وہی سیاست وہی باتیں اور وہی کہانی صرف اسٹیج کی جگہ
تبدیل ہوجاتی ہے باقی دی انڈبھی اسی طرح جس طرح باقی کہانیوں کااختتام ہوتا
ہے یعنی بہادری سے د فاع کیا گیا ‘ملک و قوم کو بہت بڑ ی دہشت گردی اور
مصیبت سے بچالیا کیاجبکہ ہمارے 26بہادر جوانوں جس میں گیارہ سکیورٹی فورسز
اور باقی دوسرا عملہ شامل تھا شہید ہوگیا جبکہ اس کے مقابلے میں دس دہشت
گرد بھی مارے گئے ۔ یہ واقع 11بجکر دس منٹ پر رات کو کراچی ائر پورٹ پر
رونما ہو‘سکیورٹی ہلکاروں کی کامیاب جوابی حملے سے دہشت گرد اپنی منصو بے
میں ناکام ہوگئے ہیں ‘ اگر بر وقت کارروائی نہ کی جاتی تو دہشت گرد اپنے
منصوبے میں کامیاب ہو جاتے جس کی وجہ سے ملک کو ار بوں کانقصان ہوجاتا‘ ہر
سیاسی جماعت کی طرف سے مذمتی بیانات شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ بز دلنا
کارروائی تھی ۔۔۔اس سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔۔۔ ہم سب نے مل کر دہشت
گردوں کامقابلہ کر نا ہے ۔۔۔ میڈ یا پر بھی ایک دوروزمیلہ گرم رہتا ہے اور
اس کے بعدوہی پر انی سیاست ، الزامات در الزامات اور نتیجہ صفر۔ہمار ی بد
قسمتی کی انتہاکہ آج تک ہم یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ آیا یہ جنگ ہماری ہے کہ
نہیں اور ہمارا دشمن کون ہے ۔۔۔ صرف فر شتوں کو معلوم ہے ‘ بیک وقت ہم جس
کو دشمن سمجھ رہے ہیں وہی ہمارا دوست بھی ہے ان سے ہم تجارت اور امداد بھی
لیتے ہیں ‘ان سے انٹیلی جنس شیئر نگ بھی کر تے ہیں اور جن کو ہم اپنا دوست
سمجھتے ہیں ان سے گلے اور شکوے بھی ہے کہ وہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کو
فروغ دیتا ہے اور دہشت گردوں کی مالی سپورٹ کے علاوہ اسلحہ و بارود بھی
دیتا ہے ۔جب تک ہمارے حکمران جن میں سول و ملٹری دونوں شامل ہے ‘ایک میز پر
بیٹھ نہیں جاتی ہے اور ملک کو شدت پسندوں اور دہشتگردوں سے پاک کر نے کی
پالیسی نہیں بناتی‘ اس وقت یہ حملے ، مذمتی بیانا ت، سیکورٹی فیلیر، انٹیلی
جنس ایجنسیوں کی ناکامی اور ذمہ دار ی ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے سے
حالات جوں کے توں ہی رہیں گے جس طرح چودہ سال سے ہے ۔ کراچی ائرپورٹ پر
حملے نے ایک دفعہ پھر کئی سوالات کوجنم دیا ہے کہ آخر کس طرح دہشت گرد حملہ
کر نے میں کامیابی ہو جاتے ہیں ‘ہمارے اداروں اور سیاست دان لاکھ دفعہ کہے
کہ ہم نے دہشت گردوں کو مار دیا اور ان کو کا میاب نہیں ہو نے دیا ‘سچ تو
یہ ہے کہ دہشت جہاں چاہے حملہ کر جاتے ہیں اور ہمیں زیادہ جانی نقصان دینے
کے علاوہ چند گھنٹوں میں اربوں روپے کا نقصان بھی دے دیتے ہیں‘ اس سے ز
یادہ ان کے لیے اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے ۔اب تک پاکستان میں جوبھی بڑے
حملے ہوئے ہیں اس کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ اس میں بھارتی ساخت اسلحہ
استعمال ہوا اور حملہ آورں کاتعلق ازبک ، چیچن اور افغانیوں سے تھا ‘ جبکہ
یہ رپورٹس بھی آتی رہی ہے کہ ان کو افغان انٹیلی جنس کا تعاون بھی حاصل تھا
لیکن جس طرح شروع میں لکھا کہ یہ سب کچھ ایک دو دنوں کے لیے ہو تا ہے اس کے
بعد ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے خطے میں جوگریٹ گیم کھیلی جارہی ہے ہم اس کا
