ہندوستان میں مسلم اکثریتی آبادی
والے علاقوں بالخصوص مسلم علاقوں کو عام طور پر"چھوٹا پاکستان"کہا جاتا ہے
۔ گذشتہ دنوں پہلی مرتبہ کسی سرکاری کاغذ پر یہ اصطلاح شائع ہوئی۔
مہاراشٹرا کے ریاستی الیکڑک بورڈ (ایم ایس ای بی) کیجانب سے شائع کئے گئے
بجلی بلوں پر ضلع تھانہ میں نالہ سوپارا کے سنتوش بھوان علاقہ کو"چھوٹا
پاکستان"کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ۔اس"سنگین غلطی"پر ریاستی اقلیتی کمیشن
نے بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے۔ ریاستی اقلیتی کمیشن کے
چیئرمین مناف حکیم نے ایم ایس ای بی کے سربراہ کوموسومہ ایک مکتوب میں کہا
کہ"یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس کے بارے میں تحقیقات کراوئیے اور اپنے
تحقیقاتی نتائج سے کمیشن کوواقف کروائیے"۔مکتوب میں مزید کہا گیا"ہمیں
بتایا جائے کہ اس علاقہ کو"چھوٹا پاکستان"قرار دینے کی ہدایت کس عہدیدار
کیجانب سے دی گئی۔"پہلی مرتبہ کسی سرکاری کاغذ پر یہ اصطلاح کا ریاستی
اقلیتی کمیشن نے ایم ایس ای بی سے سختی کیساتھ وضاحت طلب کی ہے۔نظم و نسق
کی لاپرواہی کے اس ایک حیران کن واقعہ میں نالہ پور سوپاڑہ میں سنتوش بھوان
علاقہ کے رہنے والوں کو ایسے بجلی کے بل موصول رہے ہیں جن میں ان کے رہائشی
پتہ کے مقام پر محلہ کا نام "چھوٹا پاکستان"چھپا ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ
مہارشٹر ریاستی الکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن کمپنی لمٹیڈ کیجانب سے گذشتہ کم از کم
14ماہ سے اس طرح کے بلس بھیجے جا رہے ہیں ۔ ایم ایس ای بی نے کہا ہے کہ وہ
اس غلطی سے واقف نہیں ہے اور اس غلطی کا انکشاف اسوقت ہوا جب آدھا ریکارڈس
کی درخواستوں کے ساتھ رہائشی پتہ کی تصدیق کے لئے بجلی کے بل قبول کئے
جارہے تھے۔مقامی افراد نے آدھار فارمس کے ساتھ ان بلوں کو منسلک کیا جس کے
بعد یہ معاملہ بے نقاب ہوا۔ یہ صورتحال صرف اس وجہ سے ہے کہ ہندوستان کے
بٹورے کا مقصد دو قومی نظریہ کی بنیاد تھا کہ جہاں مسلم اکثریتی علاقے
ہونگے وہاں پاکستان بنا دیا جائے۔ اس لئے بھارت میں مسلم اکثریتی علاقوں کے
لئے" چھوٹا پاکستان" کا نام توہین آمیز طریقے سے لیا جاتا ہے۔اور متحدہ
پاکستان میں بٹوارے کا احسا س بھارتیوں کے دل و دماغ سے محو نہیں ہوسکا ہے۔
پاکستان کیجانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے حکومت کی ترجیحات
کو پاکستان میں بھارت مخالف حلقے اسی وجہ سے بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ
ترین ملک قرار دینے پر شدید اعتراض کر رہے ہیں ۔ لیکنبد قسمتی یہ صورتحال
مسلمانوں کیساتھ صرف بھارت میں نہیں بلکہ پورا یورپ اور امریکہ اس وقت "اسلاموفوبیا"اور
صلیبی جنوگوں کے ایوانجلسٹ نعروں سے گونج رہا ہے۔ اور ان کے غلام اپنے
آقاؤں کی ہاں میں ہاں کے سو اور کیا کرسکتے ہیں۔بھارت کے" ان تواری "اور"
ابھی مینو شیتو لے" کی مسلم دشمن ، اسلام دشمن رپورٹوں اور ڈنمارک کے توہین
رسالت کارٹونوں ،ہالینڈ کے ممبر پارلیمنٹ "گیرٹ ورلڈرز" اور امریکہ کے
ایوانجلسٹ پادریوں" جیری فالویل" اور "ٹیری جونس "کے بیانات میں کوئی فرق
نہیں ہے۔"انل تواری"، آروی بھسین اور" ابھی مینو" تو اسلام دشمنی کے گندے
تالاب کی محض چھوٹیمچھلیاں ہیں ۔ بال ٹھاکرے اور دیورس کو ماضی میں اور
نریندر مودی اور یوگی آدتیہ کو حال میں بھارت میں فرقہ وارانہ سکون اور
یکجہتی کو غارت کرتے رہنے کی پوری آزادی حاصل تھی اور ہے۔بھارت میں اکثریتی
مسلم علاقوں کو توہین آمیز انداز میں "چھوٹا پاکستان"کہنا اور سرکاری
دستاویز تک میں لکھے جاناایسی ذہینت کی عکاسی کرتا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک
تازہ رپورٹ کیمطابق 2050تک دنیا کی آبادی نو ارب بیس کروڑ ہوجانے کی توقع
ہے۔اگلے 37برسوں میں دنیا کی آبادی میں مزید ڈھائی ارب نفوس کا اضافہ متوقع
ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے کچھ ہی کم ہے۔مغرب کی پریشانی کا سبب
یہ ہے کہ یورپ ،امریکہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں تو شرح پیدائش
گھٹتی جارہی ہے لیکن ایشا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بڑھ رہی ہے۔اس
میں مسلمانوں کی تعداد میں رفتار دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس کے دو اسباب
