منظور احمد بٹ۔ایک مخلص سماجی کا ر کن۔شخصی خاکہ

 ۹مارچ ۲۰۰۷ء جمعہ کا دن میں کالج جانے کی تیاری میں تھا ٹیلی فون کی گھنٹی بجی بیگم نے کہا کہ ممتاز زیدی صاحب کا فون ہے ۔ زیدی صاحب میرے بچپن سے جوانی تک کے ساتھی ، عمر میں فرق کے با وجود میرے دوست، کرم فرما اور محبت سے پیش آنے والوں میں سے ہیں۔ میرے گھر کا ہر فرد ممتاز زیدی صاحب سے اچھی طرح واقف اور متعارف ہے۔ سلام دعا ہوئی ، گھر کے تمام افراد کی خیریت دریافت کی ، چند ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد گویا ہوئے رئیس بھائی ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ منظور بٹ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ میں یہ جملہ سن کر سنا ٹے میں آگیا ۔ منظور بٹ صاحب ہمارے دیرینہ ساتھی ، دوست بلکہ گھر کے فرد کی طرح تھے۔ زیدی صاحب نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتا یا کہ مجھے ظفر صدیقی نے فون کرکے بتا یا ہے شاید رات کے کسی پہر دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ زیدی صاحب نے بتا یا کہ ابھی کوئی ایک ہفتہ قبل انہوں نے مجھے اور جمال صاحب کو بلا یا تھا اور ہم ان کے گھر گئے تھے تو وہ بالکل ٹھیک تھے کسی بھی قسم کی کوئی بات نہ تو انہوں نے کی اور نہ ہی ہمیں ان کی گفتگو یا ظاہری صحت کے حوالہ سے محسوس ہوئی۔ مختصر یہ کہ میں اور زیدی صاحب کافی دیر بٹ صاحب کے بارے میں گفتگو کرتے رہے ۔ خدا حافظ اس بات پر کیا کہ بٹ صاحب کے گھر ملاقات ہوگی۔

جمعہ کا دن تھا میں پہلے ہی کالج سے لیٹ ہوگیا تھا، کالج جانا بھی ضروری تھا کیوں کہ ہفتہ کو چہلم کی چھٹی آرہی تھی، اسی روز میرے بیٹے نبیل کا ایم بی بی ایس فائنل ائر کا دوسرا پرچہ بھی تھا۔ میں اپنے تمام بچوں کو امتحان والے روز امتحانی مرکزپر از خود چھوڑ کر آتا ہوں ، یہ میرا معمول رہا ہے، آج بھی مجھے ایسا ہی کرنا تھا ، کالج کے لیے روانہ ہوا، راستہ میں گاڑی چلاتے ہوئے ذہن منظوربٹ صاحب کے بارے میں سوچتا رہا،ان کے ساتھ گزرے طویل دور کی ایک ریل چلتی رہی۔ کالج پہنچنے تک میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے کالج سے براہِ راست بٹ صاحب کے گھر چلے جانا چاہیے، سو ایسا ہی کیا، کالج میں حاضری لگا کر میں سائٹ سے ہوتا ہوا بٹ صاحب کے گھر آگرہ تاج کالونی پہنچ گیا۔ بٹ صاحب کے بیٹے ’’گوگے‘‘سے ملا وہ مجھے سیدھا بٹ صاحب کے پاس لے گیا جو نہائے دھوئے ، سفید لباس میں ملبوس گہوارہ میں ابدی نیند سو رہے تھے۔شبانہ روز سماجی ، سیاسی اور جمہوری سر گرمیوں میں مصروف رہنے والا، سراپا حرکت اور سراپا فکر و عمل، سیماب صفت اور پیہم مضطرب و مضطر، جہاں گشت و جہاں گرد نہایت ہی اطمینان و سکون میں آچکا تھا۔ ان کے گرد دیگر خواتین کے علاوہ بھابی(بیگم منظور بٹ) اور ان کی بیٹیاں افسردہ ، غموں سے چور موجود تھیں۔بھابی نے مجھے دیکھا تو شدت غم سے گویا ہوئیں کہ’ رئیس تمہارے بٹ صاحب چلے گئے، انہیں دیکھ لو ‘میں نے خواتین کو راستہ دینے کا اشارہ کیا اور گہوارے کے بالکل نزدیک چہرے کی جانب ہو گیا ، کچھ دیر ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا،چہرہ متعُوب ، غموں اور فکروں سے آزاد ، ایسا لگا کہ کوئی مسافر طویل مسافت طے کر نے کے بعد آخر کار تھک کر سو گیا ہے اور یہ سوچ کر آنکھیں موند لی ہیں کہ اب بہت ہو چکا ،یہ آنکھیں ساری زندگی کھلی رہی تھیں ، یہ جسم ساری زندگی متحرک رہا تھا، بٹ صاحب کو رات کے کسی پہر بھی کسی نے مدد کے لیے پکارا توہر بات کی پروا کیے بغیروہ اس کے ساتھ ہو لیا کرتے ،لیکن آج یہ آنکھیں بند تھیں، جسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر متحرک ہو چکا تھا۔ چند منٹ میں اپنے دوست کو دیکھتا رہا لیکن اس کیفیت کو زیادہ دیر جاری رکھنا مشکل تھا ،بچیاں اپنے باپ کے گرد بیٹھیں بین کررہی تھیں، میں نے اپنے اندر اسقدر سکت بھی نہ پائی کہ انہیں تسلی دیتا، میں ان کے کرب کو محسوس کررہا تھا،ما ں یا باپ کی ہمیشہ کی جدائی ایک ایسا تکلیف دہ صدمہ ہوتا ہے جس کی کسک انسان تمام زندگی محسو س کرتا ہے۔ میں نے اپنے دوست کی پیشانی کا بوسہ لیا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ کر واپس ہو ا ۔
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرِ گ نا گہانی اور ہے

