلک ہوئے اور اپنی زندگی کے اختتام تک اس سے
وابستہ تھے۔
پیشہ ورانہ انجمنوں میں بھی اختر حنیف نے فعال کردار ادا کیا، پاکستان
لائبریری ایسو سی ایشن کے تا حیات رکن تھے۔ کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس
المنائی ایسو سی ایشن(KULSAA) کے ۱۹۷۵ میں سیکریٹری اور ۱۸۷۰ء میں اس کے
چیر مین رہے، اس انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالہ ’پاکستان
لائبریری ریویو‘ کے ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دئے، پی اایل آر کے ڈاکٹر
رنگا ناتھن نمبر کے ایڈیٹر اختر حنیف صاحب ہی تھے۔ انجمن فروغ و تر قی کتب
خانہ جات (SPIL) ، کے سیکریٹر ی اور دیگر اہم عہدوں کے علاوہ اس انجمن کے
خبرناموں کی ادارتی کمیٹی سے بھی آپ وابستہ رہے۔ پاکستان ببلو گرافیکل
ورکنگ گروپ(PBWG) کی سر گرمیوں میں عملی حصہ لیا، اس کے تحت چلنے والے
اسکول آف لائبریرین شب کے استاد اور ڈائریکٹر کے فرائض انجام دئے۔ لائبریری
پروموشن بیورواور اس کے تحت شائع ہونے والے رسالے ُپاکستان لائبریری بلیٹن
‘‘ کے انگریزی شعبہ کے ایڈیٹر کے فرا ئض بہت عرصہ انجام دئے۔آپ کو اس کے
اولین اداراتی بورڈ جو ۱۹۶۸ء میں تشکیل پا یا تھا کارکن ہونے کا اعزاز حاصل
ہے۔ لائبریری فورم کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا جس کے تحت ایک کتاب بھی
شائع ہوئی ۔
اختر حنیف اپنوں کی نظر میں
ماں، باپ، بھائی، بیوی، بچے اور دیگر قریبی عزیز رشتہ دار معاشرتی تعلق کی
بنیادی اکائیاں ہیں۔ انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ وقت انہیں اکائیوں
میں گزارتا ہے جس طرح ایک استاد کے بارے میں اس کے شاگرد ہی صحیح رائے
رکھتے ہیں اسی طرح کسی بھی شخص کی زندگی کے بارے میں یہ بنیادی اکائیاں
درست تصویر پیش کرتی ہیں۔ میں نے اختر حنیف سے تعلق رکھنے والی ان بنیادی
اکائیوں سے رابطہ کیا اور ان کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی
۔اختر حنیف مرحوم نے اپنے والد ، والدہ، ایک بھائی اور ایک ہمشیرہ کے ہمراہ
ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ آپ کے والد کا انتقال اپریل ۱۹۷۴ء میں ہوا ،
آپ کی والدہ بقید حیات اور ضعیف ہیں۔ بیٹے کی جدائی کے غم نے انہیں مزید
کمزور کر دیا ہے۔ آپ کی والدہ کا کہنا تھا کہ’’ اختر حنیف بچپن ہی سے کم گو
اور فرما نبر دار تھے، شرارت بالکل نہیں کرتے تھے ، میرا حد درجہ احترام
کیا کرتے جامعہ جانے سے قبل ان کے پاس ضرور جاتے۔ بیماری کے ایام میں جب کہ
سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوگیا تھا اکثر اپنی بچیوں سے میری خیریت معلوم کراتے
اور کہلواتے کہ جیسے ہی میں اس قابل ہوا کہ سیڑھیاں چڑھ سکوں آپ کے پاس
ضرور حاضر ہوں گا۔ اختر حنیف کے ایک بھائی اور ایک بہن ہیں ان کے بڑے بھائی
کا ۱۹۸۴ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہمشیرہ فردوس خاتون جو اختر حنیف سے بڑی
ہیں ایک مقامی اسکول میں استاد ہیں ، آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں بات
کرتے ہوئے بتا یا کہ ’’ اختر حنیف مجھ سے چھوٹے تھے اس لیے بھی وہ میرا بہت
زیادہ احترام کیا کرتے ، بہت ہی خہال انہوں نے میرا کیا، یہ احساس نہیں
ہونے دیا کہ میں تنہا ہوں، مجھے پڑھنے کی تر غیب دی خاص طور پر بی ا یڈ میں
میں نے ان کے نہ صرف کہنے پر داخلہ لیا بلکہ انہوں میری عملی مدد کی ، ان
کی وجہ سے ہی میں نے بی ایڈ کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مثالی بھائی تھے،
انہوں نے اس رشتہ کا حق ادا کردیا، ان کا وہ رویہ جو ان کی شادی سے پہلے
