وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب
نریندرا مودی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے دورہ بھارت کے دوران
بھارتی ہم منصب سے ہونے والی ملاقات میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے
کہ وہ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ مل کر تمام تصفیہ طلب امور کو حل کرنے کے
خواہشمند ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں غربت کی زندگی بسر کرنے والے افراد
ہمارے منتظر ہیں اور دونوں ممالک کا مستقبل معاشی خوشحالی سے وابستہ ہے۔
امید ہے کہ ہماری کوششیں روشن مستقبل کی بنیاد ڈالیں گی۔ بھارتی میڈیا کے
مطابق بھارتی وزیراعظم کے آفس کو اپنے پاکستانی ہم منصب کی جانب سے لکھا
گیا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ بھارت کے
دوران بھارتی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ
وہ نریندرا مودی سے ہونے والی ملاقات سے مطمئن ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ
وہ نہ صرف دورہ بھارت سے مطمئن ہیں بلکہ باہمی تعلقات اور خطے کے معاملات
پر بھارتی وزیراعظم سے بھی مفید بات چیت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس
ملاقات میں جہاں باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا وہاں علاقائی مفادات پر
بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم
نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی اور وہاں ملاقات بھی
کی تھی جس میں تحائف کا بھی تبادلہ ہوا تھا۔حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ
نون کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی کی تقریبِ
حلف برداری میں شرکت کے سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف کو اپنے دورہ
ہندوستان سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان
ون ٹو ون ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں ہوا جس سے
اسلام آباد کو مایوسی ہوئی ہے ہندوستان کا دورہ کرنے والے وزیراعظم کے وفد
کو امید تھی کہ ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا، لیکن
ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بجائے نئی دہلی نے ایک یک طرفہ پریس ریلیز جاری کی،
جس میں پاکستان کا مؤقف شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ہندوستان کی جانب سے
نوازشریف کو صرف پاسنگ ریفرنس دیا گیا جو ایک ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے
مناسب نہیں تھا۔ نئی دہلی کی جانب سے جاری ہونے والی اچانک اور ناکافی پریس
ریلیز نے مجبور کیا کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے طور پر ایک پریس کانفرنس
کریں۔ جہاں انہوں نے نہایت محتاط الفاظ میں بات کی، لہٰذا جو کچھ بھی اس
دورے سے کیا حاصل ہوا، اسے بے کار نہیں کہا جاسکتا۔ حکومت اب سیکریٹری سطح
کے مذاکرات کی امید لگائے ہوئے ہے جس پر نواز شریف کے دورے کے دوران دونوں
ہی ملکوں نے اتفاق کیا تھا، اور یہ مذاکرات تعلقات کو مضبوط بنے میں مدد
گار ثابت ہوں گے۔نواز شریف کی مودی سے ملاقات میں نریندر مودی نے نواز شریف
کو چارج شیٹ دی تھی۔ملاقات میں بھارت کی جانب سے ممبئی حملوں میں ملوث دہشت
گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر اصرار رہاتھا۔نئی دہلی میں ہونے والی
پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات پر گویا دنیا بھر کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں،
بند کمروں میں جنوبی ایشیا کے بڑے لیڈروں کے درمیان کیا گفت وشنید ہوئی، یہ
بات سب کیلئے معمہ تھی، کسی نے دہشت گردی تو کسی نے تجارت دونوں کے درمیان
گفتگو کا موضوع جانا۔ یہ بھید اس وقت کھلا جب بھارتی سیکریٹری خارجہ کی
جانب سے دونوں لیڈروں کے درمیان ہونے والی ملاقات اور گفت گو کی رودات
سامنے آئی۔پاکستان نئی راہیں کھولنے کو تیار مگر دوسری جانب بھارت کی ہٹ
دھرمی برقرار رہی، میاں صاحب سے ملاقات میں مودی کی تکرار اسی بات پر رہی
کہ سرحد پار سے دہشت گردی روکی جائے، اور ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو سزا
دینے کا اصرار رہاحالانکہ ممبئی حملوں کے حوالہ سے انڈیا میں یہ بتا واضح
ہو چکی ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستان نہیں بلکہ انڈیا خود ہی ملوث تھا صرف
پروپیگنڈے کے زور پر پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور آج
