نون لیگ اور نواز شریف سے ہمدردی ممکن ہی نہیں کہ ایک طرف
تو وہ ایسے تاجر ہیں جو تخت نشین ہو کے بھی فرات کے کنارے مرنے والے کتے کے
بارے نہیں اپنے کاروبار کے بارے زیادہ فکر مند ہیں۔نسل در نسل اقتدار پہ
براجمان رہنے کی خواہش وہ پالتے ہیں۔امیر المومنین بننے کی ہوس جب کہ اسلام
سرے سے عہدے کی خواہش رکھنے والے کو اقتدار کے لئے مسترد کرتا ہے۔نواز کے
بعد شہباز پرواز کرے گا اور اس کے بعد کی نسل میں حمزہ اور مریم نواز۔نواز
شریف وردی کے بغیر آمر ہیں اور میں اس کا بھی انہیں حق دیتا اگر وہ ایک
شفاف انتخاب میں جیت کے سریر آرائے سلطنت ہوئے ہوتے۔مینڈیٹ ان کا مشکوک ہے
اور کام مشکوک تر۔ بھارت سے تعلقات بجا لیکن اس کی ریشہ دوانیاں ہمارے ملک
کے درپے ہیں اور ہم نے محبت کی یک طرفہ پینگیں ڈال رکھی ہیں جن کا ہر ہلارا
کسی شہید کی میت کے اوپر سے گذرتا ہے۔میں اپنے آپ کو جمہوریت کا سب سے
زیادہ وفادار پاتا ہوں لیکن یہ کیا جمہوریت ہے کہ باپ کے بعد بیٹا اور اس
کے بعد پوتا۔
وہی آٹھ فیصد اشرافیہ جو قیام ِ پاکستان سے لے آج تک اس ملک کے اقتدار پہ
قابض ہے۔کیا کپڑے کی مل والا کسی ننگے بدن کے مسئلے کو جان سکتا ہے۔ کیا
منڈی کا آڑھتی کبھی جان پائے گا کہ دانے ختم ہو جائیں تو سیانے بھی کملے ہو
جاتے ہیں۔پیسے لے کے ناچنے والی اور عزتوں کی سوداگر طوائف کو گھر گھرہستی
کے عذاب سے گذرتی اور کھیتوں میں اپنے مرد سے بڑھ کے کام کرنے والی عورت کے
مسائل کا ادراک کیونکر ہو سکتا ہے۔بجلی کے لئے ترسی اور سی این جی کی
لائنوں میں لگ کے عزت نفس سے محروم قوم کے مسائل وہ شخص کیونکر جان سکتا ہے
جس کے گھر میں سولر انرجی بھی ہو اورجنریٹر بھی جس کا ایئر کنڈیشن نان سٹاپ
چلتا ہو۔جو ایئر پورٹ سے اپنے گھر تک کا سفر ہیلی کاپٹر پہ کرتا ہو۔چیونٹوں
پہ ہاتھی حکمران ہیں اور و ہ بھی بد مست۔جن کے لاجزکے باہر سے برآمد ہونے
والی کانچ کی بوتلوں کی آمدن سے کئی لاکھوں پتی ہو گئے۔ چلئے جمہوریت کا
کہیں تو عوام کو فائدہ پہنچا۔مجھے اس جمہوریت سے ذرا برابر بھی نہ تو امید
ہے نہ ہمدردی۔مجھے تو اپنے ملک سے پیار ہے اور اس کی فکر۔دشمن چاروں اور سے
جس پہ ٹوٹ پڑے ہیں اور جن کو ہمارے اندر ہی سے میر جعفر میر صادق اور میر
شکیل میسر ہیں۔میر شکیل ہی پہ کیا موقوف اس ملک میں بندروں کے ہاتھ ادرک
لگی ہے اور وہ سارے کے سارے حکیم بنے بیٹھے ہیں۔ہر شخص ریاست کے اندر ریاست
بنانے پہ تلا ہے۔میڈیا کی ریاست ،عدلیہ کی ریاست اور فوج کی ریاست۔ریاست کو
لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔میڈیا کی تو آپ کو خبر ہے کیا افتخار چوہدری نے
واقعی عادل ہونے کا ثبوت دیا۔کیا وہ ریاست کے اندر ریاست نہ تھی۔ان کے
فیصلے قانون کے نہیں نفرت جذبات اور مفادات کے تابع نہیں تھے۔کیا فوج جب
بھی اقتدار میں آئی ہم کسی نئے امتحان میں گرفتار نہیں ہوئے؟
حکمرانی جمہور کا حق ہے لیکن وہ تو گلی کا غنڈہ چھین لیتا ہے۔جس کے پاس
اشتہاری زیادہ ہو ں جس نے حرام کی دولت کما رکھی ہو۔جس کا باپ کبھی ڈاکو
رہا ہو۔ مینڈیٹ بھی وہی چھینتا ہے۔میں اس جمہوریت کا حامی نہیں۔میں تو اس
فرزند زمیں کا منتظر ہوں جو آئے اور آکے ہمیں ان خون آشام بھیڑیوں سے نجات
دے۔میں نے پہلے بھی لکھا کہ ہمیں اس ملک کو سنوارنے کے لئے ایک ہٹلر کی
ضرورت ہے۔ گلی گلی محلے محلے سولیاں ٹانگنے والے کی، تبھی یہ قوم سدھرے
گی۔ہم نسلاََ کرپٹ اور بے ایمان ہو چکے۔ہمیں اب روایتی طریقوں سے ٹھیک کرنا
ممکن ہی نہیں۔برے حکمران عوام کی بد اعمالیوں کی سزا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ
