بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے 1996ء میں 26 سیاسی رہنماوں
کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ انہوں نے بعد میں ترمیم کرتے ہوئے مزید سیاست
دانوں، بیوروکریٹس اور وکلاء کے نام بھی شامل کئے، انکی تعداد اب 63 تک جا
پہنچی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم نوازشریف، سابق صدر زرداری، عمران
خان، بلاول بھٹو زرداری، شہبازشریف، سابق صدر مشرف، چودھری شجاعت، سابق
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، چودھری پرویز الٰہی سمیت 26 سیاستدانوں کو بیرون
ملک اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے کیس کے سلسلے میں نوٹس جاری کئے ہیں ۔ 26
سیاستدانوں جبکہ 37 بیوروکریٹس اور وکلا سمیت 63 افراد کو بیرون ملک رکھے
ہوئے 300 بلین ڈالر اثاثوں کی واپسی کیلئے دائر درخواست پر میاں نواز شریف
‘ آصف زرداری‘ عمران خان سمیت دیگر مدعا علیہا ن کو سرکاری یا سیاسی عہدے
کی بجائے ذاتی حیثیت میں جواب داخل کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل عدالت نے
عدالتی نوٹس کی تعمیل سے انکار کرنے والوں کی تعمیل کروانے کیلئے اخباری
اشتہار شائع کر نے کی بھی ہدایت کر دی۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے
ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ اہم نوعیت کا ہے۔ اس کی تہہ تک جائیں گے حکومت
خود کہتی ہے پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ اگر یہ
رقم واپس آجائے تو ملک کے تمام قرضے اتر سکتے ہیں اور ملک کی حالت سنور
جائیگی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مدعا علیہان میاں نواز شریف، کلثوم نواز،
حسین نواز، ہمایوں اختر خان نے اپنے ملازمین اور سیکرٹریوں کے توسط سے
تعمیل سے انکار کیا جبکہ میاں شہباز شریف نے نوٹس کی خود تعمیل کی۔ درخواست
میں کہا گیا کہ اکثر سیاست دانوں نے غیرقانونی طور پر اپنے اثاثے بیرون ملک
منتقل کر دئیے ہیں اور اگر انہیں واپس لایا جائے تو ملک کو غیر ملکی قرضوں
سے نجات مل سکتی ہے۔ ان سیاست دانوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے اپنا سرمایہ
بیرون ملک منتقل کیا۔ عدالت ان کے اثاثے واپس پاکستان لانے کا حکم جاری کرے۔
دوسری جانب یوں تو الطاف حسین 22 برس سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کی بود و
باش شاہانہ ہے اور ان کے اخراجات پارٹی برداشت کرتی ہے۔ یہ بات بتانے کی
ذمہ داری ایم کیو ایم کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ لندن میں ہونے والے
اخراجات کے لئے وسائل کہاں سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ وسائل پاکستان سے
منتقل کئے جاتے ہیں تو اس کے ثبوت اور برطانوی قوانین کے تحت ان کی
رجسٹریشن اور ان پر ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ بظاہر اسی بے قاعدگی
میں الطاف حسین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔
لیکن یہ معاملہ خاص طور سے 2010ء میں لندن میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد پولیس کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ پولیس اس
قتل اور اس میں ایم کیو ایم کی قیادت کے ملوث ہونے اور اس حوالے سے فراہم
ہونے والے وسائل کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔ یہی پہلو الطاف حسین کی
گرفتاری اور ان کے خلاف عائد الزامات کے حوالے سے اہمیت بھی رکھتا ہے۔ اب
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس قتل میں ملوث دو افراد پاکستانی انٹیلی جنس کی
