رحمان ملک نے کہا ہے کہ فوج اور
حکومت میں کوئی دوری نہیں مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مجبوری کیا ہے؟
کچھ بات ہوتی ہے تو اس کی نفی ہوتی ہے۔ سیاستدان اور حکمران ویسے تو تردید
نہیں کرتے۔ اس سے پہلے رحمان ملک نے کہا کہ جی ایچ کیو میں دہشت گردی کے
بعد جائے حادثہ پر جانے سے مجھے نہیں روکا گیا۔ یہ کس نے کہا تھا کہ اس کو
روکا گیا ہے۔ وہ تو حادثے یعنی دہشت گردی کے بعد موقع پر پہنچے ہیں۔ کہیں
آگ لگی تو پوچھا گیا کہ کچھ بچا؟ متاثرین نے کہا کہ ہاں آگ بجھانے والی
گاڑی کہ وہ بہت دیر سے پہنچی تھی۔
اسلام آباد میں ایک بریگیڈیئر کو صبح سویرے دہشت گردوں نے شہید کر دیا اور
بھاگ گئے۔ رحمان ملک وہاں بھی نہیں گئے۔ یہاں آنے سے انہیں کس نے روکا ہے۔
جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہے۔ وہ دوسرا شہر ہے۔ لگتا کسی دوسرے ملک کا شہر
ہے۔ حکومت کی مرضی تو ہے کہ جی ایچ کیو اسلام آباد میں آ جائے تاکہ ہم اُسے
بھی پارلیمنٹ اور سیکرٹریٹ کی طرح کنٹرول کر سکیں۔ امریکی شرائط کے علاوہ
اپنی شرائط بھی لگا سکیں۔ یہ بھی افسوس ہے کہ جنرل کیانی نے جی ایچ کیو کو
اسلام آباد میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس پر اربوں روپے خرچ ہوتے
اور پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ ہمارے حکمران اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ
نہیں کرتے مگر سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹاتے ہوئے اور لوٹتے ہوئے انہیں
ذرا بھر احساس نہیں ہوتا نہ خوف آتا ہے۔ ’’عوامی‘‘ حکمرانوں کو فوج سے ڈر
کیوں لگتا ہے۔ وہ بھلائی٬ خودداری٬ عزت مندی سے فلاح و تعمیر کریں تو عوام
ان کے ساتھ ہونگے۔ فوج آئی جب عوام ان کے ساتھ نہ تھے۔ لوگوں نے مٹھائیاں
بانٹیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ میں فوج کے آنے کے خلاف ہوں۔ آٹھ سال تک
جنرل مشرف کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلاوطنی کے
مزے لوٹتے رہے۔ اس جلاوطنی میں ان کا اپنا ہاتھ بھی تھا۔ ہم تو ہم وطنی کی
اذیت اور ذلت برداشت کرتے رہے۔ اب بھی کر رہے ہیں اور اب فوجی حکومت کی
بجائے سیاسی حکومتیں ہیں جو اس کو جمہوری حکومتیں کہتے ہیں۔ سیاستدان خود
سیاسی نظام کی پابندی کریں۔ نجانے انہیں کیوں نظام کے برباد ہونے کا خطرہ
ہے۔ نظام کو تو خود اپنے کرتوتوں سے انہوں نے برباد کیا ہوا ہے۔ بے نطیر
بھٹو اور نواز شریف کی حکومت کو غیر فوجی صدر نے بھی توڑا اور یہ ’’سعادت‘‘
ایک ہی صدر اسحاق کو نصیب ہوئی۔ دوسری بار بی بی کی حکومت خود ان کے بنائے
ہوئے ان کی پارٹی کے صدر فاروق بھائی نے توڑی اور جب نواز شریف حکومت فوج
نے توڑی تو بے نظیر بھٹو نے اسے خوش آمدید کہا تھا۔ میثاق جمہوریت تو بعد
کی بات ہے۔ جب جنرل مشرف نے بے نظیر بھٹو کو لفٹ نہ کرائی۔ وہ جب وطن آئی
تو جنرل مشرف کے ساتھ معاہدے کے بعد آئی اور اس میں جنرل کیانی کی کوششیں
شامل ہیں۔ پھر وہ قتل ہوئی۔ اسے تو پتہ ہے مگر وہ واپس آ کے بتا نہیں سکتی۔
اس کی قربانی پر اگلی کہانی چلی۔ امریکہ کو بی بی کی پرواہ نہیں مگر وہ صدر
زرداری کے بری طرح ساتھ ہے۔ سارے راز انشاء اللہ افشا ہونگے۔ منکشف ہونے
اور افشا ہونے میں فرق ہے۔ فوج کا خوف صرف اپنی حکومت جانے کے لئے نہیں
کوئی انجانی مصیبت کے آ جانے کا بھی ہے۔ جنرل کیانی تو جنرل اسلم بیگ کی
طرح جمہوریت کے حق میں ہیں مگر سیاسی لوگ خود اپنی جمہوریت کے حق میں نہیں۔
اب جنرل اسلم بیگ کہہ رہے ہیں کہ فوج کے جذبات نہ بھڑکاؤ۔ نواز شریف نے بھی
فوج کے صبر کا امتحان لیا تھا۔ پھر کم از کم یہ تو ہو کہ سارے سیاستدان
