خالق انصاری پیغام 1981

معزز قارئین کرام ۔ محترم عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم کا یہ پیغام اگست 1981کو پلندری جیل میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ پیغام برمنگھم میں ڈاکٹر محمد یٰسین انصاری صاحب کے ریکارڈ سے ملا جس کو سن کر برادرم ناصر انصاری نے کئی دن لگا کر حرف بہ حرف ضبط تحریر میں لایا جس کی کمپیوزنگ اور غلطیوں سے پاک عبارت آپ تک پہنچانے میں محمد اقبال دت ایڈووکیٹ ، سردار اعجاز نذیر ایڈووکیٹ اور راقم نے ان کی مدد کی ۔

محترم انصاری صاحب کے اس پیغام کو 1981ء کی تحریک کو سامنے رکھ کر پڑھا جائے جب شہر میں پانی کے ریٹ پانچ روپے سے دس روپے اور دس روپے سے بیس روپے کر دیے گئے تو پوار شہر سراپااحتجاج بن گیا تھاآج بیس سے پچاس روپے بعدازاں سو روپے اور اسی سال دو سو روپے ماہانہ ریٹ مقرر کر دیا گیاتھالیکن کسی حکمران یا سیاسی جماعت کے لیڈر کے کان پر جوں تک نہ رینگی محاذرائے شماری نے اپنا کردارادا کیا پانی کے ریٹ بڑھانے شہر کے پارک بالخصوص بھٹو پارک اور آفتاب پارک کو ختم کرنے مفاد عامہ کی جگہوں کو الاٹ کرنے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنے اور مجموعی طور پر میرپور اور آزادکشمیر کے عوام کا استحصال کرنے کے خلاف آواز بلند کی اور کوٹلی میں محاذ کاایک رہنما چوہدری محمود احمد ہے جس نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایک جائز اور قانونی جدوجہد گزشتہ تین سالوں سے شروع کر رکھی ہے۔ کئی بار گرفتار ہوچکا ہے لیکن عوامی مسائل کے حل اور ایک غیر طبقاتی معاشرہ کے قیام کے لیے برسرپیکار ہے۔

محاذرائے شماری ریاست کی قومی آزادی ، خود مختاری اور اس کے قومی وسائل ڈیمز ، پانی ، مچھلی ، تمام معدنیات، جنگلات وغیرہ کے حصول کے لیے مصروف جدوجہد ہے تاکہ آزادی کے حصول کے بعداور پہلے ان وسائل کو عوامی خوشحالی اور ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکے ۔ اُس معاشرہ میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے مراعات یافتہ طبقہ اپنی غیر قانونی اور غیر آئینی مراعات سے محروم کر دیا جا ئے گا۔
یہ پیغام پڑھ کر آپ بھی آئندہ کے بارے میں کوئی سوچ سوچیں ۔

