یک رُخے تصورات

ہماری دنیا میں اس وقت تک امن کا راج نہیں ہوسکتا جب تک مذاہب کے مابین امن قائم نہیں ہوتا اورمذاہب کے مابین امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک ان کے پیروں کار ایک دوسرے کیلئے افہام وتفہیم پیدا نہیں کرتے۔اس عمل کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کی اصل تعلیمات کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل اپنائیں،برداشت ‘امن ‘اتحاد اورہم آہنگی ہر مذہب کا اعلانیہ مقصد ہے یہ توقع کرنا بہت دلچسپ ہے اگر تمام مذاہب ان اعلانیہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے تعاون کرسکیں تو کیسی بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت اپنے مذہب کی تعلیمات سے ہٹی ہوئی ہے۔

یہودیوں کا طرز زندگی حضرت موسیٰ ؑ کی تعلیمات کے منافی ہے،عیسائی حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات چھوڑ چکے ہیں اورمسلمان حضرت محمدؐ کی تعلیمات سے روگردانی کرکے اپنی مرضی کی راہیں اختیار کئے ہوئے ہیں۔فرقہ واریت سے دنیا کے تمام مذاہب ایک جیسے متاثر ہیں اگر مسلمان وہابی‘ بریلوی اورسلفی کے نام پرتقسیم ہیں تو عیسائیوں میں موحدین‘ نسلطوری‘ کیتھولک اورپروٹسٹنٹ کے نام پریہ تقسیم موجود ہے۔اگر بدھ مت شمالی مذہب ‘جنوبی مذہب‘ دیندار بدھسٹ اورشہری بدھسٹ کے نام پرتقسیم ہے تو یہودیت میں یہ تقسیم فریسی‘ صدیقی‘ ناسخین ‘سامری اورقرایین کے نام پر موجود ہے۔شدت پسندی کا الزام کسی ایک مذہب پر نہیں لگایا جاسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے شدت پسند عناصر ہر مذہب میں موجود ہیں ۔یہودی ہوں چاہے ہندو‘ عیسائی ہوں یا مسلمان بجائے اس کے کہ ٹھنڈے دل ودماغ سے حقیقت کا ادراک کریں اکثرسنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کے بارے میں غلط تصورات قائم کرلیتے ہیں،جب ہم بات کرتے ہیں آسمانی مذاہب کی تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے زمانے میں وہ مذہب برحق تھا،جس طرح حضرت محمدؐ کی تعلیمات سچی ہیں اسی طرح موسیٰؑ اورعیسیٰ ؑ کی تعلیمات بھی سچی تھیں،ان کی تعلیمات میں فحاشی اورعریانی کا تصور نہیں تھا اورنہ ہی انہوں نے یہ تعلیم دی تھی کہ ہمارے بعد آنے والے نبیؐ کو نہ ماننا، غلطی ہم یہ کر رہے ہیں کہ ایک طرف ہم نے عملاً مذاہب کو ماننا چھوڑ دیا ہے اوردوسری طرف تعصب کی عینک چڑھا کرایک دوسرے کے خلاف یک طرفہ نظریات قائم کرکے نفرتوں کو جنم دے رہے ہیں ۔ آج یہودی اورعیسائی طاقت میں ہیں وہ تمام حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر مسلمانوں کو گھٹیا ‘شدت پسند اوردہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ان کی پوری کوشش ہے وہ مسلمانوں کے خلاف منفی تاثر قائم کریں،اسلامی اصولوں کی مسخ شدہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں ان کا میڈیا اوردانشور دن رات اس کوشش میں لگے ہیں کہ دنیا کو باور کرایاجائے مسلمانوں کا کام دنیا میں دہشت گردی کرنا‘ خوف وہراس پھیلانا اورقتل وغارت کرنا ہے یہ تصور قائم کرنے کیلئے وہ عجیب عجیب حربے استعمال کرتے ہیں۔

