کالا چور ، سفید چور

زندگی کی رنگینی میں رنگوں کو گوں نا گوں اہمیت حاصل ہے جس سے کوئی بینا یا نابینا انکار نہیں کر سکتا۔

رنگوں کی کہانی روزِ آفرینش سے چل رہی ہے اور روزِآخرت تک چلتی رہے گی۔رنگوں کی تلاش میں انسان ہمیشہ سرگرداں رہا ہے۔ رنگوں میں معنی، اشارے،اور راز چھپے ہوتے ہیں۔ نفسیات والے تو کمال کرتے ہیں کہ رنگوں کی پسند نا پسند سے انسان کی شخصیت کا ایکسرے کر لیتے ہیں۔غالبؔ صاحب رنگوں کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے،فرماتے ہیں:
مت پوچھ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
تو یہ دیکھ کیا رنگ ہے تیرا میرے آگے

دنیا میں جتنے بھی رنگ اور شیڈز ہیں ان سب کی دو انتہائیں ہیں ایک انتہا پر سفید رنگ ہے اور دوسری انتہا پر کالا رنگ ہے۔یہ دو انتہائیں قدرت کو بھی بہت پسند ہیں۔اس قدر پسند ہیں کہ انسان کی آنکھ کو بھی ان دو انتہاوئں کی نذر کر دیا ہے۔بھینس ہی دیکھ لیں سیاہی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور ساتھ ہی دودھ دیتی ہے تو سفیدی کا ثانی نہیں رہتا۔ڈارک کلرز سیاہ رنگ کے کزن ہیں اسی طرح لائٹ کلرز سفید رنگ کے کزن ہیں۔قدرت ان انتہائی رنگوں کے ساتھ ساتھ ان کزنز کا استعمال بھی کر لیتی ہے۔مثلاً رات کو سیاہی کے ساتھ زرد ستارے اور چاند کیا خوب سجتے ہیں۔ناریل میں چھلکا کتنا درویش مزاج سا لگتا ہے اور اندر سے کیا قابلِ رشک سفیدی نکلتی ہے کہ قدرت کی قدرت کی داد دینی پڑتی ہے۔

کالے بال اور کالے نقاب حسن کو کس قدر نکھارتے ہیں یہ بات تو کوئی حسین ہی بتا سکتا ہے۔ایسے ہی تو لوگ سفید بالوں کو چھپانے اور کالوں کوچھاپنے کی عمر بھر سعی نہیں کرتے رہتے۔اس کا بالکل متضاد رویہ چہرے اور باقی جسم کی رنگت کا ہے۔ چہرہ سفید کرنے کی آڑ میں بیوٹی انڈسٹری جتنا کماتی ہے شاید ہی کسی اور مد سے اتنا کما پاتی ہو۔

رنگوں کی گفتگو میں لیلہٰ مجنوں کا ذکر نہ کرنا بھی نامناسب ہو گا۔ اکثر ہوا ہے کہ عشق جیسی بلا گوری رنگت کا انتخاب ہی کرتی ہے لیکن لیلہٰ مجنوں کے قصے میں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔لیلہٰ صاحبہ رنگت میں اس قدر سیاہ تھیں کہ ان کا نام ہی لیلہٰ یعنی رات رکھ دیا گیا۔ یہی تعجب اس وقت بھی ہوا کہ لیلہٰ جیسی ہستی سے قیس جیسی ہستی کو عشق ہو گیا اور وہ بھی اس قدر کہ قیس صاحب اپنا نامِ نامی اسمِ گرامی ہی گم کر بیٹھے ویسے عشق کی گلی میں نام کیا سر کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔ بقولِ میرؔ
قدم دشتِ محبت میں نہ رکھ میرؔ
کہ سر جاتا ہے گامِ اولیں پر

قیس سے مجنوں کا نام پانے والے مجنوں سے کسی نے پوچھا کہ لیلہٰ تو رنگت میں سیاہ ہے،اس نے فوراً کہا میری نظر سے دیکھو تو سیاہ نہیں لگے گی۔اگر مجنوں آج کے دور میں ہوتا تو فوراً یہ کہتا ــ: لو میری عینک سے دیکھو!
نظر اپنی اپنی، پسند اپنی اپنی
مجھے تو ہے منظور، مجنوں کو لیلہٰ

ویسے بھی روشنی کو امید اور ناامیدی کو تاریکی سے منسوب کیا جاتا ہے۔سرخروئی کو کامیابی اور زردی کو ناکامی اور شرمساری سے نسبت دی جاتی ہے۔لیکن یہ بات حتمی نہیں ہوتی مثلاً بلیک شیپ، ڈارک ہارس،وائٹ ایلیفنٹ جیسے انگلش محاورے رنگوں کو معانی کے ساتھ مخصوص نہیں ہونے دے رہے۔بلیک شیپ اگر برا آدمی ہے تو وائٹ الیفنٹ بھی کون سا اچھا ہے۔یہا ں تو بلیک اور وائٹ دونوں برے معنی میں چلے گئے۔ ساتھ ہی ڈارک ہارس کھڑا ہے جو بہت قابلِ تعریف ہوتا ہے۔یعنی رنگ اور معانی آپس میں منسلک ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کا آپس میں کوئی حتمی رشتہ نہیں ہے۔

اسی انداز سے اگر کالا چور اور سفید چور دیکھا جائے تو ہمارے پاس ان کی پہچان کے مطلق پیمانے نہیں ہیں کہ کون ساچور اچھا ہے اور کون سا برا ہے۔ ویسے ہم اپنے آس پاس بنظرِ غائر دیکھیں تو ہمیں ہر کوئی چور ہی نظر آئے گا۔اور جب یہ ضرب المثل ہمارے سامنے آتی ہے کہ:
چوروں کو نظر آتے ہیں سبھی چور
تو ہم فوراً اپنا نقطہ نظر بدل لیتے ہیں۔حضرت بلہے شاہؒ نے فوراً اس حقیقت کا اقرار کر لیا تھا:
چور، چور میری بُکل دے وچ چور

اس بکل کے چور کو ہم پکڑ نہیں سکے جبکہ کالے چوروں کا جینا حرام کر دینے کے درپے ہوئے رہتے ہیں۔سفید چوروں کا تو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اتنے محترم، معزز، ذی وقار،عالیشان،کروفر والے،اعلیٰ ترین عہدوں پر جلوہ افروز ہونے والے،جن جے دم قدم سے نظامِ سلطنت چل رہا ہے کو برا کہنا یا سفید چور کہنا بالکل فاترالعقل ہونے کا ثبوت دینے والی بات ہے۔لیکن ہاں ضمیر کی آواز کو اتنا بھی دبا کے رکھنا کہ وہ کالے چور کو بھی برا نہ کہہ سکے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

کالے چور اور سفید چور کے مابین یہ فرق میرے ناقص خیال میں برا نہیں کہ جو چور پکڑ لیے جائیں ان کو کالا چور کہ لیا جائے کیونکہ وہ اکثر غریب، کمزور،اور بے ضرر ہوتے ہیں اور جو چور پکڑے نہ جائیں وہ بہت طاقتور، مالدار، اور مضر ہوتے ہیں ۔ویسے بھی دنیا نے ہمیشہ کالے چوروں کو ہی لائقِ سرزنش سمجھا ہے۔

اس ترقی یافتہ ، مہذ ب زمانے میں کالے چور بڑی تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان سے اخلاقی ہمدردی ہے اور سفید چور بڑی تیزی سے زیادہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں ان سے بہت خوف آتا ہے۔کیونکہ۔۔۔۔۔۔ اس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خدا

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285251 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More