گھبرانے کی کوئی بات نہیں !آپ مذاکرات جاری رکھئے !
پاکستان کٹتا مرتا رہے گا تا دم کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو جاتے
اور اسلام آباد پر اسلامی امارات طالبان کا جھنڈا نہیں لہرا جاتا۔ تب ملک
میں امن کی بادِ صبا خوشیاں اور خوشبو بکھیرتی چلے گی تب اُمت کا کلیجہ
ٹھنڈا ہو گا اور ظاہری بات ہے بڑے مقاصد کے حصول کے واسطے قربانیاں تو دینی
پڑتی ہیں!
زیادہ فکر کر کے خون جلانے کی بھی ضرورت نہیں کہ آپ کا خون عام پاکستانی کی
طرح بے وقعت نہیں۔ یوں بھی پاکستانی املاک پر یہ پہلا حملہ تو ہے نہیں اسی
لئے Take a Chill Pill ۔ یہاں تو ایک طویل فہرست ہے! مہران ائیر بیس، جی
ایچ کیو، پولیس لائین اور گنتے چلے جائیے۔بس فہرست میں کراچی کے جناح
انٹرنیشنل ائیر پورٹ نامی واقعہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ حالانکہ اس حملے کی
ذمہ داری پاکستان تحریکِ طالبان نے قبول کر کے ہمیشہ کی طرح بڑے جگر کا
ثبوت تودیا ہے پر دل اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا!کیونکہ اس
مرتبہ اس حملے کی مکمل ذمہ داری حکومتِ وقت، طالبان محبت کا شکار سیاسی
جماعتوں، طالبان حمایتی سیاسی و عسکری شخصیات اور ہر اس فرد پر عائد ہوتی
ہے جو دل میں طالبان نامی درندہ صفت جماعت کا درد کھتا ہے ، ماضی میں ان کے
تمام کارناموں کی حجت پیش کرتا رہا ہے اور اس کینسر کو بگڑے ناراض بھائی،
ڈرون کے ستائے، امریکی جنگ کا ردِ عمل جیسے القابات سے نوازکر سادہ لوح
پاکستانیوں کو گمراہ کرتا رہا ہے۔
اسلحہ کو بھارتی اور حملہ آوروں کو ازبک ثابت کر کے ایک مرتبہ پھر عوام کی
توجہ اصل برائی کی جانب سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ کون نہیں
جانتا کہ شمالی و جنوبی وزیرستان میں غیر ملکی شدت پسند پاکستان تحریکِ
طالبان کے زیر سایہ موجود ہیں اور سرحد کے دونوں اطراف شدت پسند کاروائیوں
میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ اُمت کے فلسفے پر کاربند گروہ ہے جو کسی سرحد کا
پابند نہیں ۔ اب اگر ان امتیوں کے انگوٹھوں کے نشان پاکستانی افراد کے
نادرا کے ڈیٹا بیس میں تلاش کئے جائیں اور ناکامی کی صورت میں اس دہشت گرد
حملے کو غیر ملکی سازش سے جوڑا جائے تو کیا کہا جا سکتا ہے!
جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ! بار بار ایک ہی جانب سے ٹھوکریں اور جوتے کھا
کربھی کچھ نہ سیکھنے کی صلاحیت سے مالا مال قوم اب کڑھنے کے سوا کیا کر
سکتی ہے۔ طالبان نے وہی کچھ کیا جس میں ان کو کمال حاصل ہے اور ہم نے بھی
بالکل وہی کچھ کیا جس میں ہمیں عروجِ فن ہے! ہم پوری محنت و دلجمعی سے اپنی
انتہائی عجیب و غریب بے سروپا سیکیورٹی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ آج صبح
پاکستانی F-16 جیٹ طیاروں نے وادیِ تیرہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر
بمباری کر کے قریباٌ 15 مشتبہ دہشت گرد ہلاک کر دیے۔ مشتبہ دہشت گرد! کون
جا نتا ہے کتنے دہشت گرد تھے اور کتنے معصوم؟ اگر ہمارے عسکری اداروں کو
دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور حرکات و سکنات کا اتنا ہی علم ہے تو حملہ ہو
جانے کا انتظار ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ پہلے طالبان کے حملے کا انتظار کیا
جائے گا جب وہ دس بیس لوگ مار کر لاکھوں کروڑوں کا نقصان کر کے جگ ہنسائی
کا موجب بن کر چلتے بنیں گے تو ہم جیٹ اڑا کر ان کے علاقوں پر چڑھا دیں گے!!!
