بھارتی وزیر داخلہ چرم برم کی اُوٹ پٹانگ
باتیں
ملک اِن دنوں اپنے تاریخ کے انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے جو اندرونی
اور بیرونی محاذوں پر اپنی پوری قوت کے ساتھ کمربستہ ہے ۔اور اِن مشکل ترین
لمحات میں ملک اور قوم کی حالات ِ زار کو بہتر بنانے کے لئے حکمران جماعت
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہان صدر آصف علی
زرداری اور نواز شریف کی 11ویں ملاقات ایوان ِ صدرمیں ہوئی ہے۔ جس میں
دونوں جماعتوں کی جانب سے چیدہ چیدہ سیاسی رہنما بھی موجود تھے۔ اپنی نوعیت
کی اِس اہم ترین ملاقات سے متعلق یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اِس ملاقات کے
نتیجے میں کوئی بڑا بریک تھرو ہوگا اور کسی کو اپنی پوزیشن سے دو قدم آگے
اور کسی کو ملک اور قوم کے بہتر مفاد میں چند قدم پیچھے جانا پڑے گا۔ مگر
اِس ملاقات میں بھی ملک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لئے کوئی خاطر
خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور اِس موقع پر یہ بھی دیکھا گیا کہ دونوں
جانب سے ضد اور انا کا عنصر غالب رہا ہے۔
یوں اپنے اپنے اقتدار کے حصول کے اِن دونوں سیاسی بیماروں (نواز ، زرداری)
کے درمیان ہونے والی یہ گیارہویں ملاقات بھی بے نتیجہ ہی ثابت ہوئی ہے اور
جس سے متعلق یہ توقع کی جارہی تھی کہ کوئی غیرمعمولی سیاسی تبدیلی سامنے
آئے گی مگر ایسا نہیں ہوسکا جس کے بارے میں بڑی اچھی امیدیں تھیں۔ اِس کے
بعد دونوں رہنما اپنی اِس ملاقات کو نتیجہ خیز بنائے بغیر کھانا کھا کر اور
چائے پی کر اپنی اپنی راہ پر نکل گئے اور اِس گیارہویں ملاقات کے بعد شائد
حسبِ روایت اگلی (اور اِس سلسلے کی بارہویں) ملاقات کے لئے دونوں جانب سے
ایک بار پھر ملاقات کی لولی پاپ ایک دوسرے کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔
بہر کیف ! نواز، زرداری ملاقات جیسی بھی تھی یہ ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے
جس کے نتائج ہر صورت میں مثبت اور تعمیری آنے چاہئے تھے تاکہ قوم کا
سیاستدانوں پر اعتماد بحال ہوتا اور قوم یہ کہہ سکے کہ 18فروری2008 کو ہونے
والے انتخابات میں عوام نے جو فیصلہ اپنے ووٹ کی طاقت سے دیا تھا وہ درست
تھا۔
اور اِس کے ساتھ ہی ایک خبر یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیرداخلہ چدم برم نے
اپنی بے لگام زبان سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کرتے ہوئے پاکستان
پر ایک بار پھر یہ سنگین الزام عائد کرنے کو اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے کہ
پاکستانی شدت پسند تنظیمیں بھارت میں دراندازی کی تیاری کررہی ہیں۔ بھارتی
ڈرپوک وزیر داخلہ چدم برم نے ایک خبر رساں ادارے پی پی آئی کو دیئے گئے
اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں موجود بعض شدت پسند گروپ لشکر
طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین اور دیگر بھارت میں دہشت گردی اور
افراتفری پھیلانے کی نیت سے دراندازی کرنے کی تیار ی کررہے ہیں اگرچہ یہاں
یہ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اِس انٹرویو میں میں اِس بات
کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی شدت پسند یہ گروپ بھارت میں دہشتگردانہ
حملے تو نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اِن سب گروپوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ
بھارت میں بس افراتفری کی جائے۔ جبکہ اِس موقع پر بھارتی وزیر داخلہ نے
اپنے اِن خدشات کا بھی اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اِن شدت پسند گروپوں
کو روکا نہیں گیا تو خطرہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں پھیل سکتے ہیں۔
یہاں راقم الحرف کا خیال صرف یہ ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے
پاکستان کو محض بدنام کرنے والی اپنی پالیسی کے تحت یہ بیان دیا ہے حالانکہ
وہ یہ بھی خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد
تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی دہشت گرد گروپ ہی کام کررہا ہے۔ بس انہوں نے اپنے
اِس انٹرویو میں پوچھے گئے اِس سوال کے بدلے میں بھارت کے لئے یہ جواب دیا
ہے۔ ویسے اگر چدم برم کے اِس انٹرویو میں کہے گئے اِس بیان کی روشنی میں
دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ بھارت پاکستان سے بغض اور کینہ میں
اتنا آگے نکل چکا ہے کہ جہاں سے واپس آنا خود بھارت کے لئے بھی ناممکن
ہوگیا ہے۔ اور آج بھارتیوں کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کے لاوے جگہ بناچکے
ہیں۔
