1930 میں علامہ محمد اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے
اکیسویں سالانہ اجلاس میں باضا بطہ طور پر برصغیر میں جُدا گانہ مسُلم
ریاست کا تصور پیش کیا۔اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے 1940 تک رفتہ
رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کرلیا۔23 مارچ 1940 کو قائد اعظم نے قرارداد
لاہور کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندومت کو محض دو مختلف مذاہب ہی نہیں
بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز
23 مارچ 1940کے اس جلسے کو قراردیا جاسکتا ہے مگر اس کی اصل داستان اس موڑ
سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جُدا
کرلی تھی۔پھر 14 اگست 1947 کو ہمارے بزرگوں اور علماء کی انتھک محنت اور
کوششیں رنگ لا کر پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت اُبھرنے میں
کامیاب ہوا۔
پاکستان آزاد ہوتے ہی ہندووں اور انگریزوں نے اسے مسائل میں دھکیل دیا ۔آزادی
سے لیکر آج تک کچھ ان لوگوں کی پیدا کردہ مسائل اور کچھ ہمارے خود کا پیدا
کرنے والے مسائل ملک کی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑا رُکاوٹ بن چکا ہے۔سو
چنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ مسائل 67 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں ہیں؟؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے سیاستدانان صاحبان ایک دوسرے کو ماننے سے
انکار کرتے ہیں۔ جمہوریت مضبوط ہونے جارہا ہے تو سیاستدانوں کی اندر
اختلافات اور ایک دوسرے کو نہ ماننے کی وجہ سے ملک میں انتشار پیدا ہوجاتا
ہے ، جس کیلئے مُلک کوقابو کرنے کیلئے مارشل لاء لگ جاتا ہے۔کبھی اپنی نا
اہلی اور حکومت کیلئے بنگلہ دیش کی قربانی دینے سے بھی گُریز نہیں کرتے تو
کبھی میدانوں میں جیتی ہوئی لڑائی ایوانوں میں ہارنے پر شرم محسوس نہیں
کرتے۔اگر ایک پارٹی یا ایک حکمران ملک کو ترقی دینا چاہتا ہے تو دوسری
پارٹیاں اور اپوزیشن ان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور اُن کے خلاف
ملک میں انتشار پیدا کرنے کیلئے جلسے اور دھرنے منعقد کرتے ہیں۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ ہم عوام پارٹی بازی اور انتشار میں آگے ہیں لیکن ہمارے
سیاستدانان صاحبان اس عمل میں ہم سے بھی دس قدم آگے ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا
کہ اسے عوام اور ملک کی بدقسمتی سمجھو یا حکمرانوں کی نادانی ، کہ جو بھی
پارٹی قیادت میں آتی ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے منصوبے
شروع کرتی ہے تودوسری پارٹیاں اُسے ناکام بنانے کیلئے طرح طرح کے سیاسی
خربے استعما ل کرنا شروع کرتے ہیں۔دھماکہ ہوجاتا ہے تو حکومت پر طرح طرح کے
الزامات شروع ہوجاتے ہیں۔البتہ اس وقت تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ
اس وقت دھاکہ کے وجوہات معلوم کرنے اور سب سیاسی لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر اس
سے نمٹنے کے لئے سوچنا چاہیے۔ہمارے پیارے سیاستدانوں کو یہ بات کیوں سمجھ
نہیں آرہی کہ ملک کو ترقی دینے کیلئے صرف حکومت میں رہنے یااپوزیشن میں
رہنے سے نہیں بلکہ ایک عام سیاستدان کے طور پر بھی دیا جا سکتا ہے۔پھر کیوں
ہر کوئی کُرسی کی لالچ اور سوچ میں لگے رہتے ہیں اور ملکی ترقی کی راہ میں
رُکاوٹ بنے ہوتے ہیں؟؟یہ صرف آج کل کی بات نہیں ہے۔ روز اول سے لیکر
پاکستان کی سیاست میں یہ ایک بہت برُا رواج بن چکا ہے۔ جو باتیں پارلیمنٹ
میں آرام سے کیے جاسکتے ہیں وہ ہمارے سیاستدانان صاحبان آرام سے کرنا پسند
نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے آپکو عوام میں مقبولیت کیلئے جلسوں اور دھرنوں پر
اکتفا کرتے ہیں اور ہم عوام بھی ان جلسوں اور دھرنوں میں شرکت کرنا اپنا
فرض اول سمجھتے ہیں۔کیا قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتا تھا اور کیا ہم ہیں
اقبال کے شاہین؟؟؟؟
آج کل پاکستان ایک ایسے نازک دور سے گُزر رہا ہے کہ شائد اس سے پہلے کبھی
گزرا ہو۔کچھ عناصر فوج اور رائے ونڈ کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں تو کچھ لوگ ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں اور کچھ
لوگ ملک کو مڈ ٹرم انتخابات کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اﷲ کبھی بھی
ایسا نہ کرے کہ حالات ملک کو مڈ ٹرم انتخابات کی طرف لے جائے اور اگر خُدا
نخواستہ ایسا ہوا بھی تو پاکستان میں اتنے بخران پیدا ہو سکتاہے کہ شائد اس
سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہوا ہو۔مہنگائی پر کنٹرول لانا پھر کسی
کی بس میں نہ ہوگی اور اس کے بعد ملک میں ایسا نظام پیدا ہو سکتا ہے کہ کسی
بھی پارٹی ، قیادت میں انے والی پارٹی کو ایک سال کیلئے برداشت نہ کر سکے
گا اور ملک میں شائد 1971 جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔مڈ ٹرم انتخابات سے
نہ تو وزیر اعظم صاحب کو کوئی فرق پڑسکتا ہے، نہ عمران خان صاحب کو، نہ
زرداری اور نہ ہی شیخ رشید صاحب کو۔ اس سے صرف پاکستان اور خصوصا عوام کو
فرق پڑسکتا ہے اور اتنا فرق کہ کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔اس سے صاف
ظاہر ہے کہ جو لوگ پاکستان کی غریب عوام کا نعرہ لگاتے ہیں ، حقیقت میں وہی
لوگ عوام کو مصیبت میں ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں۔سیاسی لوگ جو چاہے کرتے ہیں
اور کرینگے لیکن ہم عوام کو یہ بات ذہین نشین ہونی چاہئے کہ ہمیں مڈ ٹرم
انتخابات کے نام سے بھی دور رہنا چاہئے اور اُن لوگوں کا ساتھ نہیں دینا
چاہئے جو اس وقت ملک کو اس نازک دور سے نکالنے کی بجائے اپنی کامیابی اور
اپنی کرسی کیلئے ایک ایسی حکومت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو عوام دوست
حکومت ہے۔حکمرانوں کواپنی ذات سے نکل کر ملک اور عوام کیلئے سوچنا چاہئے
تاکہ کل پھر سے ملک کا کوئی ٹکڑا بنگلہ دیش نہ بن جائے۔ |