اکٹھے ہو جائیں۔ وہ تو جرنیل کے ارد گرد اکٹھے ہوتے ہیں۔ تمہیں اپنی فوج پر
اعتماد نہیں٬ امریکی فوج پر اعتماد ہے۔ تم امریکہ سے شرطیں لگواتے ہو کہ
فوج کو کنٹرول کیا جا سکے۔ خدا اور خلق خدا پر بھروسہ نہیں
بتوں سے تجھ کو امیدیں ہیں خدا سے ناامیدی ................. مجھے بتا سہی
اور کافری کیا ہے
میں چاہتا ہوں کہ یہاں کبھی فوج نہ آئے۔ فوج اپنا کام کرے لیکن یہ بات بھی
نہیں مانتا کہ لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہو گی مگر ہمیں پوری
جمہوریت چاہئے٬ طفیلی اور امریکی جمہوریت نہیں چاہئے‘ لٹیرے٬ کرپٹ٬ نالائق٬
فرعون اور موروثی سیاست دان نہیں چاہئیں۔ جمہوریت کو مضبوط کرو٬ عوام
تمہاری حفاظت کریں گے۔ سیاسی جرنیل کو خود بلاتے ہو ورنہ سچے فوجی افسران
کہتے ہیں کہ سیاست میں آنے سے فوج کمزور ہوتی ہے۔ جو فوج اقتدار میں نہیں
آنا چاہتی اسے کس خوف سے سیاستدان کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ بھی یہی
چاہتا ہے کہ پاک فوج کمزور ہو جائے۔ اسے پتہ ہے کہ اسی فوج نے ایک سپر پاور
کو شکست دی تھی۔ یہ دوسری سپر پاور کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ وہ آئی ایس آئی
کی صلاحیتوں سے واقف ہے تو اس سے خوفزدہ ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری فوج
حکومت پر قبضہ کر لے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ امریکن فوج پاکستان پر
قبضہ کر لے۔ وہ ہر پاکستانی حکومت پر فوراً قبضہ کر لیتی ہے۔ اس میں فوجی
اور غیر فوجی حکومتیں سب شامل ہیں۔ پھر فوج اور سیاست میں کیا فرق ہے۔ کوئی
تو ہو جو تبدیلی لائے۔ ہم نے فوجی حکومتوں کو بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے بھی
ملک کو لوٹا اور بیچا ہے۔ یہ جو دہشت گردی جی ایچ کیو میں ہوئی اور اسلام
آباد میں بریگیڈیئر شہید ہوا تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جی ایچ کیو میں
دہشت گردی کے بعد فوج کی ذمہ داری شروع ہوئی اور وہ انہوں نے بڑی بہادری
اور مہارت کے ساتھ نبھائی۔ سوات اور وزیرستان میں دہشت گردی کا قلع قمع فوج
کر رہی ہے تو حکومت فوج کے ساتھ پھڈا نہ ڈالے۔ نہ فوج سے ڈرے اور نہ فوج کو
ڈرائے۔ دونوں ایک ہی کام ہیں۔ جب کوئی جرنیل حکومت میں آتا ہے تو گڑبڑ ہوتی
ہے۔ وہ سیاسی جرنیل ہوتا ہے مگر اس جرنیل سے گڑبڑ نہ کرو جو سیاست میں نہیں
آنا چاہتا۔ جنرل کیانی نے حکومت میں آئے بغیر چیف جسٹس کو بحال کرایا۔ دو
اور بھی ایسے کام حکومت میں آئے بغیر کرائے۔ وزیرستان میں ہمارا فوجی
آپریشن جاری ہے اور امریکی ڈرون حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت کو احساس
ہونا چاہئے۔ وہ امریکن فوج کے سامنے دم نہیں مارتی اور اپنی فوج کا دم خم
نکال دینا چاہتی ہے۔ جب ملک و قوم خطرے میں ہو تو پھر فوج کو ہاتھ باندھ کر
بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کے سامنے اپنے ہاتھ معافی
کے انداز میں باندھے ہوئے ہیں۔ کیری لوگر بل پر پوری قوم متفق ہے کہ یہ
امریکی مفادات کے دائرے میں ہمیں غلام بنانے کی سازش ہے۔ فوج نے بھی اپنے
تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس پر قائم ہے۔ وضاحتی نوٹ بھی امریکی نوٹوں
(ڈالروں) کی طرح بے کار ہے۔ جنرل کیانی کا یہ بیان غیرت دلانے کیلئے کافی
ہے کہ وزیرستان میں آپریشن کیلئے ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔
ایسے دلیرانہ اقدام کے بعد اندرونی امداد کس کے ہاتھ ہو گی۔ عوام اپنی محب
وطن بہادر افواج کے ساتھ ہیں جبکہ ہماری حکومت امریکہ اور بھارت کے ساتھ
ہے! |