محمد عظیم دت ایڈووکیٹ
سابق مرکزی صدر
جموں کشمیرمحاذ رائے شماری

میرے پیارے ہم وطنو ، دنیا کی ہر چیز سے مجھے میرے لوگ پیارے ہیں اور دنیا کی ہر قیمتی چیز سے مجھے آزادی عزیز ہے۔ میں انسان کے تمام دکھوں کی وجہ غلامی کو سمجھتا ہوں۔ اس لیے مجھے غلامی سے نفرت ہے۔ غربت ، جہالت اور بیماریاں غلامی کی پیدا کردہ ہیں ۔ ان کے خلاف جہاد کرنا ہرایک مسلمان کا فرض ہے۔ آزادکشمیر کے ان گنت مسائل موجود ہیں اوران مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک وسائل موجود نہ ہوں میرے ملک کے اندر گھنے دیودارکے جنگل موجود ہیں زعفران کے کھیت اورنیلم کی کانیں موجود ہیں ہم پانچ دریاؤں کے مالک ہیں۔ ہمارے ملک کا پانی سند ھ کے ریگستانوں کو سرسبز وشاداب کر رہا ہے۔ منگلا کے مقام پر بجلی کے جرنٹیر زلگے ہوئے ہیں جس سے پاکستان کی صنعتی دنیامیں انقلاب آگیا ہے۔ لیکن یہ وسائل میرے قبضہ میں نہیں ہیں ۔ آزادی کا حاصل ملک کے وسائل پر قبضہ کا دوسرا نام ہے جن سے انسان کو کل کی فکر سے آزادی دلائی جا سکتی ہے سیاسی آزادی کے ساتھ معاشی آزادی حاصل ہو سکتی ہے تب جا کر ایک قومی حکومت ذمہ وار بن جاتی ہے ۔ جو بچوں کو مفت تعلیم دے، کاروبار مہیا کرئے، بے کاری الاؤنس دے۔ لوگوں کومفت علاج مہیا کرئے۔ بڑھاپے کی پنشن دے اور مرنے کے بعد سرکاری اخراجات پر تجہیز و تکفین کرے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ یہ منگلا جھیل ایک لاکھ سے زائد انسان کے اجڑنے کے بعد ان کے اباؤ اجداد کی ہڈیوں پر تعمیر کی گئی ہے آج سے(1981سے) 30برس پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اس وقت لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی تھی ۔ منگلا ڈیم ابھی زیر تعمیر تھا ۔ اگست کا ہی مہینہ تھا پورا مہینہ پورا میرپور اپنے گھروں سے باہر آگیا تھا ۔ چک ہریام سے لیکر میرپور شہرتک انسانوں کے سروں کا ایک سمند ر نظر آتا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان سے پی سی اور ایف سی منگوائی گئی تھی۔ لوگوں کو پیٹا گیا تھا۔ مجھے میرے ساتھیوں سمیت دلائی جیل میں قید کر دیا گیا تھا۔ آج میرے وہ تین ساتھی جن میں بزرگ او ر معمر رہنما بھی شامل تھے۔ خدا کو پیارے ہو چکے ہیں اور میرے دوسرے ساتھی محمد بشیر تبسم صاحب میرے ساتھ پلندری کی جیل میں ہیں ۔ جہاں ہم اس وقت 22قیدی ہیں(1981) اکیس برس پہلے حکومت پاکستان نے متاثرین منگلا ڈیم سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے پانی اور بجلی مفت مہیا کرنے اور آبادکاری کے لئے پلاٹ اور اراضیات دینے کا وعدہ کیا تھا وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے نرخ بڑھتے گئے اور آج میرپور کے لوگوں سے پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں کی نسبت زیادہ ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں ۔ پلاٹوں کی قیمتیں آسمان تک چڑھا دی گئی ہیں میرپور کے لوگوں کی ٹیکس سے کمر یں توڑ دی گئی ہیں ۔ ایک پلاٹ 2700/-روپیہ میں بیچا گیا تھااور جسے لوگوں سے 100روپیہ سے کم میں خریدا گیا تھا۔ آج 30000سے 58000تک بیچا جا رہا ہے۔ قیمتوں کی وصولی سے سکہ شاہی کا دور پیدا کر دیا گیا ہے۔ (یہ حالات 1981کے ہیں) ۔

ایک متاثرہ ڈیم باپ سے 20000فی کنال وصول کیا جا رہا ہے اور اسکا بیٹااگر گھر پر ہے یا جوان ہو کر اب صاحب اولاد ہو چکا ہے تو 40000روپے دیکر پلاٹ لے سکتا ہے اوراگر انگلینڈ میں یا بیرون ملک میں روزگار کی تلاش میں جا چکا ہے تو اس کو50000ترقیاتی اخراجات دینے پڑیں گے اور اسطرح ساٹھ ستر ہزا ر روپے کنال وصول کیا جائے گا۔

اس بیٹے کا کیاقصور تھا جسے اپنا ملک روزی اور روزگار نہ دے سکا جو بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے 7000میل دور پردیس میں چلا گیا یہ لوٹ کھسوٹ میرپور ترقیاتی ادارہ نے شروع کررکھی ہے۔ جسکے خلاف میرپور کے عوام سٹرکوں پر آگئے ہیں اور انہوں نے پر امن طور پر ٹیکسوں کی واپسی اور پلاٹوں کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ میں نے ملک کے سربراہ بریگیڈر حیات خان کو علاوہ وزارت اُمور کشمیر کے ایڈیشنل سیکرٹری کی موجودگی میں بتلایا تھا کہ میرے ہم وطن جو اپنے ملک سے دور بہت دور خون اور پسینے کی کمائی سے رہائش کے لیے پلاٹ لینا چاہتے ہیں ان کے ساتھ اجنبیوں اور غیر ملکیوں کا سا سلوک نہ کیا جائے اسکے نتائج پاکستان کے حق میں نہیں ہونگے ۔ انگلینڈ میں خاص طور پرجہاں انڈین لابی مضبوط ہے۔وہ اس مسئلہ کوکھڑا کر کے پاکستان کے خلاف ایک طوفان کھڑاکر سکتی ہے۔ لیکن غلاموں کی باتیں حکمرانوں کو ہمیشہ کڑوی لگتی رہیں ۔یہ ناز ک مزاج بادشاہ اس وقت سچی بات سننے کی تاب نہ لا سکے اور آج سار آزادکشمیر سراپااحتجاج بن چکاہے۔ میرپور کے پرامن عوام کو جس بے دردی سے پاکستان کے انسپکٹر جنرل پولیس قمر عالم نے تشدد کا نشانہ بنایا اور لاٹھی اور گولی کا جس قدر بے دریغ استعمال کیاگیا اس نے جلیاں والا باغ کے جنرل ڈائر کی یاد تازہ کر دی آج جنرل ڈائر کی روح آکر پوچھ رہی ہے کہ کیا انگریز کی حکومت کے ختم کرنے کا صلہ یہی تھا جسکے خلاف آپ سب باغی بن چکے تھے۔ جنر ل ڈائر تو غیر مسلم تھا وہ عیسائی تھا اور مرنے والے ہندو مسلم اور سکھ تھے۔ لیکن یہ انسپکٹر جنرل پولیس مسلما ن کہلواتا ہے اور مرنے والے بھی مسلمان ہیں لیکن اُسے کیا پتا ہے کہ یزید یت کے ساتھ ہر دور میں حسینیت کا مقابلہ رہا ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفویﷺ سے شرار بولہبی

