کچھ اپنے بارے میں

عمر بھر میں میرے ساتھ چند ہی تقریبات ہوئی ہوں گی اور مشاعروں میں بھی بہت ہی کم جاتا ہوں۔ پچھلے دنوں تین نشستیں ہوئیں جن میں نمایاں موجودگی میری تھی۔ سیالکوٹ کا مشاعرہ اتنا اپنا اپنا تھا کہ جیسے یہ بھی میرے اعزاز میں تھا۔ مجھے کہیں مہمان ہونا ہو تو میں مہمان عزیز ہونا پسند کرتا ہوں مہمان خصوصی نہیں۔ وہ محفلیں اچھی ہوتی ہیں جن میں مہمان اور میزبان کا فرق مٹ جائے۔ یہ دونوں کردار ایک اچھی سچی عورت میں موجود ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک اچھی سچی سوہنی خاتون جہاں کھڑی ہو جائے وہاں گھر بن جاتا ہے۔ کسی کی موجودگی آسودگی کا باعث نہ بنے تو عدم موجودگی ہی اچھی ہے۔ آسودگی کے لئے سادگی ضروری ہے اور سادگی ایک فطری کیفیت ہے مصنوعی عادت نہیں۔

ڈاکٹر بابر اعوان میرے دوست ہیں اور یہ وزارت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ وزارت تو ایک حادثہ ہے مگر کچھ حادثے ناقابل فراموش ہوتے ہیں ورنہ قابل ذکر تو ہوتے ہیں۔ تب آصف زرداری جیل میں تھے انہیں جیل جانے کی عادت سی ہے۔ ابھی یہ نہیں بتاؤں گا کہ یہ اچھی عادت ہے یا بری عادت ہے۔ عادت کو اچھے برے خانوں میں تقسیم نہ کیا جاتا تو ٹھیک تھا مگر یہاں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا ٹھیک ہے کیا ٹھیک نہیں ہے۔ ٹھیک نہ ہونا اور غلط ہونا بالکل مختلف معاملے ہیں۔ جیسی بھی قید تھی زرداری صاحب نے حاضر سروس یا سیاسی لوگوں میں سے بہت سے زیادہ کاٹی ہے۔ کاش وہ ایوان صدر میں بھی قیدی ہی ہوتے۔ قیدی ہوتے تو قائد بھی بن جاتے۔ اب وہ ان دونوں مقامات میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک منصب ہے اور دوسرا مرتبہ۔ دونوں کو رلانے ملانے کے لئے بڑا دل گردہ چاہئے۔ گردے مضبوط ہیں صدر زرداری کے مگر دل بڑا کمزور ہے۔ ہم کہ اپنے ازل سے مظلوموں کے ساتھ ہیں اور ان کے اندر کے ظالموں کو جلدی نہیں پہچانتے۔ ازل اپنا اپنا ہوتا ہے اور ابد بھی۔ ظالموں اور حاکموں میں کوئی فرق نہیں۔ میں نے بھی قیدی زرداری کے لئے کالم لکھے ہر کسی نے لکھے۔ زرداری رہائی کمیٹی کے چیئرمین بابر اعوان کو زرداری صاحب کے لئے ایک تقریب میں میری تقریر پسند آئی۔ع
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ اب تم صدر زرداری کے حق میں کیوں نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ ناحق چھوڑ دیں۔ پھر جب وہ جیل میں آئیں گے تو دیکھیں گے۔