ہماری نافرمانیوں کے طفیل ہم پہ مسلط کئے گئے ہیں اور یہ اس وقت تک ہم پہ
مسلط رہیں گے جب تک ہمارا قبلہ درست نہیں ہو جاتا۔
خاکم بدھن اس وقت ملک ٹوٹنے کے دہانے پہ ہے۔ بلوچستان میں احساس محرومی بھی
ہے اور اس کے ساتھ ہمارے بہت سارے دوستوں اور دشمنوں کا ہاتھ بھی۔ ہمارے
شمالی علاقہ جات میں اسماعیلی ریاست بنانے کی تیاریاں ہیں جبکہ مزید شمال
میں طالبانی ریاست پہلے ہی قائم ہے۔کراچی جل رہا کیا جل چکا ہے۔اسلام آباد
میں بیٹھے قومی اسمبلی کے سپیکر کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ہر طرف شورش
بپا ہے۔عوام بے سکون اور غیر مطمئن ہے۔ملک کے اندر ملک کے اتنے دشمن ہیں کہ
باہر کے دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔ایسے وقت میں جب کہ اتحاد و اتفاق کی
ضرورت ہے۔سر جوڑ کے ملک کو بچانے کی سعی کرنے کی حاجت ہے۔ طاہر القادری
صاحب کینیڈا سے تشریف لا رہے ہیں۔ میں قادری صاحب کی صلاحیتوں کا قائل ہوں
اور ان کے مطالبات کا حامی بھی لیکن نہ تو وہ مردم شناس ہیں نہ وقت
شناس۔عمران خان ہر صحیح بات غلط طریقے سے کہتے اور قادری صاحب ہر صحیح کام
غلط وقت پہ کرتے ہیں۔عمران خان کے کندھوں پہ سوار شیخ رشید ٹرین مارچ کے
چکر میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی بدولت وہ پورے
پاکستان میں ایک دفعہ تو بہہ جا بہہ جا کرا دیں گے۔قاف لیگ والے غریب شامل
باجہ ہیں۔ وہ کسی بھی بارات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک معاہدے
کے تحت پابند ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہ نکالے لیکن ان کے
ہاں معاہدے کوئی قرآن اور حدیث نہیں ہوتے۔ایم کیو ایم البتہ بری پھنسی ہے۔
ان کی جان آئی ایس آئی کے پنجرے میں بند ان دو طوطوں میں ہے۔کراچی میں بد
امنی ہوئی تو طوطے سکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے اور پھر جو کرے گا سکاٹ لینڈ
یارڈ کرے گا۔
محمود اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پہ توجہ تو دلائی ہے لیکن اس بوڑھے پٹھان
کی بات شاید ہی کسی کو سمجھ آئی ہو۔یہ نازک وقت ہے۔حکومت کے لئے تو ہے ہی
ریاست کے لئے بھی۔مل بیٹھیں۔ ایک دوسرے کی بات سنیں۔ ایک قومی ایجنڈا ترتیب
دیں ۔جس طرح آپ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اندر خانے کرپشنچھپانے پہ اتحاد کیا
ہے۔اس اتحاد کو ملک کے لئے سب پارٹیوں تک پھیلا دیں اور اسے خفیہ نہ
رکھیں۔سب کو بلائیں اور انہیں بتائیں کہ حکمران تو میں ہوں لیکن آئیں کسی
ایک ایجنڈے پہ متفق ہو کے ایک کونے سے ملک کی تعمیر شروع کرتے ہیں۔پھر جو
انکار کرے گا ضد کرے گا عوام اسے خود ہی دیکھ لے گی۔پہلے آپ ثابت تو کریں
کہ آپ کو اپنے کاروبار سے زیادہ اپنے ملک اور اس کے بیس کروڑ عوام سے پیار
ہے۔لڑائی ہو گی تو نقصان سب سے زیادہ اقتدار پہ قابض ٹولے کا ہو گا یا ملک
کا۔ لڑائی سے بچنا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ قومی سطح پہ
مذاکرات کا آغاز کریں۔ہر طبقے اور ہر شعبے کے لوگوں سے رہنمائی لیں اور ملک
کی سمت متعین کریں۔ آپ نے کتے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں اور پتھر باندھ دئیے
ہیں۔جن سے لڑنا ہے ان سے مذاکرات اور جن سے مذاکرات کرنے ہیں ان سے
لڑائی۔بھائی بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ ابھی ہمارا ملک مری کی پہاڑیاں اتر
رہا ہے اور سٹئیرنگ کے پیچھے مجھے کوئی شخص نظر نہیں آ رہا۔ایسے میں مستقبل
نوشتہ دیوار ہے۔ مشرف کے کیس میں گنڈھے اور لتر دونوں آپ کا مقدر ہیں آگے
آپ کی مرضی۔ |