تک ممبئی ممبئی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے لیکن بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ
جو ہو رہا ہے،سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس جس میں بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس
کرنل نے مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا اس پر میاں صاحب نے بات نہیں کی بلکہ
خاموشی سے چارج شیٹ تھامی اور پاکستان واپس آنے کے بعد بھی انکو چین نہ آیا
اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پر دشمنوں نے ایک بہت بڑا وار
کیا ہے،کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہواچار گھنٹے کے اس واقعہ میں پاکستان کی با
ہمت افواج نے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ہلاک کیا ،2008میں
انڈیا میں ہونے والے ممبئی حملوں میں بھی دس لوگ تھے جنہوں نے پانچ دن تک
بھارتی فورسز کے ساتھ مقابلہ کیا تھا اس سے بھارت کی سیکورٹی اور ااسکی فوج
کی ہمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے لیکن ایرپورٹ پر ہونے والے حملے میں دس دہشت
گردوں کو پاکستانی فورسز نے صرف چار گھنٹے میں ہی دبا دیا اور ان دشہت
گردوں سے نہ صرف بھارتی ساخت کا اسلحہ برآمد ہو ا بلکہ ایک ایسا انجکشن بھی
برآمد ہوا جو بھارتی فوج استعمال کرتی ہے ایسے حالات میں نواز شریف کو مودی
کو خط لکھنا سمجھ سے بالا تر ہے،بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ دوستی
والا رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ الزامات لگائے ،اور پاکستان کی
پالیسی یہ ہے کہ ان الزامات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی جاتی
ہے؟کیوں؟پاکستان ایک آزار ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،انڈیا
پاکستان کی طرف آنے والے دریاوں پر ڈیم بنا رہا ہے اور انہی ڈیموں سے بجلی
پیدا کر کے پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے اس پر پاکستان خاموش رہا۔اب جب
کراچی ایر پورٹ نہیں بلکہ پاکستان پر ہونے والے حملے میں بھارتی اسلحہ
برآمد ہوتا ہے تو حکمرانوں کی خاموشی سمجھ میں نہیں آتی اگر اسکے مقابلہ
میں بھارت میں ایسا ہوا ہوتا تو وہ اپنی فوجیں سرحدوں پر لے آتا جیسے اس نے
ممبئی حملوں کے بعد کرنے کی کوشش کی تھی حالانیکہ وہ اس کا اپنا ڈرامہ تھا
لیکن وہ پاکستان کو انڈر پریشر کرنے میں کامیا ب ہو گیا تھا اب میاں نواز
شریف صاحب نے اگر مودی کو خط لکھنا ہی تھا تو اس میں لکھتے کہ بھارتی اسلحہ
بر آمد ہونے کا بھارت جواب دے ،بلوچستان کے وزیر داخلہ متعدد بار کہہ چکے
ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی و تخریب کاری میں انڈیا کا
کردارہے جبکہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاسوں میں اس با ت کے ثبوت بھی دہئے
گئے لیکن حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں
پاکستان دشمنی کا کھل کر اطہار کیا تھا بلکہ بھارت میں انتخابات صرف اور
صرف اسلام و پاکستان دشمنی پر لڑے گئے اسکا نتیجہ آج بھارت میں نظر آرہا ہے
،مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلمانوں کو بھارت میں رہنے نہیں دیا جا
رہا ہے ،مسلمان علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ہندو دہشت گردی بڑھ
رہی ہے اور مسلمان نشانہ بن رہے ہیں ،نواز شریف کو خط میں یہ لکھنا چاہئے
تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو تحفظ دیا جائے ،ہندو باز آجائیں ،پاکستان میں
تمام اقلیتیں محفوظ ہیں انڈیا میں بھی انہیں انکا مقام دیا جائے لیکن ایسا
کچھ نہیں لکھا گیا ۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ’’پاکستان کارڈ‘‘
استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان سے داؤد ابراہیم کو اسی طرح نکال لائے
گا جس طرح امریکہ نے اْسامہ بن لادن کو پاکستان سے نکال لیا تھا۔ مودی نے
بھارت کے ہندوؤں کو خوش کرنے اور بھارتی مسلمانوں کے زخموں پر نرم چھڑکنے
کیلئے کہا کہ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کیا جائیگا۔نریندر مودی نے ایک
ٹی وی انٹرویو میں پاکستانی حکومت اور اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کے
درمیان خطوط کے تبادلے پر کہا تھا کہ پاکستان کو’’لو لیٹر‘‘ لکھنا بند کئے
جائیں اور اس کو اسی کے بھاشن میں جواب دیا جائے ،دیکھتے ہیں نوازشریف نے
پاکستانی قوم کی توقعات کے برعکس مودی کو ہی’’لولیٹر‘‘ لکھ دیا اسکا جواب
کیا آتا ہے۔ |