میری شاعری کی کتاب آئی۔ ’’پچھلے پہر کی سرگوشی‘‘ تو ڈاکٹر بابر اعوان نے اسلام آباد میں تقریب کی ٹھان لی۔ میں نے انکار کیا مگر یہ جرات انکار میرے کام نہ آئی۔ انہوں نے مقتدرہ کے چیئرمین نامور شاعر افتخار عارف سے بات کی اور وہاں سے میرے بھائی حمید قیصر نے میرے لئے سارے راستے بند کر دئیے۔ صرف دل والا راستہ کھلا رہنے دیا۔ ایک غیر رسمی سی محفل پر رضامندی ہوئی۔ کچھ دوستوں کو حمید قیصر نے بلا لیا۔ دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو دوسرا جملہ کہا ہے س کا یہ موقع نہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دوست اور دشمن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ وہ یہ روپیہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں۔ سجی دکھا کے کھبی مارتے ہیں۔ اس محفل میں ڈاکٹر بابر اعوان کے علاوہ پرانی رفاقتوں کی خوشبو پھیل گئی تھی۔ میں نے راولپنڈی اسلام آباد میں بہت پہلے کچھ عرصہ گزارا تھا۔ چار پانچ لوگ میری یاد میں ہمیشہ آباد رہے۔ آفتاب اقبال، شمیم، پروفیسر سجاد شیخ، نصراللہ ملک، پروفیسر خواجہ مسعود، شاہد ملک اور شاہد مسعود کی محبت میرے دل میں گورڈن کالج کو بسائے رکھتی ہے۔ جلیل عالی، احسان اکبر، حسن عباس رضا اور کچھ دوسرے دوست اب بھی دل بڑھاتے ہیں۔ افتخار عارف ذاتی طور پر روایات اور اقدار والا آدمی ہے۔ حمید قیصر ایک جینوئن دوست ہے۔ لکھنے والے تو ہیں مگر جس کے لئے لکھتے ہیں وہ ان کے اندر ہے کہ نہیں۔ افتخار عارف بڑی سطح پر سازشوں کا شکار رہا۔ حمید قیصر نے بھی جعلی دوستوں کے بہت زخم کھائے ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام آباد کے چند ایسے لوگوں سے ملا کہ مجھے اچھا لگا۔ ایسے لوگ اب بھی ہیں۔ شکیلہ جلیل نے اپنے اخبار کے لئے مجھ سے گفتگو کی۔ اس دوران کئی دفعہ کوئی گمشدہ آرزو نیا چراغ جلا کے روشنی ہی میں پھر گم ہو گئی۔ محترمہ فوزیہ مغل اور کچھ دوستوں نے مجھے بتائے بغیر میری سالگرہ منا ڈالی۔ میں نے معذرت کی تو کہا گیا کہ آپ کی ساری فیملی آ رہی ہے اور ہم آپ کی تصویر سٹیج پر رکھ دیں گے۔ میں نے سوچا کہ یہ میری سالگرہ ہو گی یا برسی ہو گی۔ اب سالگرہ اور برسی کا فرق مٹ گیا ہے۔ میرے بارے میں بہت دوستوں نے باتیں کیں۔ وہ مجھے معلوم تو پہلے سے ہیں مگر میں نے کسی کو بتائی نہ تھیں۔ انہیں کیسے خبر ہوئی۔ دوست سے بڑا رازدار کون ہوتا ہے۔ کسی نے کہا کہ اجمل نیازی کے لئے کچھ باتیں کیسے بتاؤں کہ اس کی بیگم سامنے بیٹھی ہیں۔ اس کے بعد والے مقرر نے کہا کہ جو کچھ اجمل نیازی کے لئے اس کی بیگم جانتی ہے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔

سیالکوٹ میں ہر سال چیمبر آف کامرس والے مشاعرہ کرتے ہیں۔ میں آج کل کے مشاعروں سے گھبراتا ہوں کہ یار لوگوں نے اسے کاروباری مشغلہ بنا دیا ہے۔ بڑے بڑے جغادری لوگوں نے پوری برادری کو بے عزت کیا ہوا ہے۔ سیالکوٹ سے میرا بھائی آصف بھلی بلاتا ہے اور ہم چلے جاتے ہیں۔ آصف بھلی بھلا آدمی ہے۔ خوددار، بہادر قبیلے کی شان بڑھانے والا اہل اور اہل دل دوست۔ مشاعرے میں ایسے ایسے جملے چھوڑتا ہے کہ خوشبو دیر تک رقص کرتی رہتی ہے۔ میں نے بہت مشاعرے دیکھے ہیں مگر ایسا ماحول نہیں دیکھا۔ تھوڑے سامعین اور منتخب شاعر دونوں اچھے ہوں تو محفل محبوب اور یادگار بن جاتی ہے یہاں اقبال اور فیض کی ان دیکھی موجودگی کا احساس آس پاس رہتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ چیمبر آف کامرس میں ہوتا ہے۔ تجارت کو دل کی دیانت سے جوڑنے والے ایسے ہی باذوق ہوتے ہیں۔ محفل میں اتنی بے ساختہ اور بامعنی داد کے چراغ جل اٹھتے ہیں کہ ہر شاعر اپنے آپ کو محبوب شاعر سمجھنے لگتا ہے اور شاعر ایک دوسرے کے سامنے بجھے ہوئے چراغ بن کر نہیں بیٹھے رہتے۔ واہ واہ کر اٹھتے ہیں۔ آصف بھلی کی شاندار کمپئیرنگ کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ میں یہ احساس اپنے ساتھ لے آیا ہوں کہ یہ محفل بھی میرے اعزاز میں تھی۔!
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19036 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.