عزیز رشتہ دار، دوست احباب، سماجی اور سیاسی کارکن جوق در جوق چلے آرہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ایک بڑاہجوم بٹ صاحب کے سفر آخر میں شمولیت کے لیے پہنچ گیا۔جمعہ کی نماز کے بعد آگرہ تاج کالونی کے’’ دہلی پارک‘‘ جس کے قیام میں منظور بٹ صاحب نے رات دن صرف کیے تھے ان کی نماز جنازہ ہو نا تھی۔بٹ صاحب کے تمام دوست پہنچ چکے تھے ،لوگ ٹولیوں میں ادھر اُدھر کھڑے بٹ صاحب کے بارے میں ماضی کی یادوں کو تازہ کررہے تھے، ان میں سید جمال احمد، سید ممتازعلی زیدی، مغیث احمد صمدانی، سبطین رضوی، ظفر احمد صدیقی، شیث احمد صمدانی، بابواسماعیل، ارشاد قاضی، صادق حسین دور دراز سے پہنچنے والوں میں سے تھے یہ تمام بٹ صاحب کے تاج ویلفیٗر سینٹر کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک جانب بٹ صاحب کے بھانجے زاہد رفیق بٹ جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے لوگوں کے ہمراہ اپنا غم بانٹ رہے تھے۔ایک طرف شہنشاہ حسین اپنے پی پی کے دوستوں کے درمیان تھے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما سلیم ضیاء بھی موجود تھے جو اپنی جسامت کی وجہ سے نمایاں تھے ان کے ساتھ ان کی جماعت کے ساتھی بھی تھے ، امان اﷲ ، اور تاج الدین صدیقی بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ محوِ گفتگو تھے ۔مختلف سیاسی وسماجی شخصیات نے بھی تدفین میں شرکت کی ان میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر طارق رحیم، ممبر سندھ صوبائی اسمبلی ،سلیم ھنگورو، ناظم ہمایوں خان، شاہ میر خان، ماما یونس بلوچ، بابو اسماعیل، رانا اشفاق رسول، فاروق اعوان، اعجاز حسن، سعید اختر پرویز، مجیب الرحمٰن صدیقی، ملک رفیق اعوان، راجہ مشتاق ملک حیات، محمد انور نیازی شامل تھے ۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سید غوث علی شاہ نے منظور بٹ صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔

جمعہ کی نماز کا وقت قریب آگیا، تمام لوگ نماز کے لیے جانے لگے ، قریب میں موجود میرے دوست قاضی ارشاد نے کہا کہ میں تو تاج مسجد میں نماز ادا کروں گا، اس کے جواب میں ،میں نے بر جستہ کہا کہ تم اپنے باپ کی مسجد میں جاؤ میں اپنے باپ کی مسجد ’’حنفیہ جامع مسجد‘‘میں نماز پڑھوں گا، میرے اس جملہ پر قریب میں موجود لوگ محظُو ظ ہوئے، در اصل جب ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے تو قاضی ارشاد تاج مسجد کے سامنے رہا کرتے تھے اس وجہ سے ان کے والد اس مسجد میں نماز پڑھتے اور اس کے انتظامی امور میں شامل تھے جب کہ میرے گھر کے قریب حنفیہ جامع مسجد تھی ، اس مسجد کی تعمیر میں میں نے اپنے والد کو مزدوری کرتے ہوئے دیکھا، بعد میں وہ اس کے انتظامی معاملات میں شریک رہے، اس تعلق کے حوالے سے میں نے اُس وقت یہ کہا کہ میں اپنے باپ کی مسجد میں نماز ادا کروں گا، مجھے اس مسجد سے اس وجہ سے بھی زیادہ عقیدت اور محبت ہے کہ میرے والد مرحوم اس کی تعمیر میں شریک رہے تھے اور انہوں نے اس مسجد میں کئی برس نماز ادا کی۔ ہم آگرہ تاج کالونی سے دستگیر سو سائٹی منتقل ہوئے تو میرے والد صاحب یٰسین آباد کی مسجد قبا میں نماز ادا کرنے لگے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس مسجد میں اور ایک مخصوص جگہ یعنی اول صف میں امام صاحب کے انتہائی دائیں جانب وہ نماز ادا کیا کرتے تھے، وہ اذان ہوتے ہی مسجد چلے جایا کرتے اس وجہ سے انہیں اپنی مخصو ص جگہ ہی مل جایا کرتی ، اس مناسبت سے میں جب کبھی اس بستی میں جاتا ہوں تو میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس مسجد میں اور اس جگہ پر نماز ادا کروں جہا ں میرے والد صاحب مرحوم نے اپنی زندگی کے نا معلوم کتنے سجدے اد کیے۔ اس مسجد اور اس مخصوص جگہ سے مجھے ایک خاص عقیدت اور انسیت ہے مجھے وہاں سے اپنے والد مرحوم کی خوشبو آتی ہے۔ میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس جگہ کو بطور خاص بوسہ بھی دیتا ہوں جہاں پر میرے مرحوم والد سجدہ میں رہا کرتے تھے۔

منظور بٹ صاحب کا جنازہ آہوں اور سسکیوں میں دہلی گراؤنڈ لا یا گیا، دہلی گراؤنڈبٹ صاحب کے عقیدت مندوں، محبت کرنے والوں ، عزیز و اقارب اور دوستوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، نمازجنازہ کسی غیرمعروف امام نے ادا کی ، نماز پڑھا کر وہ امام صاحب تیز قدموں ، مجمع کو چیر تے ہوئے واپس لوٹتے دیکھے گئے،شا ید ان کے عقائد میں نماز جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں۔ مولانا غلام دستگیر افغا نی جو حنفیہ جامعہ مسجد کے پیش امام اور منظور بٹ صاحب کے دوستوں میں سے تھے نمازجنازہ تو نہ پڑھا سکے البتہ نماز کے بعد انہوں نے دعا کرائی، ہر آنکھ نم تھی، سارے دل افسر دہ تھے، سب لوگ بٹ صاحب سے اپنے تعلق کے حوالے سے محو گفتگو تھے، لوگ ان کی اچھائیوں کو بیان کررہے تھے۔بلا تفریق ہر ایک کے دکھ درد میں کام آنے والا، غریبوں کا ہمدرد، علاقے کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے جس نے اپنی زندگی وقف کردی، اپنے چاہنے والوں، ہمدردوں، عزیزوں ، رشتہ داروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے ابدی سفر کی جانب روانہ ہو چکا تھا۔کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں پر مشتمل قافلہ شیر شاہ قبرستان پہنچا جہاں بٹ صاحب کی آخری آرام گا ہ ان کے انتظار میں اپنا دامن واہ کیے ہوئے تھی۔ مرحوم کو اپنے جواں سال بیٹے مسعواحمد بٹ عرف پپو کی قبر کے برابر ہی جگہ ملی ان کا یہ بیٹا جوانی میں ایک حادثہ میں جاں بہ حق ہو گیا تھا۔ وہ جو زندگی میں کسی کا احسان اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا تھا دوش احباب پر سوار بہ مجبوری اﷲ کے گھر پہنچ گیا۔

