سمندروں کی حفاظت اور آلودگی سے بچاؤ

سمندروں کی اہمیت، حفاظت اور اسے آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے قومی و عالمی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کے لئے آٹھ جون کو عالمی یوم سمندر منایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ انعام، سورۃ یونس، سورۃ الرحمن اور سورۃ تکویرمیں سمندروں کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ انسان سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی عنایات ، انعامات اور احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنَ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ‘ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ﴿۶:۶۳﴾ قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْہَا وَ مِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ﴿۶:۶۴﴾
ترجمہ: اے نبی ﷺ ان سے پوچھو صحرااورسمندر کی کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتاہے؟؟کون ہے جس سے تم(مصیبت کے وقت)گڑگڑاگڑگڑاکراور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟؟کس سے کہتے ہو کہ اگراس بلا سے اس نے ہم کو بچالیا توہم ضرور شکر گزار ہوں گے۔کہوکہ اﷲتعالی تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتاہے پھر(بھی)تم دوسروں کو اس کا شریک ٹہراتے ہو۔(سورۃ انعام)
ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ﴿۱۰:۲۲﴾ فَلَمَّآ اَنْجٰہُمْ اِذَا ہُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُم مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴿۱۰:۲۳﴾
ترجمہ: وہ اﷲتعالی ہی ہے جو خشکی اورپانی(سمندروں)میں تم کو چلاتاہے ۔چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوارہوکربادموافق پر شاداں و فرحاں سفرکررہے ہوتے ہواورپھریکایک باد مخالف کا زور ہوتاہے اورہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اورمسافرسمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھرگئے،اس وقت سب اپنے دین کو اﷲتعالی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگرتو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزاربندے بنیں گے ،مگرجب وہ ان کو بچا لیتاہے توپھروہی لوگ حق سے منحرف ہو کے زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ،لوگو تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے ۔دنیاکی زندگی کے چندروزہ مزے ہیں پھرتمہیں ہماری ہی طرف پلٹ کرآنا ہے اور ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیاکرتے رہے ہو۔ (سورۃ یونس)
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ﴿۵۵:۱۹﴾ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ﴿۵۵:۲۰﴾ فَبِاَیِّ الٰاَءِٓ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۱﴾ یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانِ﴿۵۵:۲۲﴾ فَبِاَیِّ الٰاَءِٓ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۳﴾ وَ لَہ‘ الْجَوَارُ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ﴿۵۵:۲۴﴾ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۵۵:۲۵﴾ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ﴿۵۵:۲۶﴾ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ﴿۵۵:۲۷﴾
ترجمہ:دوسمندروں کو اس نے چھوڑ دیاہے کہ باہم مل جائیں،پھربھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے، پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔ان سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ،پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندروں میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں،پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے۔ہرچیزجواس زمین پر ہے فناہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کرین ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔(سورۃ رحمن)
وَ ہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا﴿۲۵:۵۳﴾
ترجمہ:اوروہی ہے جس نے دوسمندروں کو ملا رکھاہے ،ایک لذیزوشیریں اور دوسرا تلخ و شور ،اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ،ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
وَ اِذَا البِحَارُ سُجِّرَتْ﴿۸۱:۶﴾
ترجمہ:اور(قیامت کے قریب )جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔(سورۃ تکویر)

اسلام آباد میں انوائرمینٹل واچ ٹرسٹ اور پاکستان ایسوسی ایشن آف گرین ایگریکلچرل جرنلسٹس کے زیر اہتمام بیداری فکر فورم میں سمندروں کے عالمی دن پر مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تو اس موقع پر شعوری بیداری کی اس حد تک کمی تھی کہ کئی ایک کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سمندروں کا عالمی دن کراچی کے سمندر سے دور اسلام آباد میں منانے کا کیا جواز ہے؟۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ جو آلودگی سیوریج پانی کے ذریعے دریائے سواں تک پہنچائی جا رہی ہے وہی دریائے سواں سے دریائے سندھ میں شامل ہو کر سمندر کا حصہ بن جاتی ہے پھر اُسی کراچی کی آلودہ مچھلی اسلام آباد میں ہماری خوراک اور جسم کا حصہ بن کر صحت تباہ کرتی ہے ۔ سمندروں کے نیچے زندگی کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم کیا جانا ہے جن میں جانوروں کی تقریباً ساڑھے سات لاکھ قسمیں اور ان کا کردار شامل ہے۔ ماہرین نے 6ہزار اقسام کا پتہ چلایا ہے جو غالباً نئی ہیں۔ اس طرح اب سمندری مخلوق کی تعداد 2لاکھ 30 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار کردی گئی ہے۔سمندری مونگے خلاء سے انسانی آنکھ سے دنیا پر نظر آنے والی واحد چیز ہیں۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے قریب عظیم زیر آب سمندری مونگے یا کورل ریف کو سمندری درجہ حرارت میں اضافے کے باعث اگلے 50 برس میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا۔ ماہی گیری میں اضافے اور پانی میں گندگی کی وجہ سے بھی کورل ریف بہت متاثر ہو رہی ہے اور 50 برس میں اس کا صرف 5 فیصد حصہ باقی بچ پائے گا۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی وہ ساری حسین اور نایاب آبی حیات بھی تباہ ہو جائے گی جس کے لئے یہ مونگے یا کورل ریف مشہور ہیں۔ سمندر زمانہ قدیم سے سفر و سیاحت، تجارت، زراعت اور عسکری و دفاعی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے بحری قوت حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی وہ مٹ گئیں۔

سمندر زمانہ قدیم سے سفر و سیاحت، تجارت، زراعت اور عسکری و دفاعی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے بحری قوت حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی وہ مٹ گئیں۔ بنی اسرائیل کا حکمران فرعون اور اس کی فوج حضرت موسیٰ کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہو گئی تھی۔ غرض سمندر ہمیشہ سے انسان کے لئے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دنیا نے تہذیب و تمدن میں ترقی پائی تو پانیوں کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے تجارتی اور جنگی بحریہ کے حصول اور تعمیر و ترقی کو نظر انداز نہیں کیا۔ آج سمندر طاقت کا سرچشمہ ہے اور زیادہ سے زیادہ بحری علاقوں یا گزرگاہوں کوملکیت میں رکھنے کے لئے دنیا کا ہر وہ ملک کوشاں ہے جس کا جغرافیہ سمندر سے جڑا ہوا ہے۔90فیصد عالمی تجارت براستہ سمندر ہو رہی ہے۔ 2005ء تک اس کا حجم 27 ہزار ارب فن تھا۔ سمندر اب تک تجارت کے لئے سب سے سستا راستہ ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جتنا کرایہ ایک آدمی کے یہاں سے امریکہ تک ہوائی جہاز سے جانے میں بنتا ہے۔ اس میں 20 ٹن وزنی سامان کے کنٹینر سمندر سے لے جائے جا سکتے ہیں۔ 5 لاکھ ٹن گندم صرف 5 بحری جہازوں میں لے جائی جاسکتی ہے۔ زمین پر ایک ٹن گندم کی نقل و حمل کے لئے 5 ہزار ٹرک درکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس اپنے تجارتی بحری جہاز نہیں حالانکہ ہماری 95فیصد تجارت بذریعہ سمندر ہے لیکن زیادہ تر دوسرے ملکوں کے جہاز استعمال کیے جاتے ہیں۔

Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 2 Articles with 1534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.