ملک محمد پرویز
قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں آخرکار دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے
مربوط اور مضبوط آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔امن کی تمام تر کوششوں
اور خواہشات کے باوجود دہشت گردوں جن کے تانے بانے اور پشت پناہی کے مراکز
بھارت کے ازبکستان اور افغانستان میں نیٹ ورک کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور
بھارتی ایما، اشارے، تربیت اور اسلحے سے لیس ہوکر پاکستان پر یہ دہشت گرد
حملہ آور ہیں۔ ان کے خلاف موثر آپریشن دفاع وطن کا تقاضا تھا اور ہے بھی۔
گزشتہ دنوں راکٹوں اور دستی بموں سمیت خود کار ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں
اور خودکش بمباروں نے کراچی ائیرپورٹ پر بھرپور حملہ کردیا۔ حملے کی شدت
کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وزیراعظم اورآرمی چیف نے اسے ناکام
بنانے کی کارروائی کی خود نگرانی کی اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک
ملک کے اس سب سے بڑے اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کوحملہ آوروں سے پاک نہ
کرالیا گیا۔ٹولیوں کی شکل میں پرانے ٹرمینل میں داخل ہوکر حملہ کرنے والوں
سے نمٹنے کیلئے فوج اور رینجرز کوبھی فوری طورپرطلب کرلیاگیا ۔ اس آپریشن
میں مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد دس بتائی جاتی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز پی
آئی اے اور سول ایوی ایشن کے20ملازمین شہید اور26زخمی ہوگئے۔ اطلاعات کے
مطابق کسی طیارے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ آپریشن 5گھنٹے تک جاری رہا
اورپیرکی دوپہر تک ایئرپورٹ حملہ آوروں سے مکمل طورپرکلیئر کرا لیا گیا۔
حملہ میں غیر ملکی ازبک دہشت گرد بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ بھارتی اسلحہ
اورزخموں سے خون کابہاو روکنے والے بھارتی انجکشن بھی برآمد ہوئے ہیں۔تحریک
طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ حکومت
اورطالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کم سے کم وقتی طورپر تو ختم ہوگیا
ہے۔طالبان نے کراچی ائیر پورٹ پر حملہ پوری تیاری کے ساتھ کیاتھا۔یہ ہوائی
اڈہ چونکہ دنیا بھر سے پاکستان کے فضائی رابطے کامرکزی مقام ہے اس لئے اس
پرقبضہ یااسے تباہ کرکے طالبان بیرونی دنیا کواپنی طاقت سے آگاہ کرناچاہتے
تھے ہماری سکیورٹی فورسز نے جانوں پرکھیل کران کی یہ مذموم کوشش ناکام
بنادی۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف اس کامیاب آپریشن
کومربوط حکمت عملی کانتیجہ قرار دیاہے جوایسے حالات میں ہماری سکیورٹی
فورسز کی مستعدی اورسریع الحرکت جوابی کارروائی کاخاصہ ہے۔دہشت گردی کے
خلاف جنگ دراصل پورے ملک اورپوری قوم کی جنگ ہے۔کراچی ائیرپورٹ کودہشت
گردوں سے مختصر وقت میں آزاد کرلینا سکیورٹی فورسز کایقینا بہت بڑا کارنامہ
ہے مگر اس موقع پرہمیں ائیرپورٹ کے حفاظتی انتظامات میں موجود ان خامیوں
کاپتہ ضرور چلانا چاہئے جن سے دہشت گردوں نے فائدہ اٹھایا اور آئندہ کے لئے
ان کمزوریوں کودورکرنا چاہئے۔یہی نہیں ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کے حفاظتی
انتظامات کی بھی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنی چاہئے کیونکہ طالبان کے بعض
گروپوں کی طرف سے امن کی خواہش کے باوجود ایک طبقہ ایسا ہے جوہرقیمت پراپنے
ایجنڈے کومکمل کرناچاہتاہے اور اس کے لئے اس نے عملا اعلان جنگ کر دیا ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ایک اطلاع کے مطابق طالبان کے انتہاپسند
گروپوں، مذہبی دہشت گردوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان مخصوص علاقوں
اور حساس مقامات پر حملوں میں تیزی لانے کی غرض سے باہمی تعاون کے لئے
رابطے قائم ہو چکے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ کے علاوہ تین دوسرے مقامات پر اتوار
ہی کو جو واقعات رونما ہوئے ان کے پیش نظر اس باہمی گٹھ جوڑ کے امکان کو
نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلا واقعہ پاک ایران سرحد پر تفتان میں پیش
آیا جہاں دہشت گردوں نے دو ہوٹلوں پر حملہ کیا جس میں ایران سے واپس آنے
والے24 زائرین جاں بحق ہو گئے۔دوسرے واقعہ میں سندھ بلوچستان پنجاب سرحدی
علاقے گندیاری میں سیکورٹی فورسز کا مقابلہ بلوچ لبریشن آرمی سمیت کالعدم
تنظیموں کے دہشت پسندوں سے ہوا جس میں دس شرپسند مارے گئے۔ یہ شرپسند گیس
پائپ لائنوں اور مسافر ٹرینوں پر حملے کرتے تھے۔ تیسرا مقابلہ پشاور میں
پولیس اور دہشت گردوں میں ہوا جس میں دو دہشت گرد اور دو راہگیر مارے گئے۔
دہشت گرد تنظیموں میں باہمی رابطوں کی اطلاعات اگر درست ہیں تو حکومت کو
بھی اسی انداز میں ان سے مقابلے کے لئے مربوط حکمت عملی اپنانا ہو گی- |