شہر خموشاں میں جسد خاکی کو لحد میں اتارنے کی تیاریاں ہورہی تھیں لوگ دور دور تک ادھر اُدہر قبروں کے درمیان ٹولیوں میں محوِ گفتگو تھے۔ میں بھی افسردہ ایک قبر کی اونچی سی دیوار پر ٹیک لگائے اپنے محلہ ، پڑوس ، رشتہ دار، دوست، احباب، جانے انجانے جو اس قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان تمام احباب کی قبریں ایک ایک کرکے میری نظروں کے سامنے آرہی تھیں جن کے سفر آخرت میں میں شریک رہا تھا ، ان میں میرے حقیقی دادا جناب حقیق احمد مرحوم (بارشوں اور سیلاب نے ان کی قبر کا نشان ہی مٹا دیا)، حنیف احمد صمدانی ، حمیرہ صمدانی(میرے حقیقی عم جناب مغیث احمد صمدانی کی شریک حیات)، خادم الا انبیاء سبزواری(میرے والد صاحب کے ماموں) اور میرا دوست محمد وسیم جو عین جوانی میں موٹر سائیکل کے حادثہ میں جاں بحق ہوگیا تھا، ان احباب کے قبریں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، جمیلہ خاتون(والدہ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری)، سید امام، والدہ اور ہمشیرہ سید امام، شعیب صمدانی، والدہ شعیب صمدانی کے علاوہ ننھی معصوم سی بھانجی (ناہید کی بیٹی)، جلیس چچا مر حوم کا ننھا سا بیٹا ، فیاض صاحب، عثمان اور دیگر دوست احباب ، پڑوسی جو اس قبرستان میں مدفون ہیں سب کی مغفرت کی دعا کررہا تھا کہ اچانک سامنے والی قبر پر نظر گئی جس کے کتبے کو پڑھ کر میں اپنے ماضی میں کھو گیا،لکھا تھا’’ عبد الستار عرف ملو ولد کلو، عمر ۹۰ برس آگرہ تاج کالونی‘‘، یہ اس دودھ والے کی قبر تھی جس کے دودھ کے باڑے سے ہم ایک طویل عرصہ تک دودھ لاتے رہے تھے، آگرہ تاج کالونی میں ملو کا باڑہ بہت مشہور تھا، میں نے اپنے دوستوں ظفر ، سبطین اور جمال صاحب جو میرے قریب ہی موجود تھے متوجہ کیا اور پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟ انہوں نے بھی کتبہ پڑھا اور کہا کہ یہ تو ملو دودھ والے کی قبر ہے۔اب ہم سب اپنے ماضی کی یادوں میں چلے گئے، ملو کا باڑہ، حاجی مراد راشن شاپ والے جہاں سے ہم راشن لایا کرتے تھے( اس زمانے میں راشن کارڈ کا نظام رائج تھا) ، بلدیہ کا لگا ہوا پانی کا وہ نل جہاں سے ہم’بہنگی‘ (ایک بانس یا ڈنڈا جس کے دونوں طرف پانی کے ڈول اٹھا نے کے لیے رسیاں بندھی ہوتی ہیں)کے ذریعہ پانی لایا کرتے تھے، حاجی کی لکڑی کی وہ ٹال جہاں سے ہم لکڑیاں لایا کرتے تھے،کبیر صاحب اور فیروز صاحب کی پرچون کی دکانیں، قدیر خان کی کرائے کی سا ئیکلوں کی دکان جہاں سے ہم کرائے پر سائیکل لے کر گھر والوں کو بتا ئے بغیر خوب گھوما کرتے تھے اورشیخ صاحب بڑے گوشت کی دکان والے المختصر یہ کہ قبرستان کی اس غم ناک فضاء میں ہم سب اپنے بچپن کی یادوں کوتازہ کرتے رہے اور پھر دکھی دل کے ساتھ بٹ صاحب کا جسد خاکی لحد میں اتار دیاگیا ، فاتحہ ہوئی اور ہم اپنے ایک دیرینہ دوست کو اپنے ہاتھوں مٹی کے سپرد کرکے واپس ہوئے ۔
کہتے ہیں آج ذوقؔ جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا ‘ خدا مغفرت کرے