یہ قمر عالم وہی ہے جس نے گنگا طیارہ کے اغواء کی تحقیقات کے دوران کشمیر کے مایہ ناز فرزندوں ہاشم قریشی ،اشرف قریشی ، امان اﷲ خان ، میرعبد المنان ، میر عبدالقیوم ، جی ایم لون اور محمد مقبول بٹ پر ہر قسم کا تشدد کیا تھا ۔ ان کو الٹا لٹکا یا گیا بجلی کے جھٹکے دیئے گے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ موم کے گرم گرم قطرے ان کے جسم کے نازک حصوں پر گرائے گے ان کے منہ پر گندگی کے تھیلے چڑہائے گئے انہین زہریلے ٹیکے لگائے گئے انہیں کئی کئی ہفتوں تک سونے نہیں دیا گیااور انکے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا کہ یہ بھارت کے ایجنٹ ہیں آج مقبول بٹ دہلی جیل میں سزا ئے موت کا منتظر ہے۔

ان ظالموں نے محاذ کے اُن عظیم قائدین پر اس لیے ظلم ڈھایا تھا تاکہ وہ ملک کی آزادی کا نام لینا چھوڑ دیں لیکن یہ ظلم انکے پایہ استقلال میں لغزش پید ا نہ کر سکا اور آج بھی محاذ کے رہنما شاہی قلعہ لاہور چونا منڈی ، دلائی کیمپ مظفرآباد، کراچی ،پشاور کے ذبح خانوں میں رہنے کے باوجود سرگرم عمل ہیں۔ یہ انسپکٹر جنرل پولیس جب میر عبدالقیوم کے منہ پر تھپڑ مار تا تو منہ سرخ ہو جاتاپھر انتہائی نفرت سے کہتا تھا کہ یہ سارے کشمیری سیب کی طرح سرخ ہوگئے ہیں آج وہ اپنے جرم کااعادہ کرنے کے لیے میرپور میں موجود ہے۔ میرپور میں سینکڑوں انسان گھروں میں زخمی پڑے ہیں درجنوں گولیوں سے زخمی ہو چکے ہیں ۔ جن میں 2کی حالت اب بھی نازک ہے۔ اور دو ہمیشہ کے لیے ٹانگوں سے محروم ہو کراپاہج ہو چکے ہیں آج(18-08-1981)میں تیرہ سالہ بچے نثار احمد شہید کو خود دفن کر کے آیا ہوں جس نے سینے پر سامنے سے گولیاں کھائی تھیں جس کے سینے پر گولیاں لگی ہوئی تھیں یہ بچہ نہ صرف میرپور کی عزت ہے بلکہ پوری کشمیری قوم کا سرمایہ بن چکا ہے۔ آج یہ بچہ حنیف شہید کے پہلو میں دفن ہے ۔ جہاں سے حنیف شہید کی آواز آرہی ہے اور وہ پاکستان کے حکمرانوں سے پوچھ رہا ہے کیاتم لوگ وہی نہیں ہو جو بنگلا دیش بنانے کا موجب بنے تھے۔ کیا تمہیں یاد نہیں رہا جب تم سب بھارتی قید میں پڑے تھے تو تمہیں چھڑانے کے لیے ہم نے انگلینڈ بھارتی سفارت خانے پر قبضہ کیا تھابشارت شہید اور حنیف شہید وہی ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں اور اسلام دوستی کا ثبوت اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دیا تھا ۔ کیا آج اس خون کا یہ صلہ مل رہا ہے کہ تم نے میرے ہی ایک بے گناہ بھائی کا خون بلا وجہ گرایا ہے ۔