تھا بعد میں بھی وہ اس انداز سے پیش آتے رہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے ورنہ وقت
اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسان کے برتاؤمیں عام طور پر تبدیلی آہی
جاتی ہے۔ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
پروفیسر اختر حنیف کی چار بیٹیاں ثمیرا، صوبیہ، ثمن اور فر حین ہیں۔ ثمیرا
اور صوبیہ کی شادی انہوں نے اپنی زندگی ہی میں کی بلکہ بیماری کے ایام میں
فریضہ انجام دیا۔ثمن اور فرحین چھوٹی ہیں۔ ٹیلی فو پر گفتگو (بروز جمعہ ۵
اپریل ۱۹۹۶ء)کرتے ہوئے ثمن اور فرحین نے بتا یا کہ ان کے ابو بہت اچھے تھے
ہر طرح کا خیال رکھتے۔ اسکول خود چھوڑ نے جاتے ، اگر ہم میں سے کوئی کبھی
بیمار ہوجاتا تو فوری ڈاکٹر کے پاس لے جاتے اس دوران بہت زیادہ خیال
رکھتے۔ہمارے آرام و آسائش کا خاص خیال رکھتے ، چاہتے تھے کہ ہم زیادہ سے
زیادہ تعلیم حاصل کریں لیکن ہم چاروں بہنوں پر کبھی یہ زبر دستی نہیں کی کہ
ہم سائنس پڑھیں ، کامرس یا آرٹس بلکہ یہ چوائس ہم پر چھوڑ دی تھی‘‘، فرحین
نے ایک سوال کے جواب میں بتا یا کہ اس کے ابو خود سادگی پسند تھے لیکن ہم
پر کبھی پابندی نہیں تھی کہ ہم کس قسم کا لباس پہنیں البتہ سادگی کو بے حد
پسند کیا کرتے تھے۔گھر کو بھی صاف ستھرا اور جاذب نظر دیکھنا پسند کرتے ،
ثمن نے بتا یا کہ اس کے ابو کو ہم بہنوں پر کبھی غصہ نہیں آیا ۔ ہمیشہ
مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتے۔ کھلکھلاکر شاید ہی کبھی ہنسے ہوں زیر لب مسکرانا
ان کی خاص عادت تھی‘‘۔ثمیرا اختر حنیف کی سب سے بڑی بیٹی ہیں امریکہ کے شہر
کیلی فورنیا میں رہتی ہیں ان کے شوہر شفاعت کمپیوٹر انجینئر ہیں۔ ثمیرا نے
اپلائیڈ کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا انہوں نے اپنے ابو کے بارے میں فون پر
(بروز ہفتہ ۴ مئی ۱۹۹۶ء) کو بتا یا ہمارے ابو ایک حقیقت پسند اور مضبوط قوت
ارادی کے مالک تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی چاروں بیٹیاںBoldہوں، کسی پر
بھروسہ اور انحصار نہ کریں بلکہ تمام تر حالات کا مقابلہ از خود کریں یہی
وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیں خود اعتمادی کا درس دیا جس کی ایک چھوٹی سی مثال
یہ ہے کہ انہوں نے ہم تینوں بہنوں کو از خود کار چلانا سکھا یا۔ثمیرا نے
بتا یا کہ انہیں اسکول و کالج کے زمانے سے ہی کمپیئرنگ کا شوق تھا چنانچہ
جا معہ میں منعقد ہونے والی ایک بین الا قوامی فوڈ کانفرنس کی کمپیئرنگ
مجھے سوبپی گئی اس کی تیاری میں ابو نے بھر پور مدد کی اس کانفرنس میں غیر
ملکی مندوبین بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر اس وقت کے وائس چانسلر
ڈاکٹر سید ارتفاق علی ، شعبہ کی سربراہ بیگم راشدہ علی اور مسٹر بار لو سے
میں نے اپنے امی اور ابو کا تعارف کرایا۔ مسٹر بارلو نے ابو کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا 'you must be proud on your daughter'یہ جملہ میری کمپیئرنگ سے
متا ثر ہوکر کہا تھا اس جملہ کو سن کر ابو کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی
جو لہر تھی اس سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ جیسے اس جملہ سے انہیں اپنی فتح
اور کامیابی کا یقین ہو گیا ہو‘‘۔ ثمیرا نے اپنی امریکہ روانگی کا ذکر کرتے
ہوئے بتا یا کہ مجھے رخصت کرتے وقت ابو کی اشک بار آنکھیں بتا رہی تھیں کہ
انہیں یقین ہے کہ وہ اپنی اس بیٹی کو زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے
اور یہ کہ وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ر خصت کررہے ہیں۔اور حقیقت میں ایسا
ہی ہوا میں ابو کی زندگی میں پاکستان نہ آسکی اور وہ مجھ سے ملے بغیر ہی اس
دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے جس کا مجھے بے انتہا افسوس ہے۔گھر کے
ماحول کے بارے میں ثمیرا کا کہنا تھا کہ ہم سب لوگوں میں بہت زیادہ
understandingتھی۔ ابو ہم لوگوں سے ہر قسم کے موضوع پر گفتگو کیا کرتے تھے۔
وہ بہت کشادہ ذہن کے مالک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک شفیق باپ ہی سے محروم
نہیں ہوئے بلکہ ایک ہمدرد دوست اور محبت کرنے والے ساتھی سے بھی محروم
ہوگئے ہیں۔ اﷲ تعا لیٰ ہمارے ابو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب
فرمائے‘‘۔صوبیہ ثمیرا سے چھوٹی ہیں ان کی شادی کراچی ہی میں ہوئی انہوں نے
اپنے ابو کے بارے میں بتا یا کہ ابو کو وقت ضائع کرنا پسند نہیں تھا وہ کسی
نہ کسی کام میں مصروف رہنے کو اچھا سمجھتے تھے۔ جب کبھی ہم کسی تقریب میں
ابو کے ساتھ عزیز رشتہ دار کے ہاں جاتے تو ابو ہمیں سب لوگوں سے نہ صرف
ملایا کرتے بلکہ ہمیں یہ بھی بتا تے کہ ہمارا اُن سے کیا رشتہ ہے۔
پروفیسر اختر حنیف کی شادی ۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو اپنے ہی خاندان میں محترمہ نزہت
جمال سے ہوئی۔ یہ شادی گھر والوں کی پسند کی تھی۔ نزہت جمال ایک پڑھی لکھی
خاتون ہیں جنہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا ہے۔ اختر حنیف بحیثیت شوہر کیسے
تھے اور ان کی زندگی کے آخری ایام کی کیا رودادہے ۔ اس موضوع پر آپ سے
گفتگو ٹیلی فون پر(۱۹ مارچ ، ۵ اپریل ۱۹۹۶ء)کو ہوئی ، آپ نے بتا یا کہ ان
کے شوہر بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے اگر
کسی بات پر غصہ آجاتا تو خاموشی اختیار کرلیتے، گھر یلوکاموں میں بھی برابر
کے شریک رہتے ، تمام خاندانی معاملات یا کسی بھی مسئلہ پر مشورہ کرتے البتہ
حتمی فیصلہ خود ہی کیا کرتے، طویل اور بے مقصد گفتگو نہ تو خود کرتے اور نہ
ہی پسند کیا کرتے۔جہاں تک ممکن ہوتا اختصار سے کام لیتے ، ہم دونوں میں حد
درجہ ہم آہنگی تھی۔بیگم حنیف نے بتا یا کہ انہوں نے کبھی اس بات کا اظہار
نہیں کیا کہ ہمارا بیٹا نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیٹیاں ہی ہمارے
بیٹے ہیں۔بچیوں کا بہت خیال رکھتے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے زندگی
میں کبھی کسی چیز کی منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ میرے تمام کام خدا کی مرضی
سے خود بخود ہوتے چلے گئے۔مرحوم اپنے رشتہ داروں میں پسند کیے جاتے تھے ان
کے تمام احباب سے یکساں مراسم تھے۔ بیگم حنیف نے بتا یا کہ اختر حنیف کی
خواہش تھی کہ ان کی بچیاں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں وہ بچیوں میں
strong education کے قائل تھے۔ خواتین کو ملازمت کرنا چاہیے یا نہیں ۔اس
سوال کے بارے میں بیگم حنیف کا کہنا تھا کہ میں تعلیم یافتہ تھی لیکن مجھے
کبھی منع نہیں کیا کہ میں ملازمت نہ کروں لیکن یہ کہا کرتے کہ اگر بیوی
نوکری کرتی ہے توبچوں کی تر بیت متاثر ہوتی ہے اور بچوں کی بہتر تر بیت
نوکری سے زیادہ مقدم ہے۔ اختر حنیف کے دھیمے لہجے کا ذکر کرتے ہوئے بیگم
نزہت جمال نے کہا کہ میں اکثر کہا کرتی تھی کہ خدا را کسی وقت تو بلند آواز
سے بات کر لیا کریں تاکہ اس گھر کے در و دیوار بھی مردانہ آواز سن لیں۔
اختر حنیف کو لاحق مرض اور ان کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے بیگم نزہت جمال
نے بھرائی ہوئی آواز میں بتا یا کہ جامعہ سے ریٹائر منٹ کے بعد انہیں
ہچکیاں آنے لگی تھیں ، رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ علاج بدستور جاری
رہا یہ معلوم نہیں تھا کہ بظاہر ہچکیوں کی تکلیف ہے لیکن اندر ہی اندر خطر