مجھے یاد نہیں آتا کہ میں منظور بٹ صاحب سے پہلی بار کب ملا تھا لیکن ماضی کی یادوں میں ادھر اُ دھر ہاتھ مارتا ہوا قدم بڑ ھا تا ہوں تو یاد آتا ہے کہ میں نے بٹ صاحب کوکشمیرکے ایک حسین نوجوان کے روپ میں دیکھا تھا جس نے تازہ تازہ شیو بنا نا شروع کی تھی،اس نوجوان کو باڈی بلڈنگ کا شوق تھا، لمبا قد ،دبلا پتلا ،گورا رنگ، گھنی بھنویں،روشن پیشانی ،کتا بی چہرہ پر وجاہت اور شرافت،آنکھو ں میں چمک،لہجہ میں معصو میت اور معمولی سی لکنت،چہرے مہرے اور وضع قطع سے کشمیر کا حسن نما یاں تھا، ابتدا میں پینٹ اور شرٹ بعد میں پینٹ اور بوشرٹ پہنا کرتے تھے ،گھر میں ڈھیلے پائینچے کا پیجامہ (پتلون نما ) اور اس کے اوپر اسی رنگ کا بوشرٹ ان کا خاص لباس تھا ، وضع دارانسان تھے۔ ان دنوں میں کالج میں پڑھا کرتا تھااور اپنے محلے کے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی شریک رہا کرتا۔ ان میں سے اکثر مجھ سے عمرمیں بڑے بھی تھے،ان نوجوانوں نے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سماجی ادارہ ’’تاج ویلفیئر سینٹر‘‘ ۱۹۶۰ء میں قائم کیا تھا، جہاں اہل محلہ چھو ٹے بڑے کھیل کودکے علاوہ فلاحی کاموں میں مصروف رہا کرتے ۔ بہت ہی اچھا ماحول تھا، بڑے اپنے چھوٹوں کا حد درجہ خیال کیا کرتے ، چھوٹے اپنے بڑوں کے احترام کے ساتھ ان کے شریک رہا کرتے، گویا چھوٹوں کے لیے یہ ایک تر بیت گا ہ تھی۔در حقیقت میں نے اس ماحول سے بہت کچھ سیکھا، محفل میں گفتگو کرنا، مجمع کے سامنے اسٹیج پر تقریر کرنے کا حوصلہ مجھ میں اسی دور میں پیدا ہوا۔ میر ا بچپن اور جوانی اسی جگہ گزری، میں نے اسی علاقے کے اسکولوں پہلے قومی انجمن پرائمری اسکول بعدہ غازی محمد بن قاسم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،ایس ایم کالج سے انٹر، عبدا ﷲ ہارون کالج سے بی اے کیا، بعد ازاں اسی کالج میں ۲۳سال ملازمت کی۔ اس ماحول سے میں تہذیبی اور تمدنی زندگی کی اعلیٰ قدروں سے واقف ہوا، یہی وجہ ہے کہ لڑکپن کے یہ تہذیبی نقوش میرے ذہن و دل پر آج بھی مرُ تسم ہیں۔

تاج ویلفئر سینٹر ایک ایسا فلاحی ادارہ تھا جس نے اپنے اراکین میں خدمت خلق کا مثالی جذبہ پیدا کردیا تھا، مختلف سیاسی نظریات کے حامل،مختلف زبانیں بولنے والے،مختلف قومیتوں سے تعلق اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے کے با وجود اس ادارے سے منسلک لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خاندان کا فرد تصور کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد خوشی یا غمی میں عزیز رشتہ داروں سے بڑھ کر شریک رہا کرتے۔خلوص، محبت، ہمدردی،با ہمی شفقت، اخوت، بھائی چارہ کے اس ماحول کو کبھی بھلا یا نہیں جاسکتا۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی وہ ماحول زندگی میں دوبارہ نہیں مل سکا ۔ منظور احمد بٹ نے بھی اسی ماحول سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، ان کی فلاحی کاموں کی تر بیت اسی ماحول میں ہوئی جس نے انہیں
ایک مخلص ، بے لوث اور کبھی نہ تھکنے والا سماجی کارکن بنا دیا۔ اس شخص کو شب و روز لوگوں کی خدمت کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہ تھا۔

