نئے صوبوں کا قیام کیوں؟

ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کون کیا کہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کے کیا کہ رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جائے اور ان کو مکمل حدمحتار بنایا جائے تاکہ وہ اپنے فیصلہ خود کرنے کے مجاذ ہوں ۔ اگر پاکستان کی تاریخ کو دہرایاجائے تو 70سے زاہد سیاست دانوں اور دانشوروں نے نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کر چکے ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دور میں ضلعی نظام متعارف کروارہی تھیں ۔ جس میں تمام ضلعوں کا صوبے کا درجہ دیا جانا تھا ۔ اگر اس وقت یہ نظام پاکستان میں متعارف ہوجاتا ہو پیپلز پارٹی کی حکومت 50سال تک ختم نہ ہوتی ۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد محترمہ بے نظیربھٹو کو برطرف کردیا گیا اور جنرل ضیاء الحق برتراقتدار آئے تو انہوں نے بھی ضلعی حکومتوں کی حمایت کی اگر ضیاء الحق کے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا تو تمام ڈویژن کو صوبوں میں تبدیل کر دیا جاتا ۔ اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی کہی بار اپنے ٹیلی فونگ خطاب میں ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی حمائت کی ا ن کا موقف تھاکہ بڑھتی ہوئی آبادی سے تناسب سے دنیا میں کہی ممالک میں نئے صوبوں کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔ نئے صوبوں کے بننے پر نظام حکومت میں بہتریں طریقے سے چلایا جاسکتاہے ۔ انہوں نے کئی بار کہاکہ ہنگامی بنیادوں پر آل پارٹی کانفرنس بلوائی جائے اور آبادی کے تناسب سے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے جو فلاح و بہود وسلامتی اور خوشخالی کا ضامن ہوگا۔ پاکستان میں کہی دانشور وں نے بھی پاکستان میں نئے صوبوں کو ملک میں حصول انصاف، صحت و تعلیم کے ساتھ امن و امان کی ترجیت دی ۔ اسی طرح آئین پاکستان 1973ء بھی نئے صوبوں کے قیام کی گنجائش موجود ہے اور اس کام کے لئے آل پارٹی کانفرنس نہیں بلکہ ایک کمیشن بھی ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کر واسکتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں اس سے ملتا جلتا لوکل گورئمٹ کا نظام متعارف کروایا جو کہ یونیں کونسل لیول پر ترقیاتی کاموں کا مرکز بنا لیکن ان کو کم اختیارات دئیے گئے ۔ اگرپاکستا ن کے ادرگرد نظر دہرائی جائے تو جب بھارت آزاد ہوا تھا تو اس کے 9صوبے تھے لیکن اب 28سے بھی زیادی تجاوت کرچکے ہیں اور چین کو 1948کو آزاد ہو ااوراب اس کے 165صوبوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے ۔پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کا جو حکومتی انتظامی تبدیلی کا پلان ترقی ،چائیہ ،جاپان ، امریکہ اور انڈونیشیا کے تمام جمہوری نظاموں سے استعفارہ کرتے ہوئے پاکستان میں مکمل اسلامی جمہوری نظام نافد کرناچاہتے ہیں جس میں ہر ڈویژن کو صوبہ بنایاجائے گا ۔ فاٹا، قبائلی علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان سمیت 30سے 35صوبہ بنائے جائیں ۔ اقتدار گراس روٹ لیول تک منتقل کرکے دس لاکھ لوگوں کو شریک اقتدار کیا جائے گا۔صوبے کا بجٹ ایک صوبائی وزیر یا ایک ڈویژنل کمشنر کے برابر ہوگا۔ 150ضلعی حکومتیں ، 800سے زاید تحصیلی حکومتیں قائم ہونگی اور 6 ہزار یونیں کونسل میں ایڈمنسٹریشن مقرر ہونگے ۔ مرکز کے پاس صرف کرنسی ، دفاع، خارجہ پالیسی ، ہائر ایجوکیشن ، اندرونی سکیورٹی ، ٹیررازم ، یکساں نظام تعلیم ، انرجی اور قانون کے محکمے ہونگے ۔ اس نظام کے تحت لیڈر آف ہاؤس نہیں بلکہ لیڈر آف نیشن ہوگا جو کا چناؤں براہ راست عوامی کرے گی ۔اگر پاکستان میں ڈاکٹرطاہر القادری کا بنایا ہوا انتظامی ڈھانچہ عمل میں آگیا تو تمام سیاسی پارٹیاں اپنا آپ کھو دئے گئی اس نظام کو ناکام کرانے میں اقتدارتی اور حریف سیاسی پارٹیاں کسی بھی قسم کے اوچھے ہیھکنڈے استعمال کرسکتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس موجودہ جاگیردارانہ اور سرمایادارانہ نظام کے خلاف ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر لبیک کہتے ہیں یہ نہیں ۔ اگر2014میں انقلاب نہ آیا تو پاکستانی قوم یہ سمجھ لے کہ پھر کبھی تم اپنے خواب و خیالوں میں بھی انقلاب کا نام نہیں سوچ سکتے ۔

Ch Tayyab Gujjar
About the Author: Ch Tayyab Gujjar Read More Articles by Ch Tayyab Gujjar: 18 Articles with 21996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.