ایک عیسائی امریکی شہری ریجنالڈکیوری نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے ایک بینک کے کیشیئر کو اس مضمون کی پرچی تھمائی ’’شروع اﷲ کے نام سے میرے پاس ایک بم ہے اورمیں اسلام کیلئے اپنی جان دینے پر تیار ہوں ساری رقم اس تھیلے میں ڈال دو اورہیرو بننے کی کوشش مت کرنا‘‘خوف زدہ کیشیئر نے اس ہدایت پر فوری عمل کیا اوررقم اس کے حوالے کردی،یہ فریب اس وقت کھلا جب کیوری کوگرفتار کرلیاگیا لیکن اس وقت تک اس واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیاجاچکا تھا۔پال فنڈلے امریکی کانگریس کا سابق رکن ہے لکھتا ہے’’جب میں سکول پڑھتا تھا تو استانی جی نے ہمیں بتایا غیرتعلیم یافتہ ‘غیر مہذب ‘شدت پسند لوگ ارض مقدس کے صحرائی علاقوں میں رہتے ہیں اورایک اجنبی خدا کی عبادت کرتے ہیں انہیں محمڈنز کہتے ہیں،وہ ہمارے جیسے نہیں ہیں‘‘پال فنڈلے کا کہنا ہے ’’استانی جی کے تبصرے میرے ذہن میں چپک کررہ گئے اورمیں بیشتر زندگی محمڈنز کو اجنبی‘جاہل اورخطرناک لوگ تصور کرتا رہا اصل بات یہ تھی میری استانی جی کوبھی دوسرے اساتذہ اورپادریوں کی طرح حقائق کا علم نہیں تھا میں نے ساری دنیا کا چکر لگا کر 20سال تک اسلام کا مطالعہ کیا مسلمانوں کو قریب جا کر دیکھا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں مغرب میں اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں جو تصورات قائم ہیں وہ غیر حقیقی ہیں،میرے خیال میں اسلام نے عیسائیت اوریہودیت کی نسبت عورتوں کو زیادہ عزت دی ہے‘‘

یہودی صحافی تھامس ڈبلیو لپ مین کہتا ہے ’’ایک ایسا معاشرہ جس میں عورت ملکیت سمجھی جاتی تھی اسے معمولی اشیاء کی طرح برتا جاتا تھا اسے اکثر غلامی جیسی صورتحال میں رکھا جاتا تھا وہاں قرآن نے آکر ایسے قوانین نافذ کئے جنہوں نے ان بدترین زیادتیوں کا قلع قمع کردیا ،عورتوں کو جائیداد کے حقوق کی ضمانت دی اورمردوں کو ہدایت کی وہ عورتوں کے ساتھ مہربانی اورفیاضی کا برتاؤ کریں۔‘‘ان تحقیقات اوران روشن تعلیمات کے باوجود مغرب میں اسلام سے متعلق انتہائی تعصب موجود ہے یہ تعصب صرف افراد کی حد تک نہیں بلکہ سکولوں اورکالجوں میں باقاعدہ منظم طریقے سے نئی نسل کواسلام سے متعلق غلط معلومات فراہم کرکے ان کے ذہن خراب کئے جاتے ہیں ڈیوڈناکس اورکیرولین کی لکھی ہوئی کتاب "Marriage and the Family: A Brief introduction میں لکھا ہے ’’اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ عورتیں مردوں کو کھانا کھلانے کے بعد ہی کھانا کھائیں نیز دوسروں کی موجودگی میں بیوی کو چاہئے وہ اپنے خاوند سے نہ تو بات کرے اورنہ ہی اس کی طرف دیکھے ‘‘ایسے بے تکے الزامات اورخلاف حقیقت باتوں سے بھرپور یہ کتاب سکولوں اورکالجوں کے نصاب میں شامل ہے۔

ہرانسان یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ان رویوں کے ہوتے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ بھائی چارے کی فضا اور نہ ہی نفرتیں اورکدورتیں ختم ہوسکتی ہیں۔کیا بیر کے درخت پہ کبھی آم لگے ہیں؟کیاسرسوں کے تیل سے کبھی شہدنکلا ہے؟یقیناً نہیں کبھی نہیں اوریہ بات تو مغرب نے خود بتائی ہے As you sow, So shall you reap اس لئے آج چاہے ہم مشرق والے ہوں یا مغرب والے ہمیں اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اگر ہم دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر تحمل اوربرداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا،ہمیں اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوں گے نہ کہ جنگ و جدل سے،ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ ہمیشہ کوئی ایک قوم غالب نہیں رہ سکتی،آج کا غالب کل مغلوب ہے اورآج کاطاقتور کل کمزور۔اگر غالب اورطاقتور‘ظلم وزیادتی اور ناانصافی سے کام لیں گے تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب انہیں ان سارے مظالم کا حساب دینا ہوگا اوراس طرح ہمیشہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔اس لیے آج ہم جو کچھ بورہے ہیں نہ صرف ہمیں خود بلکہ ہماری نسلوں کوبھی کاٹنا پڑے گا اوریقیناً ہم اپنے اوراپنی نسلوں کیلئے نفرتوں اورکدورتوں کے سوا کچھ نہیں بورہے۔
Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.