تاج و یلفئر سینٹر کے ہر سال انتخابات ہوا کرتے تھے جس میں عہدیداران کا انتخاب عمل میں آتا، ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں منظور احمد بٹ صاحب صدر اور میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوا،اس سے قبل ان عہدوں پر جناب مظہر الحق ،انیس فاروقی، سید ممتاز علی زیدی، سید جمال احمد، شیش احمد صمدانی اور دیگر احباب خدمات انجام دے چکے تھے۔ بٹ صاحب سے میری قریبی دوستی کا یہ نقطہ آ غاز تھا۔ نائب صدور سید ممتاز علی زیدی اور سید جمال احمد، جوائنٹ سیکریٹری ظفر احمد صدیقی، سو شل سیکریڑی سید سبطین رضوی، تعلیمی سیکریٹر ی ابرار حسین، اسپورٹس سیکریٹری جلیس احمد، ہیلتھ سیکریٹری سراج الحق، آفس سیکریٹری محمد اقبال اور خازن سید اختر حسین شاہ منتخب ہوئے تھے ۔ اس ادارے کی تاریخ میں پہلی بار سینئر اور جونیئر ایک ساتھ عہدیدار منتخب ہوئے، جس کا بنیادی مقصد اپنے چھوٹوں کی تر بیت اور انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنا تھا۔

منظور بٹ صاحب کی زبان میں لکنت تھی اور وہ جملے کی ادائیگی کے درمیان کسی کسی وقت اٹک جا یا کرتے تھے،اسی لیے وہ تقریر کرنے سے بھی گریز کیا کرتے تھے۔ نئی مجلس منتظمہ کی تقریب حلف بر داری منعقد ہوئی۔ الیکشن چیئر مین کے فرائض محمد اشرف چودھری نے انجام دئے تھے ، تقریب میں وہ نو منتخب صدر سے حلف لے رہے تھے۔ منظور بٹ صاحب نے ہکلاتے ہوئے حلف نامہ پڑھناشروع کیا ’’میں منظور احمد بٹ ولد۔۔اﷲ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ میں ۔۔وغیرہ وغیرہ) خالی جگہ انہیں اپنے والد صاحب کا نام لیناتھا ، انہوں نے حلف نامہ پڑھنا شرع کیا اور اپنے نام کے بعد اپنے والد کا نام ’’اﷲ دتہ‘‘ لینے کے بجائے انہوں نے کہا ’’ میں منظور احمد بٹ ولد اﷲ تعالیٰ ۔۔ ‘‘ جب انہوں نے یہ جملہ ادا کیا تو تقریب میں موجود تمام لوگ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، زور دارقہقہ لگا ،بٹ صاحب کی یہ بات ہمیشہ انہیں یاد دلائی جاتی تھی، وہ بھی اس پر ہنس دیا کرتے۔

منظوربٹ صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، ایک طویل عرصہ بٹ صاحب کے ساتھ گزرا،شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو گا جب کہ ہم دوست آپس میں نہ ملا کرتے ہوں۔ہمدرد ، در گزر کرنے والے، انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا، غریبوں کی خاموشی سے مددکرنے والے، دوستوں پرپیسہ خرچ کرکے بھول جانے والوں میں سے تھے۔مالی طور پر خوش حال تھے، اﷲ نے آپ کو خوب دولت دی تھی انہوں نے اسے فیاضی کے ساتھ خرچ بھی کیا۔خرچ کرکے کبھی زبان پر نہیں لائے، الیکٹرک کنٹریکٹر تھے، روزنامہ جنگ کی تقریباً تمام عمارتوں کی الیکٹریفیکیشن انہوں نے ہی کی تھی ، طارق روڈ پر طارق سینٹر کی وائرنگ، حسین ڈی سلوا اور کئی بڑی عمارتوں کی وائرنگ انہوں نے کی تھی۔ وہ کراچی کے بڑے ٹھیکیداروں میں سے تھے۔سادگی کا یہ عالم کہ پوری زندگی ویسپا اسکوٹر پر گزاردی، حالانکہ وہ کار ہی نہیں بلکہ پجیرو بھی رکھ سکتے تھے، میں اکثر اپنے دوستوں سے کہا کر تا کہ اگر آ پ کو بٹ صاحب سے ملاقات کرنی ہے تو کراچی کے کسی بھی راؤنڈ اباؤٹ پر کھڑے ہوجائیں بٹ صاحب اپنی ویسپا پر کم از کم ایک بار وہاں سے ضرور گزریں گے۔

