میڈیا اور کیا کرے؟

دہشتگردی کی کارروائیوں کے سوات، مالاکنڈ یا جنوبی وزیرستان سے نکل کر پہلے وفاقی دارالحکومت اور پھر ملک بھر کے شہروں میں پہنچے کے بعد سے گویا میڈیا حکومتی تنقید کی زد میں ہے اور بعض مقتدر حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خوف اس قدر ہے نہیں جتنا ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش میں مختلف اشاعتی اور نشریاتی گروپ بتا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے تو پھر سے میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق تک کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں اور پوری کی پوری حکومت ایک طرح سے یہ باور کرانے کی کوشش میں جت گئی ہے کہ خدا نخواستہ تمام فساد کی جڑ ہی اہل قلم و زبان ہیں۔ ان حکومتی کوششوں کا مقصد اپنی ناکامیاں چھپانا ہے یا پھر اہم اور سنگین نوعیت کے معاملات سے توجہ ہٹانا؟ یہ ایک الگ بحث ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون کو ملک کو درپیش چیلنجوں نہایت اہم کردار پر خراج تحسین کے بجائے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانے کی روش قطعاً مناسب نہیں۔ ایک ساعت کے لیے مان لیا کہ اہل قلم و زبان گزشتہ چند برسوں کے دوران ملنے والی آزادی کا بعض اوقات غلط فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اس ”مفاد“ کے پس منظر میں بھی کہیں نہ کہیںقومی مفاد ہی پیش نظر ہوتا ہے۔ ویسے بھی جس آزادی کی حکمران میڈیا سے ”تنگ“دیگر حلقے شور مچاتے ہیں وہ کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی بلکہ یہ ایک ایسی تحریک کا نتیجہ ہے جس کا بنیادی مقصد ملکی و جمہوری استحکام کے سوا کچھ نہیں تھا لہٰذا آج بھی محرکین اپنی اس آزادی کو اسی بنیادی مقصد کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں، اب اس کو ”بغاوت “ کا نام دیا جائے یا حکم عدولی کی شناخت، ایک بات طے ہے کہ موجودہ مخدوش ترین حالات میں قومی جذبے کو ابھارنے اور عوام کو بروقت حقائق سے آگاہی میں میڈیا ہی پیش پیش رہا ہے کسی بھی طرح جہاد سے کم نہیں لیکن اس کے باوجود الزامات ہیں کہ تھمنے میں ہی نہیں آرہے۔

میڈیا پر سب سے پہلا الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ ملک کے اشاعتی اور نشریاتی ادارے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش میں ڈس انفارمیشن پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں عوام کو مورال متاثر ہوتا ہے۔ جس کے جواب میں گزارش ہے کہ عوام حکومتی بیانات اور دعوﺅں کے بجائے اخبار میں چھپنے اور ٹی وی چینلز پر دکھائی جانیوالی باتوں اور زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ تو حکمران اپنی پالیسیوں پر نظر ڈال کر ہی بخوبی جان سکتے ہیں البتہ جہاں تک مورال متاثر کرنے کا شوشہ ہے تو جواباً عرض ہے کہ قربانیاں دینے والے دوسروں کو بھی قربانیوں پر ہی آمادہ کیا کرتے ہیں ان کو صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر بھاگنے کا مشورہ نہیں دیتے۔ ویسے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی سنگینی اور دشمن کی حکمت عملی کا علم ہونا ناگزیر ہوتا ہے اور آج میڈیا عوام کو جس طرح صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھے ہوئے ہے وہ ڈس انفارمیشن یا خوف پھیلانا نہیں بلکہ اس کا مقصد آنے والے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہی ہے۔ ممکن ہے چند کالی بھیڑیں مخصوص مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہوں لیکن مجموعی طور پر قطعاً ایسا نہیں ہے اور کسی بھی خبر کو شائع یا نشر کرنے سے پہلے تصدیق کے جن مراحل سے گزارا جاتا ہے صحافت سے دلچسپی رکھنے والے یقیناً اس کے واقف ہونگے اگر نہیں تو صرف ایک مثال حاضر ہے کہ گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب بارے ایک رپورٹ راقم کے ہاتھ لگی۔ رپورٹ فراہم کرنے والے ذرائع نے اتنا تو بتا دیا کہ یہ ”ایکسکلوسیو“ ہے لیکن تصدیق کہاں سے کی جائے؟ اس بارے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ متذکرہ رپورٹ کو کالم کی شکل میں فائل کیا تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، مجھ سے تصدیق مانگی گئی اور اپنے ذرائع پر حد درجہ اعتماد اور بھروسہ ہونے کے باوجود ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہم اور حساس ترین اطلاعات کے باوجود صرف اس لیے اشاعت روک لی گئی کہ مبادا تصدیق بغیر اشاعت پڑھنے والوں پر منفی اثر ہی مرتب نہ کرے۔ ایسی صورتحال ہم اہل صحافت کے لیے روز مرہ کا معمو ل ہے جس کی ایک وجہ تو دوسروں سے مقابلے کی دھن ہے کچھ بھی فائل کرتے وقت یہ خیال بھی مد نظر ہوتا ہے کہ کسی دوسرے اخبار یا چینل نے اس کی نفی کردی تو ہماری ساکھ متاثر ہوگی لیکن ساتھ ساتھ فرائض سے غفلت اور پھر اس کی سزا کا خوف بھی آڑے آتا ہے جو سنجیدہ صحافتی حلقوں کو کسی بھی صورت ڈس انفارمیشن کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے بھی جب فرض کی ادائیگی میں ملی جذبہ بھی شامل ہو تو قلم کو طاقتور ترین ہتھیار تصور کرنے والوں کے لیے اس کے غلط استعمال کا سوچنا بھی ناممکن ہوتا ہے اور ایسی ہی صورتحال سے دوچار میرے وطن کے اہلیان قلم بھی ملک و ملت کی حفاظت کا عزم کیے ہوئے ارض مقدس کے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے عوام کے شانہ بشانہ ہیں چنانچہ حکومت اپنی ڈس کوالیفیکیشن چھپانے کے لیے ڈس انفارمیشن کا الزام عائد نہ کرے۔

