کچھ ٹوٹے ہنسنے کے لیے

بڑے کالم نگاروں کے پاس جب لکھنے کو کچھ نہ ہو تو اپنے پرانے کالموں کے حوالے دیکر کالمز کا پیٹ بھر تے ہیں یا پھر ایویں ہی ادھر ادھر کی باتیں ۔مثلا: مرحوم ارشاد احمد حقانی صاحب کے اکثر کالمز انکے اپنے پرانے کالمز کے حوالہ جات سے پرہوتے تھے۔ استادِ محترم عطا ء الحق قاسمی صاحب بھی بار بار وزیر آباد کے اور تاروں بھری رات میں چھت پر سونے کے قصے چھیڑ بیٹھتے ہیں۔ جاوید چوہدری صاحب بھی لکھتے لکھتے بہاولپور پہنچ جاتے ہیں۔ منو بھائی ادب لکھتے لکھتے میک اپ اور گنجے پن کی ادویات پر کتنی تحقیق ہورہی ہے، اسپر لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ حسن نثار صاحب یا تو فیصل آباد پہنچ جاتے ہیں، یا مشکل سے محاورے لکھنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر کسی مشکل اور خشک سی کتاب کو قسط وار شائع کرنے شروع کردیتے ہیں۔ آجکل پھر گندی سڑک کی وجہ سے میاں صاحبان سے ناراض ہانسی حویلی، بیلی پور سے کہیں دور۔ عبدالقادر حسن صاحب وادی سون پہنچ جاتے ہیں اور ہارون رشید صاحب اور رؤف کلاسرا صاحب پنجاب اور وفاقی گورنمنٹ کی نااہلی کے پرانے یا نئے قصے تلاش کر کے لتے لے رہے ہوتے ہیں۔ ۔ اصل میں جب کوئی موضوع نہ ہو تو لوگ ساہی کڈھنے کے لیے یہ سب کر رہے ہوتے ہیں۔ نا چیز تو ان تمام اساتذہ کرام کی پاؤں کی دھول بھی نہیں پر انکی دیکھا دیکھی کچھ ادھر ادھر کے ٹوٹے پڑھیں اور ملاکر دیکھیں کہ کیا بنتا ہے؟

کچھ نہیں:
صبح اٹھو تو بجلی نہیں، نہانے کے لیے پانی نہیں، کپڑے استری کے لیے بجلی نہیں، کھانا بنانے کو گیس نہیں، کام پر جانے کو ٹرانسپورٹ نہیں، ٹرانسپورٹ مل گئی تو بیٹھنے کو جگہ نہیں، بازار جاؤ تومہنگائی کی وجہ سے قوت خرید نہیں، تعلیم ہے تو روزگار نہیں، دہشت گردی ہے علاج نہیں، ملک تو ہے مخلص قیادت نہیں، تعلیم ہے معیار نہیں، ایک دوسرے میں قوتِ برداشت نہیں، مساجد ہیں نمازی نہیں، قرآن ہے عمل نہیں، زبان ہے تاثیر نہیں، بڑے تو ہیں پر انکا ادب نہیں، بیماریاں ہیں علاج نہیں، خواہش ہے خریدنے کی پر جیب میں مال نہیں،دوسروں کو نصیحت پر خود عمل نہیں۔ بیوی تو ہے پر پیار نہیں۔ اولاد توہے پر اسکی طرف سے سکون نہیں۔ساس بہو اکٹھی پر پیار محبت نہیں،دوسروں کو نصیحت پر خود عمل نہیں، ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کب ختم ہو گی یہ نہیں؟؟