منظور بٹ پیدائشی مسلم لیگی تھے۔ ہارون برادران (یوسف ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون) ان کے سیاسی لیڈر تھے۔ وہ ان سے بہت زیادہ متا ثر تھے۔ جب تک یہ احباب محمود ہارون اور سعید ہارون حیات تھے بٹ صاحب کے سیاسی معاملات انہیں کے زیر عصر رہے۔وہ مرتے دم تک مسلم لیگی رہے لیکن ان کے دیگر سیاسی جما عتوں کے کارکنوں کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم تھے۔ وہ۱۹۸۸ء میں علاقے کے ’’کونسلر‘‘ بھی منتخب ہوئے اور علاقے کے بے شمار دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے، دہلی پارک جس میں ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی مرحوم کی عملی کاوشوں کا ہی ثمر ہے۔ اس پارک کے افتتاح (۱۹۷۹ء) پر انہوں نے ایک سوو ینئر بعنوان ’’حلقہ نمبر ۱، بلدیہ دور کی دو سالہ کارکردگی ‘‘بھی شائع کیا جو ان کی عوامی خدمات کی دستاویز ہے۔تاج ویلفیئر سینٹر کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے اس ادارے کی ترقی کے لیے جو کوششیں کیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں لیکن افسوس وہ اس ادارے کی عمارت اپنی زندگی میں تعمیر نہ کراسکے۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے کسی ٹھیکیدار کے ہاتھوں کوئی معاہدہ کرلیا تھا جس کے مطابق وہ ٹھیکیدار اس جگہ عمارت تعمیر کرے گا اور زمینی منزل اس ادارے کو دیدیگا۔ افسوس وہ اس ادارے کی عمارت کی تعمیر سے قبل ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے۔

تاج ویلفیر سینٹر کے عہدیداران اور بٹ صاحب کے دوستوں کا ایک تعزیتی اجلاس جناب محمد اشرف چودھری (ایڈوو کیٹ) کی رہائش گاہ واقع گلشن اقبال میں منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں احباب نے شرکت کی۔ شریک دوستوں نے بٹ صاحب سے تعلق اور تاج ویلفیئر سینٹر میں گزرے دنوں کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان میں سید ممتاز علی زیدی، سید جمال احمد، سید حیدر رضاء، مغیث احمد صمدانی،چودھری محمد اشرف ، شیش احمد صمدانی ، سبطین رضوی، ظفر احمد صدیقی، احمد حسین، محمد صادق، قاضی محمد ارشاد، شکیل احمداور راقم الحروف شامل تھا۔اجلاس میں بٹ صاحب مرحوم کی ان خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا جو انہوں نے ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے انجام دیں۔

کوئی بھی انسان خامیوں سے مبر ا نہیں ہوتا، منظور بٹ میں بھی خامیاں اور بعض کمزوریاں تھیں ۔ ان کے دوست ان کی بعض باتوں سے اختلاف کیا کرتے اور بر ملا ان باتوں کا اظہار بھی ان سے کیا کرتے تھے وہ ان باتوں کو ہنس کر ٹال جاتے اور ایک خاص جملہ ’’کوئی نہ، کوئی نہ‘‘ کہہ کر خاموش کرا دیا کرتے۔اب وہ اچھی جگہ ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔آمین !
وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی نہ جانے ان کو کس طرف
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘میں شامل )

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284759 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More