خون بہتا رہا

 اُس کی اُس سے پہلی ملاقات اکیڈمی میں ہوئی تھی جہاں اس نے کچھ ماہ پہلے ہی پڑھانا شروع کیا تھا۔ اظہر ایک خوش شکل مضبوط جسم والا ایسا جوان تھاجس کی طرف لڑکیوں کے ناسمجھ ،لا ابالی دل جھٹ سے مائل ہو جاتے ہیں۔ ایسی پُر کشش شخصیت آدمیوں یا عورتوں میں اکثر نہیں ملتی۔اور اگر ایسی شخصیت سے محبت جیسے جذبات بھی منسلک ہو جائیں تو اس جادو کا توڑ موت کے سوا کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتا۔

موبائل نمبرز انتظامی مسائل کے حل کے طور پر لیے اور دیے جاتے ہیں لیکن بعض صورتوں میں یہ نوجوانوں کو وہ قرب بھی عطاکردیتے ہیں جو دوسروں سے دوری کا باعث بن جاتے ہیں۔اظہر نے اپنی اکیڈمی کی تمام سٹوڈنٹس کو اپنا نمبر دے رکھا تھا۔اس کے پاس ہر وقت ایک دیدہ زیب مہنگا موبائل ہوتا اور وہ چند لمحوں کے لیے ہی جیب میں رہتا ۔کسی طرف سے میسج آ جا رہے ہیں اور کسی طرف لمبی لمبی کالیں چل رہی ہیں۔اسے پتہ نہیں موبائل سے فرصت سوتے ہوئے بھی نہیں ملتی ہو گی۔ وہ تو خوابوں میں بھی ہیلو! ہیلو! او کے !اوکے! ہی کرتا رہتا ہو گا۔

اس ساری صورتِ حال سے واقفیت کے باوجودفہمیدہ نے بھی اظہر سے موبائلی تعلق قائم کر لیا۔شروع شروع میں مذہبی قسم کے میسجوں سے میسج کرنے کا جھجھک اترا اور پھر اچھے اچھے اشعار نے ایک دوسرے کا مزاج شناس ہونے میں مددگار ہونے کا رول ادا کیا۔اور پھر ذاتی پسند نا پسند کے میسج ان کو ایک دوسرے کے اور قریب لے آئے۔

فہمیدہ کو اظہر سے دور کرنے والی کئی باتوں کا پتہ بھی چل گیا تھالیکن اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اظہر ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور وہ کسی بہت دور دراز کے ضلعے کا رہنے والا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس سے بھی بڑی بات کہ اس کی بیوی ابھی زندہ ہے اور اس کی فرسٹ کزن بھی ہے۔اور یہ کہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔اتنی ساری باتوں کو اظہر کی سادگی نے کبھی چھپانے کی کوشش بھی نہ کی تھی اور نہ کبھی کوئی سبز باغ دیکھایا تھا کہ اسے کسی قسم کے دھوکے باز کا خطاب دیا جائے۔ بلکہ اس نے تو کبھی میسجنگ میں پہل بھی نہ کی تھی۔اس نے صرف یہ بتایا تھا کہ وہ رات نو بجے کے بعد فری ہوتا ہے۔

فہمیدہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھی ۔وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔اس کے ماں باپ اس کی ہر تمنا پوری کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتے تھے۔اس کا پاس کئی ایک موبائل اور سمیں تھیں،وہ ہر دوسرے ہفتے ایک نیا لباس زیبِ تن کیا کرتی۔وہ کسی قسم کی کفایت شعاری سے واقف نہ تھی۔خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ ذی فہم بھی تھی۔ انگلش سے اسے قدرتی رغبت تھی۔ انگلش تلفظ اس کی خاص دلچسپی کھینچتا تھا۔الفاظ کی درست ادائیگی اسے بہت اچھی لگتی تھی۔وہ شوخ اور چنچل بھی تھی۔ مذاق اس کی گھٹی میں تھا۔عشق کا آسیب ایسی ہرنیوں کی تاک میں تو رہتا ہے۔اظہر سے بات کیے بغیر اسے نیند کہاں آتی تھی۔ گھر میں اس کا علیحدہ روم تھا جہاں چاہے ساری رات وہ کسی سے بات کرتی رہے کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔پیکج اور بیلنس اس کے مسئلے نہیں تھے۔ بس اظہر کے پاس ٹائم ہونا چاہئے۔