لارا لپا:
ہمیں روز مرہ کی زندگی میں اتنے لارے لپوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ اصولی بندے کو تو زندگی گزارنا ہی مشکل ہو جائے۔ مثلا: وین والا روز لارا لگاتا ہے کہ ٹائم پر آؤنگا، پر نہیں آتا۔ چکی والے نے لارا لگایا کہ آٹا شام پانچ بجے اٹھا لینا، پرملا اگلے روز پانچ بجے۔ درزی کا لارا کہ کپڑے پندرہ مئی کو لے لینا، پر دیے جون کی پندرہ کو۔کسی کوا دھار دیا تو وہ آج کل کا لارا لپا دیتے مہینوں گزار دیتا ہے۔مستری سے کام کراؤ تو لارا کہ دس دن میں کام ختم ہو جائیگا پر مہینہ بعد اسے ہاتھ سے پکڑ کر گھر سے نکالنا پڑتا ہے۔ کاروبار کے لیے کسی کو رقم دو تو منافع تو در کنار اصل رقم کے واپسی کے لیے بھی سالوں لارا لپا چلتا ہے۔ کسی کو کتاب ادھار دے دی تو روز لوٹانے کا لارا ، مہینہ بعد واپسی ہوتی ہے۔ کسی لوہار سے کوئی کام پڑگیا تو صبح شام کے لارے میں ہفتوں نکال دیتا ہے۔رکشہ ٹیکسی بلا لو تو ابھی آیا کا لارا لگا کر گھنٹوں بعد وارد ہو تا ہے۔ ویگن یا بس والے کو بلایا تو وہ بھی لارا لپا لگا کر گھنٹوں بعد آتا ہے۔ اسی طرح دودھ والے کو لاکھ سمجھائیں کہ پانی نہ ملایا کرو، ہر روز لارا دیگا نہ کا، پر عمل نہیں کریگا۔ اخبار و الے کاروز ٹائم پر آنے کا لارا، پر آئیگا نہیں۔ کرایہ دار سے کر ایہ اگاڑنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ کئی لوگ تو ادھار لیکر دینے کا لارا لگاتے لگاتے اصل رقم دینے سے ہی مکر جاتے ہیں۔اسی طرح کہیں دعوت میں جانا ہوتو بیگم کا لارا کہ ابھی آئی۔ بچوں کا لارا کہ ابھی آئے پر ہر جگہ، ہر دن ہمیشہ لیٹ۔ اسی طرح باس کا لارا کہ اگلے سال ترقی دلاؤنگا، سالوں گزر جاتے ہیں۔ڈاکٹر کا لارا کہ ٹھیک ہو جاؤگے، پر سالوں دوائیاں شکم میں اتارنے پر بھی بیماری نہیں جاتی۔ٹیچر کا لارا کہ پاس کرا دونگا۔ الیکٹریشن کا لارا کہ ابھی آیا پھر گھنٹوں بھی وارد نہیں ہوتا۔ بیوی کا لارا کہ روٹی ٹائم پر دونگی ، بچوں کو ٹائم پر اسکول کے لیے تیار کرونگی، پر یہ لارا قبر تک لارا ہی رہتا ہے۔ برائے مہربانی اس لارا کو ویسٹ انڈین کرکٹر برائن لارا والا لارا مت سمجھئے گا!

اسی طرح سیاستدانوں کے آئے روز کے لارے کہ نیا پاکستان بنائیں گے، معاشی طور پر مستحکم کریں گے، غربت ختم کریں گے، روٹی کپڑا اور مکان دیں گے، دودھ شہد کی نہریں بہائیں گے، دہشت گردی ، بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ ختم کریں گے، پر یہ لارے ، لارے ہی ہیں پاکستان بننے سے اب تلک! اسی طرح کسی کا نوکری کا لارا۔ ٹیسٹ کے بعد انٹرویو کا لارا، پھر جائننگ کا لارا۔ بس والے کا بس ٹائم پر چلانے کا لارا۔ پارسل کھانے کا آرڈر دیکر اسکے انتظار کا لارا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم دبئی میں تھے تو ایک بندہ ویزا لگا پاسپورٹ لیکر غائب ہو گیا۔ باس نے ہماری ڈیوٹی لگا ئی کہ اسے پاسپورٹ سمیت حاضر کرو۔ کسی طرح سے اس بندے سے رابطہ تو ہوگیاپر اس نے پاسپورٹ دینے میں اتنے لارے لگا ئے اور اتنے جھوٹ بولے کہ الامان الحفیظ۔ صبح کہتا کہ شام کو دونگا، شام کو کہتا کہ صبح دونگا اسی لارے میں اسنے مہینہ نکال دیا پر پاسپورٹ پھر بھی نہ دیا آخر کار شاید شرطوں کی مدد لینی پڑی تھی۔