اور ایسے ہی موقع کے لئے لارڈ بائرن نے کہا ہے کہ ”نفرت دل کا پاگل پن ہے “
اور آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس نے یہ جو کہا ہے وہ بلکل ٹھیک ہے اور
اِس کا یہ کہا ہوا ہمارے پڑوسی ملک بھارت پر پوری طرح سے صادق آتا ہے۔ کیوں
کہ ہم نے گزشتہ 62سالوں سے یہی دیکھا اور سُنا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت
ہماری نفرت میں اتنا پاگل ہوچکا ہے کہ اَب یہ ہماری برائی کا کوئی بھی موقع
اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اپنا یہ فریضہ اپنا دین اور دھرم سمجھ کر پوری
طرح سے نبھا رہا ہے اور یوں اِس کی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ
پاکستان کے ہر اچھے کام کو بھی نہ صرف خود شک کی نگاہ سے دیکھے بلکہ دنیا
کو بھی اپنے اِس عمل میں شامل کرے۔
اور یوں بھارت نے اپنی اِسی روش میں پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں من گھڑت
اور بے بنیاد منفی پروپیگنڈوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کردیا جائے کہ دنیا
کی توجہ پاکستان کے اچھے کاموں پر سے ہٹ کر اُن منفی اور پوشیدہ مفروضات
اور مقاصد پر لگ گئی ہے کہ جن کا اِس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور
دنیا اَس کو حقیقت تصور کرنے لگے جو بھارت دیکھ اور کہہ رہا ہے۔
اور آج اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنے اِس عمل سے دنیا کو یہ
بتانے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہا ہے کہ جو بھارت چاہتا ہے اور بھارت صرف
یہ ہوتا دیکھنا چاہتا ہے کہ ساری دنیا پاکستان کے خلاف ہوجائے۔ اور پاکستان
کے اچھے کاموں میں بھی سو سو کیڑے نکالنا شروع کردے۔ یوں بھارت نے ساری
دنیا میں اپنی ایک منظم اور مربوط سازش اور خارجہ پالیسی کے تحت پاکستان کو
دنیا بھر میں بدنام کرنے کی ایک ایسی مہم چلا رکھی ہے کہ دنیا بھارت کی
عیاری اور سازش کے آگے بچھی بچھی جارہی ہے اور پاکستان سے متعلق اُس کے کہے
ہوئے ہر غلط کو بھی درست جاننے لگی ہے۔
اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت ہمارا کبھی بھی اچھا پڑوسی نہیں رہا ہے اور شائد
یہ بھی ہمارا اچھا پڑوسی بن کر رہنا بھی نہیں چاہتا ہے کیوں کہ یہ اپنی اُن
منافقانہ عادتوں کے ہاتھوں مجبور ہے کہ یہ اپنی اِن عادتوں کی وجہ سے کبھی
بھی پاکستان کا اچھا پڑوسی خود کو ثابت بھی نہیں کرواسکتا۔ اسی وجہ سے یہ
پاکستان کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہے اور شائد ہمیشہ ہی رہے۔
یہ اور بات ہے کہ اِن دنوں پاکستان کے اندرونی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔
مگر اتنے بھی برے نہیں ہیں کہ پاکستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص بھارت اور
افغانستان اِس کے اِن بگڑے ہوئے حالات پر اپنی سیاست چمکائیں۔ اور وہ خود
کو پارسا ثابت کرنے کی جدوجہد میں پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور منفی
پروپیگنڈوں سے دنیا کو پاکستان سے متعلق گمراہ کرتے پھریں کہ پاکستان ایسا
ہے؟ تو پاکستان ویسا ہے؟
اور یہ بھی ایک مصمم حقیقت ہے کہ جِسے دنیا بھی بچشمِ خود دیکھ بھی رہی ہے
تو سُن بھی رہی ہے کہ پاکستانی حکمران اور عوام اپنے اندرونی حالات کو درست
کرنے کے لئے اپنے تن من اور دھن سے اِس کام میںمصروفِ عمل ہیں کہ پاکستان
کے حالات جلد سدھر جائیں۔ اور حکومت کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے۔ آج ہر محب
وطن پاکستانی کی بھی یہی دلی آرزو ہے کہ اِس کے پیارے ملک پاکستان میں جلد
ازجلد ایک بار پھر ایسا مثالی امن قائم ہوجائے کہ دنیا اِس کی تعریف کے
قصیدے پڑھنے لگے اور یہ کہہ اُٹھے کہ یہی وہ پاکستان ہے جس کے علاقے شورش
زدہ تھے اور آج یہاں ایسا امن قائم ہوچکا ہے کہ اِس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اور اَب بھارت کو بھی یہ یقین ہوجانا چاہئے کہ پاکستان کی بقا و سلامتی اور
خودمختاری کا اِس کرہ ارض پر اگر کوئی دشمن ہے تو وہ صرف اور صرف بھارت ہے۔
کیوں کہ اِس کی نظر میں پاکستان اِس کا دشمن ہے۔ حالانکہ پاکستان نے تو
بھارت کو اپنا ایک اچھا پڑوسی جانتے ہوئے اِس سے اپنے اچھے مراسم قائم کرنے
کی بڑی کوششیں کیں مگر ہر بار عیار اور مکار بھارتی حکمرانوں اور چالاک شدت
پسند بھارتی ہندووں نے پاکستان کے جذبہ دوستی کے ساتھ بڑھے ہاتھ جھٹک دیئے
اور اپنی اُس روش پر قائم رہتے ہوئے یہ جو کچھ بھی پاکستان کے خلاف کرتے
رہے اور کررہے ہیں۔ اُسے بھی دنیا خوب جانتی ہے اور سمجھتی ہے کہ پاکستان
کے حالات بگاڑنے میں امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کا بھی ہاتھ ہے۔ |