رہ گیا یہ سوال کہ میڈیا کے پاس اطلاعات کہاں سے آتی ہیں تو اس جواب میں عرض ہے کہ ہمارے پاس کوئی الہ دین کا چراغ یا پھر جناتی طاقت نہیں بلکہ دشت صحافت کے کئی مسافر دن رات حقائق تک پہنچنے کی کھوج میں جان ہتھیلی پر رکھے جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں جس کا ثبوت صرف سوات میں جاری آپریشن راہ راست کے دوران خبروں تک رسائی کے مقصد میں اب تک جام شہادت نوش کرنے والے پانچ صحافیوں کی مثال ہی کافی ہے۔ کہنے کو تو میڈیا کو اطلاعات کی فراہمی حکومت ہی کا فرض ہے اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ ادارے بھی قائم ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کو صرف وہی اطلاعات فراہم کرنے کی ہدایات ہیں جو حکومتی مفاد میں ہوں اور یہ روش ہر دور کی طرح موجودہ عوامی حکومت نے بھی اپنا رکھی ہے جس کے سبب قومی اور عوامی مفادات کے تحفظ کا فریضہ بھی میڈیا ہی کو نبھاہنا پڑ رہا ہے اور اس فریضے کی ادائیگی میں میڈیا کو بھاری قیمت ایک طرف حکومتی حلقوں کے الزامات اور دوسری جانب شدت پسندوں کی دھمکیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ حکمران سکیورٹی خدشات کے پیش نظر میڈیا دفاتر کی حفاظت کا سامان کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور مقتدر حضرات نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم ترین محاذ سنبھالنے والوں کی کیخلاف مورچہ بندی کر لی ہے جس پر سوائے افسوس کے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے تین ایم (Money, Media,Menpower )ضروری ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جاری دہشتگردی کیخلاف جنگ کی حوالے سے دیکھیں تو اس کے نتیجے میں معاشی حالات اس حد تک ابتر ہوچکے ہیں کہ پہلے ایم (Money) کے مددگار ثابت ہونے کا سوال ہی فضول دکھائی دیتا ہے۔Menpower(افرادی قوت) کی بات کریں تو یہ اس صورت میں کارگر ثابت ہوتی ہے جب سامنے کوئی واضح ٹارگٹ ہو جبکہ ہمارے ہاں کی جنگ کی نوعیت مکمل مختلف ہے لہٰذا ایسی صورت میں صرف اور صرف میڈیا امید کی کرن باقی رہ جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے داد شجاعت دینے کے بجائے مخصوص قوتیں تنقید کی زد میں لیے ہوئے بے بنیاد پراپیگنڈہ میں مصروف ہیں جبکہ ہماری حکومت بھی لکیر کی فقیر بن کر انہی کی ہم نواء بنتی دکھائی دینے لگی ہے۔

ضابطہ اخلاق، قوانین کی پاسداری اور حدود کا تعین اپنی جگہ، لیکن ان سب منصوبوں پر کام کرنے والے یہ بات ضرور مد نظر رکھیں کہ ہمارا میڈیا نہ صرف میچور ہوچکا ہے بلکہ اپنی حدود اور اخلاقیات کی پاسداری کو بھی بخوبی جانتا ہے اور اس سے وابستہ افراد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے لہٰذا ان پر کسی خلاف ورزی یا فرائض سے غفلت کا الزام مذموم مقاصد کی تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جنوں کی حکایت خون چکاں لکھتے لکھتے بار ہا اپنے ہی ہاتھ قلم کروانے والوں کی تاریخ وطن سے وفاداری کی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے، میڈیا نے ہی ہمیشہ آمریت کیخلاف جنگ لڑی، میڈیا ہی ہمیشہ پاکستان کیخلاف عالمی پراپیگنڈہ کا مؤثر جواب دینے کا ذریعہ بنا، میڈیا ہی نے پاکستان مخالف سازشیں بے نقاب کیں اور یہ میڈیا ہی ہے جو اب بھی پوری قوم کو متحدہ رہ کر وطن دشمنوں کیخلاف نبردآزما کرنے کی مہم پر ہے لیکن، اگر جمہوریت کی علمبرداری اور آزادی رائے کے دعویداروں کو ابھی بھی ان کی وفاداری پر یقین نہیں تو پھر وہی بتائیں کہ ہر نازک موڑ پر رائے عامہ بیدار کرکے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کرنے والا میڈیا اب اور کیا کرے؟
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.