عمران خان اور لندن والے یار بیلی

عمران خاں کا رابطہ عوام مہم پر نکلنا اور اور وہ بھی اس وقت جب سورج آگ برسا رہا ہو……شہر شہر قریہ قریہ جلسوں اور جلوسوں کا تماشا لگانا……

علامہ طاہر ا؛لقادری کا کنیڈا سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں آکر ڈیرے ڈالنا اور پھر اپنی مسلم لیگ قائد اعظم کے بھائیوں کی جوڑی کا لندن میں طاہر القادری سے گفت وشنید کرنا محض اتفاق ہے؟ یا اس سارے منظر نامے کے پس پردہ کوئی مقاصد پنہاں ہیں؟

بھائیوں کی جوڑی سے میری مراد تو آپ سمجھ گئے ہوں گے؟ نہیں سمجھ پائے تو جان لیجئے کہ میری مراد اپنے ’’ مٹی پاوٗ ‘‘ تے تسی ’’روٹی شوٹی‘‘ کھاو والے چودہری شجاعت حسین اور انکے کزن سابق وزیر اعلی اور ڈپٹی پرائم منسٹر آف پاکستان ’’ چودہری پرویز الہی‘‘ سے ہے۔ لندن میں ان حضرات کی موجودگی اور ان کے مابین طے پانے والے ’’معاملات‘‘ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے سود مند ہونے چاہئیں۔
ہماری ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی پاکستانی سیاستدانوں کا لندن میں ’’مجمع ‘‘ لگا تو حکومت وقت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے اور احتجاجی تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن کی جماعتوں کا الائینس معرض وجود میں آیا ہے۔ ایک وقت پر تو سندھ بلوچستان پشتون فرنٹ کا بھی قیام عمل میں آیا ہے۔لیکن اپنے قیام کے مقاصد پورے کیے بنا اپنی موت آپ مرگیا۔ ویسے تو بہت سارے سیاسی اتحاد اپنے مقاصد میں ناکامی پر اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئی ایسا اتحاد جو حکومت کے خلاف کامیاب تحریک چلانے کے بعد متحد رہا ہو یا اپنی حکومت بنا سکا ہو۔……جگتو فرنٹ سے ایم آر دی تک اور گڈا سے پی ڈی اے تک ، اسلامی جمہوری اتحاد سے چارٹر آف ڈیموکریسی تک ، سب کے سب وقت کا ضیاع اور عوام سمیت ایک دوسرے کو بے وقوف بنا نے کے حربے ثابت ہوئے ہیں۔

لندن میں اور پاکستان میں حکومت کے خلاف متحرک سیاستدان ابھی تک میچور پن کا مظاہرہ نہیں کر پائے، پاکستان کے سیاستدانوں میں اگر کسی راہنما نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ہے تو وہ آصف علی زرداری کی ذات اور شخصیت ہے۔ اور دوسری شخصیت میاں نواز شریف کی ہے۔جنہیں آصف علی زرداری نے بڑی محنت مشقت سے یہ بات میاں نواز شریف کے ذہن میں بٹھائی ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور آمروں کے سہارا فراہم کرتے رہے تو پاکستان کبھی بھی جمہوریت کے ثمرات نہ حاصل کر پائے گا……یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف صاحب کی جانب سے دلائی جانے والی تمام اشتعال انگزیوں کے باوجود آصف علی زرداری نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ……

کوئی مانے یا نہ مانے آج جو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت موجود ہے یہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور بلوغت کا کمال ہے۔اگر وہ بھی اپنے خلاف کیے گے اقدامات کے جواب میں جذباتی انداز اختیار کرتے تو جمہوریت کے دشمن پاکستان میں آمریت کے قیام میں کامیاب کب کے ہو چکے ہوتے……

آج میرے بھتیجے ہمایوں اختر اور بھائی قنبر عباس جعفری نے سوال پوچھا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلی ہوتے ہوئے کس قدر جارحانہ رویہ اپنایا تھا لیکن زرداری صاحب ان کے خلاف خاموش ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا آپکو خود دیکھ لو شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے خلاف جلسے جلوس کرتے تھے۔اور کہتے تھے کہ اگر میں نے آصف علی زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا اور لاہور کے بھاٹی چوک میں الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئی دولت واپس نہ نکلوائی تو میرا نام شہباز شریف نہیں…… میں نے کہا بھائی صاحب آپ خود سوچیں کہ کیا شہباز شریف یا انکے بڑے بھائی نواز شریف نے انہیں گرفتار کیا ہے؟ کسی قسم کا لوٹا ہوا روپیہ وصول کیا ہے؟ تو کامیاب کون ہوا؟ آصف زرداری یا شہباز شریف؟

کچھ حضرات کا خیال ہے ،کہ عمران خاں کی رابطہ عوام مہم اور لندن میں بھائیوں کی جوڑی کے علامہ طاہر القادری سے مذاکرات کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے بعد پاکستانی سیاست میں ہلچل مچنے والی ہے۔ کیا واقعی ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے؟ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہونے والا ہے تو پھر پاکستان میں جمہوریت کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ نہیں دوست ایسا کچھ نہیں ہونے والا…… اگر ناعاقبت اندیش چاہتے ہیں کہ پاکستان سے جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جائے تو ایسا سوچنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی پابندی ہے۔لیکن انہیں ایسا سوچتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ عوام کو سڑکوں پر لانا اور ملک میں ابتری پیدا کرنا نہ عمران خان کے بس کی بات ہے اور نہ ہی علامہ طاہر القادری اس پوزیشن میں ہیں۔رہی بات بھائیوں کی جوڑی کی اور سید فیصل رضا عابدی اور انکے ہمنوا سنی اتحاد کی تو وہ ’’ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ

قوم اپنے کام سے کام رکھے اور یہ بات ذہن میں بٹھا لے کہ ملک کچھ نہیں ہونے جا رہا ،اور نہ ہی جمہوریت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایسا تب محسوس ہوتا جب پیپلز پارٹی حکومت کے مخالف صفوں میں بیٹھی ہوتی……پیپلز پارٹی کا حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں سے الگ تھلگ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’’جمہوریت کوستے خیراں نئیں‘‘ انشا ء اﷲ سب لندن پلان اور اتحاد نکامیاب ہی رہیں گے-

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.