شہداء کو سلام لیکن

کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گرد حملے میں اے ایس ایف کے جوانوں سمیت اٹھارہ افراد شہید ہوئے۔اے ایس ایف ،پولیس رینجرزاور اس کے بعد پاک فوج کے دستوں نے کراچی ایئر پورٹ کا انتظام سنبھالا اور یوں صبح دس بجے آرمی چیف نے قوم مکمل اور کامیاب آپریشن کی مبارک باد دی۔ابھی اس مبارکباد کی بازگشت جاری تھی کہ ایئر پورٹ دھماکوں سے دوبارہ گونج اٹھا۔بچ جانے والے دہشت گردوں نے شرمندگی میں اپنے آپ کو دھماکوں سے اڑا لیا ورنہ یہ آپریشن ابھی تک جاری ہوتا۔ اے ایس ایف پولیس رینجرز اور پاک فوج کے جوانوں کی جرات کو سلام اور ان شہدا کی شہادت کو بھی جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا۔صرف اٹھارہ لوگوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی پرواہ کئے بغیرہماری عزت حرمت اور غیرت کو بچا لیا۔ اب ہم قوموں کی برادری میں سر اٹھا کے بتا سکتے ہیں کہ ہمارے لوگ کتنے جانفروش اور جانباز ہیں جو اپنے وطن کی حرمت کی حفاظت کے لئے جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

آخر کب تک ہم شہداء کی عظمتوں کو سلام کرتے رہیں گے۔آخر کب تک ہم بھارتی اسلحے کو غیر ملکی اسلحہ قرار دیتے رہیں گے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیریں اور معلوم کریں کہ آخر غلطی کہاں ہے؟ میں جانتا ہوں کہ دہشت گردوں کو روکنا آسان نہیں ہوتا۔وہ جان دینے پہ تلے ہوتے ہیں اور دنیا میں کوئی بھی طاقت اس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتی جس نے جان دینے کا تہیہ کر لیا ہو۔انسان کی جان سب سے قیمتی ہے جس نے اسے ہی داؤ پہ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہواسے پھر اسے کس بات کی پروا ہو گی۔اس کے باوجود وہ لوگ جو ان کے منصوبے جاننے کے ذمہ دار ہیں۔جنہیں ان پہ نظر رکھنا ہوتی ہے اور جنہیں ان لوگوں کو ان کے گھر میں روکنا ہوتا ہے وہ کہاں تھے۔ سیکیورٹی اداروں نے حملوں کی خبر دے دی تھی۔اس طرح کی تنصیبات کے چاروں اطراف پہرہ ہوتا ہے۔اس سے پہلے سی سی ٹی وی کیمرے۔کیا وہ کیمرے کام کر رہے تھے۔اگر کام کر رہے تھے تو کیا کنٹرول روم سے ان لوگوں کو دیکھا نہیں گیا۔ دیکھا گیا تو کیا انہیں روکنے کے لئے کوئی فوری اقدام کیا گیا۔اس طرح کی تنصیبات میں نگرانی کا دوہر ہ تہرہ نظام ہوتا ہے اس کے باوجود دہشت گرد نہ صرف اندر گھسے بلکہ اندر گھس کے انہوں نے تین اطراف میں پھیل کر دہشت پھیلائی۔اس کا مطلب میں نہیں سب دنیا نے جانا کہ پہلے حصار کے علاوہ ہماری تنصیبات میں حفاظت کا کوئی بندو بست نہیں ہوتا ۔ایک دفعہ آپ حصار توڑ کے اندر داخل ہو جائیں تو پھر ہر جگہ ملک ما است کہ ملک خدائے ما است۔