حصہ ہے ‘ ہمیں لونگ ٹرم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے آج بھی سابق صدر پر ویز
مشرف کی پالیسی جاری ہے۔میں جب اپنی کتاب ’’ کیا پاکستان ٹوٹ جائے گا؟ نئی
گر یٹ گیم کے پس پردہ حقائق ‘‘ کے لیے ریسرچ کر رہا تھا تو اس وقت معلوم
ہوا کہ آج تک ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی خاص پالیسی بنائی ہی
نہیں ‘اب تک 52 ہزار جانوں کی قر بانی دی اور سو ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی
نقصان کرکے بھی ہم خالی ہاتھ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ ر یسر چ کر نے پر
یہ بھی معلوم ہوا کہ انٹیلی جنس ادروں میں خفیہ معلومات کی نہ صرف کمی ہے
بلکہ ایک دوسر ے کے سا تھ شیئرنگ بھی نہیں کی جاتی ۔ پولیس کاایک ا ہم رول
کو ہم نے سائٹ لائن کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھی کا فی مسائل درپیش ہوئے
ہیں۔ اس جنگ میں سب سے خطرناک عمل خود ہمارے اداروں میں شدت پسندوں کے
پیرول پر کام کر نے والے اہلکار ہے جن کی وجہ سے ہا ئی و یلیو ٹارگٹ حملے
ہو جاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ ہمارے سر برہاں بہت زیادہ ہے ‘
پشتومیں ایک بد دُعا ہے کہ’’ اﷲ تے د کور مشران زیاد کا ‘‘ یعنی اﷲ اپ کے
گھر میں سر براہوں کو زیادہ کر یں ۔ آج ہمارے ملک میں ایک طرف تو سر براہ
بہت ہے تو دوسری طرف ذمہ داری لینے اور قبول کر نے کے لیے بھی کو ئی تیار
نہیں ہو تا ۔ ہر شحض اور ادارہ ایک دوسرے پر بوجھ ڈالتا ہے جس کی وجہ سے
بھی کافی مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ کراچی ائر پورٹ پر بائیس گھنٹے بعد بھی
لواحقین التجا ئیں کر رہے تھے کہ ہمارے پیارے کولڈ سٹوریج میں پھنسے ہوئے
ہیں ان کو نکال جائے جبکہ ر یسکیو آپر یشن بارہ گھنٹے بعد ختم کیا گیا تھا
۔اب عوام جائے تو کہاں جائے ‘ ایک طرف دہشت گرد حملہ آور ہے تو دوسری طرف
ہمارے ادارے اور ان کے سر براہ ر یسکیو آپر یشن کو ختم کر نے کا اعلان کر
تے ہیں جبکہ نو گھنٹے بعد دوبارہ میڈ یا کے ذریعے لو احقین شور مچاتے ہیں
کہ ہمارے پیارے اب تک کو لڈ سٹوریج میں موجودہے جہاں پر آگ بھی لگی ہو ئی
ہے ‘دو بارہ پانچ گھنٹے ر یسکیو آپر یشن سے پانچ لاشیں بر آمد ہو جاتی ہے
جو صرف نااہلی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔دہشت گردی کی اتنی بڑی واقعے کے بعد
حکومتیں ہل جاتی ہے لیکن یہاں پر انتظامیہ صرف حکام بالا کو رپورٹس بنا رہی
ہوتی ہے ۔ ریسکیو آپر یشن کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمام متعلق جگہوں کااچھی
طرح معا ئنہ کر کے آپر یشن ختم کر دے لیکن جس طرح یہاں ہر کام الٹ ہو تا ہے
اسی طرح ریسکیو عملے نے بھی وقت سے پہلے آپر یشن ختم ہونے کی رپورٹ تو دی
لیکن اطلاعات کے مطابق گزشتہ بائیس گھنٹے سے سات افراد پھسے ہوئے تھے جس
میں سب کی موت ہو چکی ہے ‘یہ ذمہ داری کس کی تھی اور آیا ائر پورٹس پر
ریسکیوآپر یشن میں استعمال ہو نے والی بنیادی مشینری موجود ہو تی ہے؟ حقیقت
تو یہ ہے کہ اب ہمارے حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کو انسانی زند گی
کی قیمت معلوم ہی نہیں ۔ |