پاکستا میں ٹیلی ویژن کا آغاز ۱۹۶۶ء میں ہوا، ریڈیو ہی
عوام الناس کے لیے معلومات ااور تفریح و طبا ع کا ذ ریعہ تھا۔ ۱۹۷۵ میں بی
بی سی لندن کی اردو سروس سے ایک پروگرام بعنوان ’’کتب خانہ‘ شروع ہوا، اس
وقت میں شعبہ لائبریری و انفامیشن سائنس سے منسلک ہو چکا تھا نیز اسی سال
میری ایک کتاب ’’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘‘ منظر عا م پر آچکی تھی۔ اس
حوالہ سے میری دلچسپی کتب خانوں ، خصوصاً کتب خانوں کی تاریخ کے بارے میں
زیادہ ہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے رضاعلی عابدی کی مدھر آواز بی بی سی
لندن کی اردو سروس سے بار ہا سنی، ان کے اس پروگرام کے متعدد نشریے بڑی
دلچسپی سے سنے۔یہ پروگرام کوئی سال بھر سے زیادہ مسلسل نشرہوا، بقول رضاعلی
عابدی ’یہ پروگرام ۱۴۰ ہفتے نشر ہوا اور یہ کہ اس کا بند ہونا بے شمارسننے
والوں کی خفگی کا باعث بنا‘۔ اسی ِقسم کا دوسر ا پروگرام ۱۹۸۲ء میں اسی
عنوان سے نشر ہوا۔ بات درست ہے یہ پروگرام تھا ہی اس قدر لچسپ، مفید اور
معلوماتی ، ساتھ ہی اس پروگرام کو رضاعلی عا بدی کی منفرد آواز و انداز نے
خوب سے خوب تر بنا دیا تھا۔اس پرگرام کا بنیادی مقصد پرانی اردو کتابوں کو
جو مختلف عوامی کتب خانوں اورمختلف علمی و ادبی شخصیات کے ذاتی ذخیر ہ میں
محفوظ تھیں متعارف کرانا تھا۔اس پروگرام میں کتابوں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں
کا ذکر آجانا یقینی تھا۔اس پروگرام کو ترتیب دینے کی غرض سے رضاعلی عابدی
نے کوچہ کوچہ ،قریہ قریہ سفر کیا، برطانیہ کے علاوہ برصغیر پاک و ہند کے
مختلف شہروں میں گئے ، بقول عابدی صاحب ’اس پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ موقع
پر جاکرتحقیق کی جائے اوردیکھا جائے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی پہاڑیوں سے لے
کرمدراس کے ساحل تک اور بنگال کے سبزہ زاروں سے راجستھان کے ریگ زاروں تک
قدیم کتابیں کہاں کہاں ہیں ، اور کس حال میں ہیں‘۔ عابدی صاحب اپنے اس مقصد
میں کامیاب رہے ، ان علاقوں میں موجود نایاب و نادر کتابوں کاحال اور ان کی
خستہ حالی کی د استان اس خوبصورت انداز سے ریڈیوپر بیان کی کہ اس وقت کے
سنے والے جو کتاب و ادب اور کتب خانوں سے دلچسپی رکھتے تھے عابدی صاحب کو
جی بھر کر داد دینے میں پیچھے نہ رہے۔
عابدی صاحب کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے دوران انہوں نے بہت کونے جھانکے ۔کسی
میں نور بھر اتھا اور کہیں اندھیروں کا راج تھا۔ کہیں کتابیں بچائی جارہی
تھیں اور کہیں کیڑوں کی غذا بن رہی تھیں‘۔یہ جستجو تو تھی ریڈیو کے لیے
پروگرام ترتیب دینے کی جو کامیاب رہی ، اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ عابدی
صاحب کو اپنی اس تحقیق کو کتابی شکل دینے کا خیال آیا اور اس نے عملی جامہ
بھی پہن لیا جس کا نام ہے ’’برصغیر میں قدیم کتابیں کہا ں کہاں اور کس حال
میں ہیں: کتب خانہ‘‘ جو ۱۹۸۵ء میں منظر عام پر آئی اس کی مقبولیت کا اندازہ
اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اس
عمل سے کتاب اور کتب خانوں کے بارے میں کی گئی تحقیق جو ریڈیو پر نشر ہوئی
ہواؤں میں بکھر نے کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ
ہوگئی۔ وہ پروگرام جو آج سے تین دھائی قبل نشر ہوا، جو لوگ پروگرام نہ سن
سکے تھے وہ اس کتاب کے ذریعہ سالوں پرانی پھیلنے والی خوشبوں کو محسوس
کرسکتے ہیں۔
یہ کتاب دیگر کتب سے مختلف ہے، کیونکہ یہ ریڈیو کے ایک دستاویزی پروگرام پر
مبنی ہے اس کتاب کی تحریر کا انداز بھی وہی ریڈیائی ہے لیکن دوران مطالعہ
خوبصورت انداز دل کولبھا تا ہے، جی چاہتا ہے کہ اس کی ورق گردانی کی جاتی
رہے۔کتاب چوبیس ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کسی نہ کسی شہر ، گاؤں، دیہات
میں موجودنایاب کتب کی تفصیل بیان کرتا ہے۔کتاب کا پیش لفظ برطانیہ میں
اردو کے نامور محقق اور استاد رالف رسل نے تحریر کیا ہے۔آپ لکھتے ہیں کہ
’’ایک طرح سے یہ کتاب ایک پرزور اپیل کی تمہید ہے اس کتاب نے افراد،
انجمنوں اور ارباب حل وعقد ، کی توجہ اس طرف دلانی چا ہی ہے کہ پاکستان اور
بھارت میں پبلک اور ذاتی کتب خانوں اور مدرسوں، خانقاہوں اور گھروں میں بیش
بہا کتابوں او ر
مخطوطات کا ایسا بڑا ذخیرہ ہے کہ بقول مصنف ’’اگر یہ ساری کتابیں یکجا
ہوجائیں تو دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ وجود میں آجائے‘‘۔
کتاب کو شائع ہوئے پچیس برس ہوچکے لیکن اس کے مطالعہ کے دوران یہ محسوس ہی
نہیں ہوتا کہ یہ باتیں آج سے بیس یا تیس برس پرانی ہیں۔جو باب بھی پڑھا
جائے دلچسپی شروع سے آخر تک بر قرار رہتی ہے ۔انداز بیان شائستہ، ادبی اور
دل کولبھانے والا ہے۔ کتاب کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان سے شائع ہونے والے
رسالے ’’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جنرل‘‘جو کراچی سے شائع ہوتا
ہے نے اس کتاب کی قسط وار اشاعت کاسلسلہ شروع کیا ہوا ہے ، اس کی کئی اقساط
شا ئع ہو چکی ہیں جسے قارئین پسند کر رہے ہیں۔المختصر رضا علی عابدی کی یہ
تصنیف قدیم کتابوں کے بارے میں معلوما ت کا منفرد خزانہ ہے۔ اس کے مطالعہ
سے احساس ہوتا ہے کہ جیسے نایاب کتب کے بارے میں معلومات کی بارات چھم چھم
کرتی چلی آرہی ہیں۔
۲۲نومبر ۲۰۱۰ء، سرگودھا |