تحویل میں ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ ان کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ
کرتی رہی ہے۔ اب ان دونوں نوجوانوں کے نام اور تصاویر بھی جاری کر دی گئی
ہیں۔
اگرچہ ایم کیو ایم ان دونوں پراسرار افراد کے بارے میں مکمل لاعلمی کا
اظہار کرتی ہے لیکن حکومت پاکستان نے ابھی تک انہیں برطانیہ کے حوالے کرنے
کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ الطاف حسین کی گرفتاری
کے بعد کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے ردعمل کو کنٹرول کرنے کے
لئے ان دونوں گرفتار افراد کو استعمال کیا گیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایم
کیو ایم نے شروع میں شدید غم و غصے کا اظہار کرنے اور کراچی اور حیدر آباد
کو مفلوج کرنے کے باوجود تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ بلکہ الطاف حسین کی
رہائی کی کوئی خبر ملنے سے بہت پہلے کراچی میں کاروبار بحال کرنے کی اپیلیں
بھی سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ دونوں افراد برطانیہ کے حوالے کرنے کے بعد الطاف
حسین کے گرد گھیرا کتنا تنگ ہو سکتا ہے لیکن اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس
معاملہ کے اہم ترین کارڈ حکومت پاکستان یا پاکستانی انٹیلی جنس کے ہاتھ میں
ہیں۔ اس لئے اگر برطانوی پولیس کو ان دونوں مشتبہ افراد تک دسترس حاصل نہ
ہوئی تو الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شاید کوئی اہم مقدمہ سامنے
نہ آ سکے۔
دوسری طرف پاکستان کے حکام کو یہ تشویش ضرور ہو گی کہ اگر وہ ان لوگوں کو
برطانیہ کے حوالے کر دیں اور اس طرح الطاف حسین منی لانڈرنگ اور عمران
فاروق قتل کیس میں ملوث کر لئے جائیں تو پاکستان میں ایم کیو ایم کے
جارحانہ ردعمل کو کس طرح قابو کیا جائے گا۔ شاید یہی نکتہ مستقبل قریب میں
ان دونوں مشتبہ نوجوانوں اور الطاف حسین کے حوالے سے فیصلہ کن کردار بھی
ادا کرے گا۔
یوں تو الطاف حسین ایک مغربی جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور وہاں کے شہری بھی
ہیں۔ یہاں پر سیاسی کلچر کی بنیاد شہرت اور دیانت پر استوار ہوئی ہے۔ اس
لئے اگر کسی لیڈر پر کسی اخباری خبر کی صورت میں بھی الزام عائد ہو جائے تو
ردعمل کے طور پر پارٹی کارکن اخبار کے دفتر کو نہیں جلاتے بلکہ اپنے لیڈر
کو استعفیٰ دے کر اپنا دفاع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پولیس کی طرف سے الزام
اور گرفتاری کے بعد مغرب میں کسی سیاسی لیڈر کے لئے سیاست کرنا ناقابل یقین
حد تک ناممکن ہے۔
مبصرین کا کہناہے کہ الطاف حسین برطانوی شہری ہونے کے باوجود صد فی صد
پاکستانی ہیں۔ اس سیاسی کلچر میں الزامات کو طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے اور
انہیں سیاسی مقبولیت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو
ایم بڑی خوبی سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ملک کے باقی سیاست دان بھی کسی نہ کسی
طرح اس معاملہ میں ان کے معاون ہیں۔ کیونکہ اگر وہ خود بھی ایسی مشکل میں
گرفتار ہوں تو انہیں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ ان حالات میں
تماشہء اہل کرم دیکھتے ہیں، کے مصداق پاکستانی عوام جو بھی سوچیں یا کہیں
لیڈروں کی کرسیاں محفوظ اور اقتدار پر ان کی گرفت مستحکم رہے گی۔ جمہوریت ،
قانون کی حکمرانی اور عوام کی بہبود جیسے معاملات کا پیٹ نعرے لگا کر بھرا
جاتا رہے گا۔یہ قبل ازوقت کہنا مشکل ہے کہ 1996ء سے شروع ہونے والا منی
لانڈرنگ اور پاکستان سے بیرون ملک اثاثوں کی منتقلی کا سفرکب تک جاری رہے
گا۔ |