قائد اعظم محمد علی جناح کا
پاکستان ایک نظریے کے تحت حاصل کیا گیا ۔ مسلمانوں کے علاوہ اقلیتوں نے بھی
لازوال قربانیاں دیں۔انگریز سے وطن حاصل کرنے کا مقصد تھا یہاں مسلمان اور
تمام اقلتیں مکمل تحفظ کیساتھ اپنی گزربسر کرینگی۔ہر طرف پیار ،محبت اور
امن کا ماحول ہوگا۔ہرایک خو ش و خرم زندگیاں بسر کریگا۔یقینا یہ وہ خواب
تھا جو حضرت علامہ اقبال نے پاکستان کے متعلق دیکھا ۔
آج موسم کی گرمی عروج پر ہے توموجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی بدولت دہشت
گردی بھی آخری حدود تجاوز کر رہی ہے۔انگریز بہادر نے جب پاکستان کو آزاد
کیا تو کشمیر سمیت ہمارے ساتھ کئی نا انصافیاں کی گئیں۔کشمیر پر بھارتی
قبضہ کروا دیا گیا۔وقت بدلتا رہا مگر انگریز اور ہندوؤں نے پاکستان دشمنی
کی روش نہ بدلی،کبھی ہمیں اسلام کا درس دیا گیا تو کبھی ہمارے آگے ڈالرز
اور اسلحہ پھینک کر جہاد کی تربیت دی گئی اور ہم مسلمان ہوکر اتنے لالچی
اور خود غرض نکلے کہ ہمیں اسلام دشمن عناصر کی پہچان نہ ہوئی۔افغان جہاد کے
دوران جب روس کو تباہ کیاگیا تو ہم ہیرو ٹھہرے مگر جب مقصد مکمل ہوا تو آج
ہم طالبان اور دہشت گرد ہوچکے۔ہندو ہمارے اوپر ہر محاذ پر وار کرتا رہا اور
ہم امن کے نام پر تو کبھی ہمسایوں کے حقوق پر اپنے دلوں کو بہلاتے رہے۔
ہمیشہ ملکی وسائل کی لوٹ مار اور پیسوں کا حصول ،کبھی جہاد کے ہیرو کے نام
پر تو کبھی وہی ہیرو پکڑ کر غیر مسلم ممالک کو دینے پرحکمرانوں نے اپنے
ضمیر بیچے۔نتیجہ کل تک جہاد کرنے والے اسلام کے ہیرو آج کے طالبان بنے تو
ہم نے وقتا فوقتا انہیں شدت پسند اور انتہا پسند بنانے میں بھی انکی مدد
کی۔کبھی ان کے خلاف آپریشن کرکے انہیں نیچا دکھایا تو کبھی انکی مزاحمت اور
شدت پسندی کے باعث ارض وطن کی مٹی کو لہو لہان کر دیا۔مگر ہمیشہ سوچا تو
صرف اپنا ہی بھلا۔
آج دہشت گردی کے باعث ملک میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں تو اب بھی ہم بے حس
اور مطلب پرستی کی حدود کو تجاوز کیوں کر رہے ہیں۔پاک فوج اور حکومت میں آج
ڈیڈ لاک کیوں نظر آرہا ہے۔افواج پاکستان اور ہماری سکیورٹی ایجنسیاں تو ملک
کے دفاع کی ذمہ دار ہیں ہماری سیاسی قیادت اپنے فرائض سے مسلسل غفلت برت کر
آخرکس کو سپورٹ دے رہی ہے۔جمہوریت کے ادوراردیکھیں یا آمریت کے ایام ہمیشہ
نقصان عوام نے ہی کیوں اٹھایا ۔ہمارے حکمران امیر سے امیر تر اور وطن عزیز
میں بسنے والے غریب آخر غریب سے غریب تر کیوں ہوئے۔پاکستان بنانے کا مقصد
یہ نہیں تھا کہ ہر شخص بے یارو مددگار پھرے جبکہ حکمران امداد کے نام پر یا
خاص ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے اغیار کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔
گرمیاں اپنے عروج پر ہیں،ہر طرف حبس کڑک دار دھوپ اور گرم موسم نے پورے ملک
کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ایسے میں وطن عزیز کو بھی تاریخ کی بدترین
دہشت گردی ،بدامنی،لاقانونیت جیسے بیشمار مسائل کا سامنا ہے۔ہمارے سیاستدان
بھی ملکی اور کڑک دار گرمی میں پر اسرار طور پر خاموش ہیں۔عام شہری احساس
محرومی، فرقہ وارانہ ماحول ،بیروزگاری،دہشت گردی سمیت بیشمار اذیتوں میں
مبتلا ہے۔حکومتی ایوانوں میں اپنی تنخواہوں اور مراعات کے معاملہ میں یکجان
ہونیوالے آج ملکی حالات پر ایک دوسرے کے مخالف کیوں۔دہشت گردی کے خاتمے اور
وطن عزیز کی خوشحالی کیلئے کردار کون ادا کریگا۔انقلاب کے نعرے ،عوامی خدمت
کے دعوئے ، اقتدار کی موج مستیاں ، اپوزیشن کی سیاست ، ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے والے دہشت گردی کو کب للکاریں گے۔انگریز اور ہندوؤں کو یکجان ہوکر
سبق کون سکھائے گا۔کل کے ہیرو آج کے طالبان پاکستان کی دھرتی اور اداروں کو
اپنا کب سمجھیں گے۔ذات برادری،مسلک،فرقہ واریت،مذاہب سے بالا تر ہوکر
خوشحال پاکستان کی بنیاد کون رکھے گا۔
اے ارض وطن ہم شرمندہ ، بے بس ،لاچار ،بے حس ،مطلبی،ظالم تو ہو چکے مگر ایک
امید اب بھی ہے کہ ہم بدلیں گے،ہم تیرا قرض اتار کر دنیا کو دکھائیں گے کہ
ہم سب سے پہلے پاکستانی زندہ قوم ہیں اور ہم اس ارض پاکستان کو ترقی
یافتہ،خوشحال ملک بنائینگے۔ |