ناک مرض پرورش پا رہا ہے جو بہت جلد انہیں اس دنیا سے دور لے جائے گا۔آپ نے
بتا یا کہ ۲۶ اپریل ۱۹۹۳ء کو تمام تر چیک اَپ (ٹیسٹ) کی رپورٹس دیکھنے اور
پوری طرح تسلی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے واضح کیا کہ انہیں جس مرض نے اپنے نر
غے میں لے لیا ہے شاید وہ اب اس سے پیچھا نہ چھڑا سکیں یہ مرض بلڈ کینسر
تھا۔ڈاکٹر نے یہ بھی واضح کردیا کہ ان کے پاس ڈھائی برس کی مہلت ہے۔بقول
اختر حنیف ان باتوں کا اثر فطری تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے آپ کو
سنبھا لا اس ڈر سے بھی کہ بچیوں کو اگر یہ بات معلوم ہو جائے گی تو ان کا
کیا بنے گا۔ ۲۶ اپریل ۱۹۹۳ء کی شب بہت ہی تکلیف میں گزری ، اندر ہی اندر ہم
دونوں میاں بیوی اس طرح روئے کہ دونوں کو اس بات کی خبر نہ ہوجائے حالانکہ
دونوں ہی اس بات سے با خبر تھے ۔ صبح اٹھ کر حسب معمول مصروفیات میں لگ
گئے۔ کہنے لگے کہ ’’دیکھو یہ تو زندگی کی حقیقت ہے اسے خوش دلی سے قبول
کرنا چاہیے‘‘۔اس گفتگو کے بعد بیگم حنیف خاموش ہو گئیں ۔ میں نے انہیں تسلی
دی ، اپنے طور پر حوصلہ بڑھانے کی باتیں کیں اور ان سے شکریہ کے ساتھ اجازت
چاہی۔
واقعی اختر حنیف بہت ہی مضبوط اعصاب کے مالک تھے اگر کوئی اور شخص ہو تا تو
وہ ڈاکٹر کی دی ہوئی ڈھائی برس کی مہلت تو کجا وہ ڈھائی ماہ مشکل سے زندہ
رہتا۔یہ مرحوم کی مضبوط قوت ارادی اور اﷲ کی ذات پر پختہ یقین ہی تھا کہ
انہوں نے نہ صرف ڈاکٹر کی دی ہوئی مہلت پوری کی بلکہ دوسال ساتھ ماہ کے بعد
اس دنیا سے رخصت ہوئے۔بلند ہمتی اور قوت ارادی کے ساتھ انہوں نے اس مرض کا
مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن پھر بھی اختر حنیف ہار گئے ۔ اس لیے کہ اﷲ تعا
لیٰ نے ان کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی انہیں وقت مقررہ پر اس دنیا سے چلے ہی
جانا تھا۔ کینسر یا کوئی اور مرض تو بہانا تھا ان کا وقت پورا ہوچکا تھا ۔
اپنی زندگی میں جو کچھ کرنا تھا بھر پور انداز سے کیا۔ بیٹے کی حیثیت سے
والدین کی خدمت کی، ان کا آخری وقت تک خیال رکھا، بھائی کی حیثیت سے بہن کو
بھائی کی محبت دی، شوہر کی حیثیت سے بیوی کو اطمینان اور سکون دیا ، باپ کی
حیثیت سے بچیوں کی مثالی پرورش کی انہیں زندگی گزارنے کے طور طریقوں سے
بخوبی آگاہ کیا ، استاد کی حیثیت سے بے شمار طالب علم پیدا کیے جو آج
سینکڑوں خاندانوں کی کفالت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ لائبریرین کی حیثیت سے
کئی کتب خانوں کی معیاری تنظیم و تر تیب
میں بھر پور حصہ لیا، منتظم کی حیثیت سے مثالی انتظام کی روایت ڈالی، ایک
مصنف ، مولف اور محقق کی حیثیت سے بے شمار علمی مواد تخلیق کیا۔
کس کو معلوم یونہی راہ پر چلتے چلتے
کون کس موڑ پہ کس وقت جدا ہوجائے
انسان مین بشری کمزوریون کا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اختر حنیف میں بھی بشری
کمز وریاں تھیں لیکن مجموعی طور پر ان کی شخصیت میں خوبیوں کے رنگ زیادہ
پائے جاتے تھے۔۔ پاکستان لائبریرین شپ کے لیے وہ ایک اثاثہ تھے ان کے
انتقال سے لائبریرین شپ کے پیشہ میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی نہ
بھر سکے۔ ان تمام احباب کا خاص طور پر بیگم ا ختر حنیف کے شکریہ کے ساتھ
جنہوں نے مرحوم کی شخصیت کے مطالعہ میں مجھ سے عملی تعاون کیا۔ اس دعا پر
اپنے اس مطالعہ کا اختتام کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اختر حنیف مرحوم کی مغفرت
فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔ آمین۔(مصنف کی کتاب
’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل ) |
|