نہیں یار ایسے مت کرو۔ ہم نے کامرہ بیس جی ایچ کیو ،مہران بیس اور ان جیسی دوسری کتنی ہی جگہوں پہ شہداء کی عظمتوں کو سلام کیا ۔ان کے لئے پھول رکھے شمعیں روشن کیں۔ وہ سب ٹھیک لیکن انہیں شہید کروانے والے بھی پھول رکھنے والوں میں شامل تھے۔شمیعیں جلانے والوں میں وہ سب سے آگے تھے۔ حالانکہ انہیں پھانسی کے پھندے پہ ہونا چاہئیے تھا۔مٹی مت ڈالو یار۔انگلی کے پیچھے سورج مت چھپاؤ۔کمال ذمہ داری ہے پاکستان کے آرمی چیف کو سب اچھا کی رپورٹ کے بعد خود کش خود مہربانی کر کے اپنے آپ کو اڑا لیتے ہیں۔آپ نے اپنے ساتھ اپنے چیف کو بھی دنیا کے سامنے بے اعتبار کیا۔ کیا کوئی اس کی ذمہ داری لے گا۔ وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر خود معرکے کے وقت ہوائی اڈے پہ موجود تھے۔انہوں نے خود اسے لیڈ کیا یہ بات وزیر اعلیٰ کے ضمن میں تو قابل تعریف ہے لیکن کیا کور کمانڈر کل کلاں سیکشن لیول کی کاروائیوں کو بھی لیڈ کرے گا۔ مجھے پتہ ہے کہ بین الاقوامی سطح کا معاملہ تھا۔پاکستان کی عزت کا سوال تھا لیکن کیا کل بیس دہشت گرد کسی جگہ چڑھ دوڑے تو آرمی چیف کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔جنگ کا یہ کون سا طریق ہے۔ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ کے ہنگام ایک ترتیب سے لڑا جاتا ہے۔کیا ہم سمجھ لیں کہ دشمن ہماری صفیں توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔کیا اس طرح کے مواقع پہ ہم اس مادر پدر آزاد میڈیا کا منہ بند نہیں کر سکتے جو بریکنگ نیوز کے چکر میں ہمیشہ ہی ملک دشمنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیا غداری کے مقدمے صرف مشرف کے لئے ہیں کیا غداروں کو صرف کروڑ روپے جرمانہ ر کے وطن پیچنے کی اجازت دی جاتی رہے گی۔

شہید ہونے والے عظیم تھے کہ شہید جو ہو گئے لیکن وہ لوگ جو روز مولوی فضل اﷲ کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ یہ تو ٹریلر ہے آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔اب ہم اپنی موجودگی ثابت کرینگے اور پھر وہ اپنی موجودگی ثابت بھی کرتا ہے۔ ہمارے ذمہ داروں سے تو اس دہشت گرد کی ساکھ اچھی ہے۔جب وہ کہتا تو کرڈالتا ہے۔ ہمارے بڑے کہتے کچھ اور ہیں اور نکلتا کچھ اور ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے گڈ اور بیڈ طالبان کا واویلا کرنے والے کیا غدار نہیں؟بھارت کے مقابلے میں خدا جانے ہماری گھگھی کیوں بندھ جاتی ہے۔ وہ خود دھماکے کروا کے ٹرینیں جلا کے اسے ہمارے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ہم حافظ سعید جیسے شخص کو ان کے مطالبے پہ پکڑ کے بغیر کسی ثبوت کے پکڑ کے بند کر دیتے ہیں۔جبکہ ہم میں اوپر سے نیچے تک سب جانتے ہیں کہ بھارت ہمارے ملک میں انتہاء کی تخریب کاری میں ملوث ہے اور ہم اس کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ضیا ء کے دور میں ہمارے ہاں ایک دھماکہ ہوتا تھا تو اس کے جواب میں دو دھماکے ہوتے تھے۔آج کل کے دور میں منتیں نہیں چلتیں طاقت چلتی ہے۔آپ دشمن کا مقابلہ کریں ترلے نہیں۔ ترلے کرنے والوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔

کب تک ہم شہداء کی عظمتوں کو سلام کرتے رہیں گے۔ کب تک ہم قاتلوں کو بچاتے رہیں گے۔ کب تک ہم دہشت گردوں کو ان کی مرضی کا میدان چننے کی سہولت دیتے رہیں گے۔کب تک بھارت ہمیں کھجلی کرتا رہے گا اور ہم اسے چینی بیچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔بس کرو یار۔پہلے اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرو۔پھر دشمن کا مقابلہ کرنے نکلو۔کتا جب مالک ہی کو کاٹنے لگے اسی کی بہو بیٹیوں کی اوڑھنیاں کھینچنے لگے تو ایسے کتے کو گولی مارت ہیں اس کے ترلے نہیں کرتے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268442 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More