یہ پالیسی نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فٹ بال کے میچ میں اضافی وقت
ختم ہونے کے بعد ’سڈن ڈیتھ‘ چل رہی ہے۔ ایک کک طالبان مارتے ہیں اور ہم
روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک کک ہم مارتے ہیں اور طالبان روکنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کھیل چلتا رہے گا تا وقتکہ کوئی ایک شکست نہ کھا جائے
کیونکہ سڈن ڈیتھ میں مقابلہ کسی طور برابری پر ختم نہیں ہوتا۔
یہ نظریہ کی جنگ ہے۔ ریاست کی بقا کا معاملہ ہے۔ کھیل کھیلنا بند کریں۔
طالبان کے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہیں اور ہم نے قریباٌ 67 برسوں میں مرتے
کھپتے جو تھوڑا بہت بنایا ہے وہ یوں گنوایا نہیں جا سکتا۔ ریاست کے وسیع تر
مفاد میں درست اور شیشے کی طرح صاف فیصلے کریں اور تیار رہیں کہ درست فیصلہ
اکثر مشکل ترین اور غیر مقبول ہوتا ہے۔ کسی ایک وقت میں، کسی ایک بات پر،
کسی ایک عمل سے تمام افراد کو خوش نہیں کیا جا سکتا ۔ سیاسی، عسکری اور
دیگر اداروں میں موجود طالبان ایجنٹوں کو فیصلہ سازی کے عمل سے بالکل دور
کر دیے جانے کی اشد ضرورت ہے!
ائیر پورٹ آپریشن ہو گیا! دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت
19 پاکستانی بھی مارے گئے جبکہ پاکستان کی معیشت پر کاری ترین ضرب لگی ہے۔
بین الاقوامی پروازوں کے پاکستان میں معطل ہونے کی صورت میں ہزاروں افراد
بے روزگار ہو سکتے ہیں پر کون سوچتا ہے؟ یہاں تو لوگ پاکستان زندہ باد ،
پاک فوج زندہ باد ، رینجرز پائیندہ باد کے نعرے مارتے رہے اور بس۔ نعرے
ضرور ماریں پر یہ بھی یاد رکھیں کے ملکی املاک اور عوام کی سیکیورٹی یقینی
بنانا پاک فوج اور رینجرز کے فرائض میں شامل ہے۔ پاکستانی عوام کے ادا کردہ
محصولات سے ان اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ نعرے مارنے سے بہتر تھا
کہ کولڈ سٹوریج میں پھنسے سات افراد کو نکالنے کی کوئی ادنی سی کوشش کر لی
جاتی۔ اس باپ کے کاندھے پر بھی ہاتھ رکھ دیا جاتا جس کا بے گناہ جواں سال
بیٹا دہشت گردی کا نشانہ بنا ۔ایسا با ہمت باپ جو اتنے بڑے نقصان کے بعد
بھی کہیں پر کمزور دکھائی نہیں دیا۔ زندہ باد کے نعرے لگانے ہیں تو اس باپ
کے لئے لگاؤ جو اپنا بچہ مُلّا کریسی کی بھینٹ چڑھنے کے باوجود دہشت گردوں
کے آگے جھکنے پر تیار نہیں۔
سمجھنا چاہیں تو راکٹ سائنس نہیں کہ جانوروں سے مذاکرات نہیں کیے جاتے!
انہیں سدھایا جاتا ہے۔ سدھانے کے لئے خاص طریقہ کار اپنانا پڑتا ہے۔ خطرناک
جانور کو اپنے تابع کیا جاتا ہے۔ اسے بزورِ بازو یہ بتایا جاتا ہے کہ کن
حالات میں کس طرح ری ایکٹ کرنا ہے۔ چھڑی چھانٹے کی زبان میں احکامات بجا
لانا سکھایا جاتا ہے۔
سوات آپریشن زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوا وہ فوجی
آپریشن ہے جس نے علاقے میں امن و امان کی صورتحال اور ریاست کی رٹ واپس
قائم کی! مذاکرات بالآخر اپنے منطقی انجام تک آن پہنچے ہیں اور اگلا فیصلہ
حکومت کو کرنا ہے۔ |