بتائے جاتے ہیں ایک تو یہ ہے کہ عام مسلمانوں میں دختر کشی ، اولاد کشی کی
روایات مغرب کی طرح نہیں ہیں دوسرا اہم سبب تبدیلی مذہب کی عالمی رفتار میں
مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ہندوستان بھی اسلام دشمن اور
پاکستان مخالفت میں یورپ کی تقلید پر کررہا ہے۔بھارت میں مسلم دشمن ذہنیت
کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کی
آبروزی کے بعد احتجاج کے دوران مظاہریں کو منتشر کرتے ہوئے ایک پولیس
حوالدار" تومر" دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوا لیکن پولیس نے ایسے مظاہرین
کیجانب سے تشدد میں منہ پر چوٹ لگنے کے بعد دل کا دورہ قرار دیا جس کے بعد
آٹھ لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ۔ جس میں سات لڑکے ہندو ہیں ۔ان کی گرفتاری
کیا ہوئی کہ پورے بھارت میں گویا سارے دانشور ،سیات دان ،سماجی کارکن میدان
میں آگئے اور اس کیساتھ جب معاملہ عدالت میں پیش ہوا توجج ساحب بھی پولیس
پر برس پڑے اور معلوم کیا کہ انہیں ایک ہی جگہ سے پکڑا ہے یا لگ الگ جگہ سے
۔پولیس نے مانا کہ الگ الگ جگہ سے تو ان سے سوال کیا گیا کہ ان پر تینالزام
ہیں ۔ پتھراؤ ، اقدام قتل ، قتل ، ان آٹھ میں بتاؤ کہ کس کس نے کیا کیا تھا
؟۔ یہی بہادر پولیس اب تکسینکڑوں مسلمان لڑکوں کو پیش کرچکی ہے اور عدالت
نے خاموشی سے جیل بھیج دیا۔لیکن سات ہندو لڑکے قانون اور پولیس کے چکر میں
پھنس گئے۔ہر ٹی وی چینل ان پرمذاکرے کر رہا ہے ، ان لڑکوں کی حمایت کر رہے
ہیں کہ باعزت بری بھی ہوگئے تو ان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا لیکن ان کے ہر
جملہ میں مسلمانوں کے سات سو سے کہیں زیادہ مسلمان لڑکوں پر کسی نے بحث
نہیں کی، جو پولیس نے کہہ دیا عدالت نے بسروچشم تسلیم کرلیا۔کچھ عرصہ قبل
13مسلماں نوجوان عمر کے مسلمانوں کو پولیس پکڑ کر لاتی ہے تو ان پر الزام
لگایا جاتا ہے کہ ایک مندر کے اڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ان کے پاس
چالیس اے کے 47رائفلیں ، ایک بڑا بکس کارتوس سے بھرا ہوا ، ہنڈ گرینڈ اور
ریوالور بر آمد ہوئے لیکن معزز متعصب جج نے یہ معلوم کرنے کی کوشش تو کیا
ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ اتنا سامان ان پر کیسے لڈا ہوا تھا لاد کردکھاؤ
اور منصوبہ بندی کا علم تمھیں کیسے ہوا ؟ اس کے باوجود انھیں جیل بھیج دیا
اور اٹھارہ برس جیل میں رکھکر باعزت بری کردیا۔ اب ادھیڑ عمر کے لڑکے پوچھ
رہے ہیں کہ وہ عزت کہاں ہے جو جج صاحب نے دی تھی۔بھارت کو تجارت کیلئے
پسندیدہ ملک قرار دینا ، تجارتی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن امن کی آشا کا راگ
الاپنے سے بھارت اور پاکستان میں دوریاں ختم نہیں ہوسکتی۔جنگ بھی مسئلے کا
حل نہیں ہے ، لیکن بھارتی ثقافت کو فلموں ،ڈراموں اور الیکڑونک میڈیا کے
توسط سے ہمارے گھر گھر میں پہنچ رہی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان مقابلہ
کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود
پاکستان کو اندرونی خلفشار اور بیرونی سازشوں کے جال میں اس قدر الجھا دیا
گیا ہے کہ پاکستان کیلئے بھارت سے تجارتی تعلقات میں اضافے کے سوا کوئی
چارہ کار بھی نہیں ہے۔لیکن اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستانی صنعت
کاروں کا تحفظ اور پاکستانی مصنوعات کو بھارت بھی ترجیح دے لیکن بدقسمتی
ایسا ہونا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ ملکی بد امنی کی صورتحال سمیت لوڈ شیڈنگ
اور مہنگائی کے سبب بھارتی مصنوعات کا مقابلہ کرناآسان نہیں ہوگا اور رہی
سہی معیشت بھی تباہ ہوجائے گی۔بھارت کیلئے موجودہ پاکستان بھی "چھوٹا
پاکستان "ہے جیسے مسلمانوں اور جناح کی" سنگین غلطی "قرار دیا جاتا
ہے۔موجودہ سیاسی ملکی صورتحال میں ارباب اختیار سمیت کسی کو ادارک نہیں ہے
کہ ہم اپنی پالیسوں اور بے حسی کے سبب غیر ذمے دارانہ باربار اس" سنگین
غلطی "کو درست قرار دے رہے ہیں ۔ اب مملکت کے کونے کونے میں نا اتفاقی ،
فرقہ واریت ، نسل پرستی، لسانیت ، صوبائیت کے نعرے مشرقی پاکستان کی طرح "سنگین
غلطی کا "شکار ہورہے ہیں۔اب بھارت کے وزیر اعظم مودی سرکار بنیں ہیں ، کیا
انھیں نہیں معلوم کہ بھارت میں اب بھی کئی پاکستان ہیں۔ |