بیگمات کیا سوچتی ہیں
اگر جوائنٹ فیملی سسٹم میں ساس ، سسر، نند، بھاوج، دیور، جیٹھ ساتھ رہتے ہو ں : توموصوفہ کو انکا ساتھ رہنا بلکل گوارا نہیں ہوتا۔ اسکی دعا ہوتی ہے کہ ساس سسر مر جائیں، باقی لوگ گھر سے بھاگ جائیں ورنہ تو آئے روز جھگڑا کہ میں تو صرف آپکے لیے آئی تھی، میں ان درجن بھر لوگوں کا کام کیوں کروں ۔مزید یہ سوچے گی کہ میرا میاں اپنے ماں باپ کا زیادہ خیال رکھتا ہے، سسرال والوں کونہیں پوچھتا۔ چونکہ عورت فطرتا ہوتی ہی شکی مزاج ہے توہر وقت یہ سوچتی ہے کہ میرے گھر والے آتے ہیں تویہ صرف چائے پر ٹرخاتے ہیں، پر اپنے گھر والوں کو چائے کے ساتھ سموسے اور مٹھائی نئے ماربل کے ڈنر سیٹ میں دیتے ہیں ۔ میرے گھر والے آئیں تو دال کھلاتے ہو، اپنوں کو مرغ روسٹ۔ حالآنکہ آپ خود سوچیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟مزید یہ سوچے گی کہ کاش! میرا میاں ساری کمائی لاکر میرے ہاتھ پر رکھے۔ جہاں آئے جائے میری مرضی سے جائے آئے۔ لینا دینا میری مرضی سے ہو۔ بچے میری مرضی سے پڑھیں لکھیں۔ بچوں کی شادیاں میرے مرضی سے ہوں۔سارا خرچہ میرے ہاتھ میں ہو۔ اپنی مرضی سے ہر جگہ آؤں جاؤں ، کو ئی روک رکاوٹ نہ ہو۔اور یہ کہ: میرے میاں میری ٹانگیں اور سر دابے، کھانا بنائے، برتن دھوئے، بچوں کونہلائے دہلائے، اسکول کے لیے تیار کرے۔ ایک آواز پر دوڑا چلا آوے۔ باہر گھمانے لے جائے ، ہر ہفتے باہر کھانا کھلاوے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

ٹینشن:
بھانجا، بھتیجا ، بیٹا، بیٹی، بیوی بیمار تو ٹینشن۔ دفتر کے مسائل ، باس ناراض تو ٹینشن۔ بیگم کا موڈ خراب تو ٹینشن۔ کرایہ دار نے کرایہ نہیں دیا ٹینشن۔ مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ، ٹینشن ۔ بیماری کی ٹینشن۔ کسی ساتھی کی دی گئی ٹینشن ۔ دفتر کی گاڑی ٹائم پر نہیں آئی، ٹینشن۔ کولیسٹرول زیادہ ہوگیا، بلڈ پریشر بڑھ گیا، شوگر تیز ہو گئی، دل کو جھٹکا لگ گیا تو ٹینشن۔ شادی کا خرچہ اچانک آگیا ، ٹینشن۔ ، بیگم کی اچانک کچھ نئی فرمائش، ٹینشن۔ اسکول والوں نے تین ماہ کی فیس ایڈوانس مانگ لی ٹینشن۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ کب ختم ہو گی یہ ٹینشن۔؟؟

کچھ نئی خبریں
وینا ملک عمرہ کر آئیں اور شوبز کو خیر باد کہنے کا اعلان؟َوینا ملک نے نام بدل لیا، اب وینا خٹک ہو گئیں۔وینا ملک ایم اے اسلامیات کرنے کا سوچ رہی ہیں۔وینا ملک کی وجہ سے جیو چینل بند ہو گیا!میرا بیچاری دکھوں کی ماری کا ایک اور اسکینڈل: کہ ہوٹل کی لانڈری کا بل نہیں دیا ، ہوٹل والوں نے کیس کرنے کی دھمکی لگادی۔میرا کو ہسپتال کے لیے پلاٹ مل گیا۔ اور۔۔۔۔۔ میرا کا سسرال میں پھر پھڈا۔اداکارہ ثنا کے شوہر ا سکا موبائل چیک کر تے ہیں۔آلو اسی روپے کلو ہو گیا۔کیلا دوسو چالیس روپے کے بارہ۔انجلینا جولی اب ہدایتکاری کریں گی۔دلیپ کمار کی کتاب شائع ہوگئی۔اور یہ کہ فٹ بال ورلڈ کپ شروع ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ تو لہذا ملتے ہیں فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد! انشاء اﷲ۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 232423 views self motivated, self made persons.. View More