فہمیدہ نے ہی اظہر سے کہا تھا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اظہر نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ کیا ہے اور ازدواجی لحاظ سے کس پوزیشن میں ہے۔ اس نے جواب میں بس یہ کہا تھا کہ اسے سب معلوم ہے اور سب منظور بھی ہے سب وہ اپنی امی کو ان کے گھر رشتہ لینے کے لئے بھیج دے۔اظہر کو اس بات سے اتنا اتفاق نہ تھا لیکن وہ بھی محبت کے ناگ سے ڈسا جا چکا تھا۔اپنی خام خیالی کا یقین کرتے ہوئے اس نے اپنی ماں سے ان ساری باتوں کا اظہار واضح انداز میں کردیا۔ اظہر کی بیوی اس سے اچھے برتاؤ میں نہیں تھی۔ اور اکثر لڑائی جھگڑا ہی رہتا تھا۔ اور ابھی نہیں پتہ تھا کہ کیا ہوگا۔ماں سے بیٹے کی بات مانتے ہوئے فہمیدہ کر گھر میں قدم رکھ دیا۔باتوں باتوں میں جب ٹو دی پوائنٹ بات ہوئی تو صاف صاف انکار اظہر کی ماں کی جھولی میں ڈال کے اسے رخصت کر دیا گیا۔

اسی شام فہمیدہ نے اظہر کو بتایا کہ یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے یہ وہ رات ہے جس کی اس نے صبح نہیں دیکھنی۔ اظہر نے اسے سمجھانے بجھانے کی بہتیری کوشش کی لیکن آج پتہ نہیں کیوں وہ اظہر کی ایک نہیں سن رہی تھی۔وہ اسے بار بار موت، غم اور تاریکی سے بھرے اشعار کے میسج ہی سینڈ کیے جا رہی تھی۔رات کے کوئی گیارہ بجے تھے کہ اس نے میسج کیا :اظہر میں نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلائی پر بلیڈ سے کٹاؤ ڈال لیا ہے، میرا خون بہے چلے جا رہا ہے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں،مجھے امید ہے جہ تم مجھے نہیں بھولو گے،لیکن اگر چاہو تو بھول جانا۔ـمیں شاید اتنی ہی زندگی رکھتی تھی۔

اس کا بستر خون سے بھر چکا تھا ، موبائل اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا،وہ بھی خون کی کچھ بوندیں پی چکا تھا۔اس کا بال اور کپڑے خون میں شرابور چکے تھے۔ لیکن اس کے گھر والے اپنی گہری نیند میں کھوئے ہوئے تھے۔

اس بات کا سب سے زیادہ اثر اظہر پر تھا جو کہ خود بھی اپنی جان کو ختم کر لینے کا کوئی منصوبہ سوچ رہا تھا۔ لیکن اس کی ماں اور بیٹا اس کی راہ میں بار بار حائل ہو کر س کے ہاتھ پاؤں کو کسی غلط طرف جانے سے روک رہے تھے،اس کی آنکھوں سے آنسوساون کی بوچھاڑ کی طرح بہے جا رہے تھے۔اس کی آنکھیں انتہائی سرخ ہو چکی تھیں جیسے اس نے بلکہ اسی نے کسی کا قتل کیا ہو۔لیکن اس نے تو کسی کو کچھ بھی غلط نہ بتایا تھا۔وہ تو اس معاملے میں کھرا انسان تھا۔ لیکن پھر بھی فہمیدہ کی محبت اور اس کی اچانک خودکُشی نے اظہر کے اندر مجرمانہ احساسات کو جنم دے دیا تھا جنہیں وہ چاہتے ہوئے بھی دل سے نکال نہیں سکتا تھا۔ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے فہمیدہ کا سارا خون بہہ کر اس کے چارون طرف آ رہا ہو۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313330 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More