آج میرپور جل رہا ہے میرپور پنجاب کنسٹیبلری ، فرنٹیئرکنسٹیبلری اور فوج کے نرغے میں ہے۔ اس وقت سینکڑوں قیدی بناکر میرپور کے مختلف تھانوں اور جیلوں میں بھیج دیے گئے ہیں سینکڑوں قیدی مظفرآباد ، پلندری اور میرپور کے قیدخانوں میں ہیں ہفتوں سے دوکان داروں نے ہڑتال شروع کر رکھی ہے وکلاء نے عدالتوں کا بائی کاٹ کیا ہواہے۔۔ تمام نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے اور میرپور کے لوگ خون کا حساب مانگ رہے ہیں وہ قمر عالم کا سر مانگتے ہیں ۔ وہ زخموں کا معاوضہ طلب کرتے ہیں ایم ڈی اے کو توڑنے پلاٹوں کے نرخ ، پانی اور بجلی کے ریٹ کم کرنے کا مطالبہ کرکے اپنے حقوق مانگتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو :۔ ظالموں نے غلط سوچا تھا کہ میرپور بھیڑوں اور لومڑوں کا شہر ہے لیکن انہیں پتا نہیں تھا کہ یہ شیر ہے جو سویا ہوا ہے۔ یہ میرپور ہی تھا جس نے 1931کی تحریک آزادی میں عدم ادائیگی مالیہ کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا گرم گرم خون دیا تھا یہ میرپور ہی تھا جس نے راجہ محمد اکبرخان ، مولانا سیاکھوی ، الحاج وہاب الدین کو پیدا کیا۔ یہ میرپور ہی ہے جس کاا یک سپوت صوفی محمد زمان ساری عمر اپنے خون سے اس کی آبیاری کر تا رہا اسکا ایک بہادر سپاہی میجر عباس خان منگلا ڈیم کی تحریک میں صف اول میں رہ کر قید و بند کی صعوبت برداشت کر تارہا اور آج یہ میرپور فخر کر سکتا ہے کہ اس کے تمام فرزند تمام اختلافات بھول کراکھٹے ہو چکے ہیں آج برادری ازم کی لعنت بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے میرپور کے لوگ تمام برادریاں اور تمام سیاسی جماعتیں ، مذہبی ، سیاسی ، تجارتی ، مزدوروں اور طلباء تنظیموں سے وابسطہ ہیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اکٹھے ہو گئے ہیں اور یہ جنگ لڑرہے ہیں یہ جنگ صرف میرپور ،پونچھ ، مظفرآباداور کوٹلی کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ آج میرپور کے لوگ مارشل لاء کی موجودگی میں جبکہ سرکار لاٹھی اور گولی کی ہے۔جب کہ پریس آزاد نہیں ہے۔ تحریر اور تقریر پر پابندی ہے۔ پورا پاکستان قبرستان بن چکا ہے۔ میرپور کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور پورے کشمیر کی آزادی تک کے لیے ہر اول دستہ بن گے ہیں ۔

یہ جنگ پورے پاکستان کو بھی آزادی دلائے گی حکمرانوں کا یہ نعرہ ہے کہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ حالانکہ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے مابین جنگ ہے اور آزادکشمیر کے ساتھ نو آبادیاتی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اوراس باعث بھارتی قبضہ کو کشمیر میں مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہماری جنگ جو بھارت کے ساتھ مسلح طور پر جاری ہے اور یہ مسلح جدوجہد ہم نے جاری کر رکھی ہے اور جاری رہے گی پاکستان کے ساتھ ہم جہاد بالسان کرتے رہیں گے اور امربا لمعروف ونہی المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے ۔ اس وقت ہمارا اتحاد ایک مثالی اتحاد ہے۔ ہم ہاتھ کی کڑیوں اور پاؤں کی بیڑیوں کو کاٹ کر آزادی حاصل کرکے دم لیں گے اور قوم کو فکری اور معاشی آزادی دلا کر آرام کریں گے۔ یہ اتحاد ایک مقدس خون کا نتیجہ ہے جو سرزمین میرپور میں گرا ہے نثار شہید نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے میرپور کے حسن اور خوبصورتی میں اضافہ کر دیاہے ۔ نثار شہید کے جنازہ میں سار ا میرپوراُمڈ کر آ گیا تھا یہ خون مردہ قوم کے اندر زندگی پیدا کرچکا ہے۔ ہم اس شہید کو سلام کرتے ہیں ۔سن لو قبر سے آواز آرہی ہے کہ
میرے خاک و خون سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ

میرے ہم وطنو :۔ تم جہاں کہیں بھی ہو وطن میں ہو یا پر دیس میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کو نہ بھولو تم دنیا میں اس وقت سر اُٹھا کر چل سکو گے جب تم ایک آزاد قوم کے فرزند کی حیثیت سے پہنچانے جاؤ گئے میرے ہم وطنو میراسلام قبول کرو۔ اﷲ کی راہ میں جانیں لڑاتے رہواور زندگی کا مقصد عزت کی موت ہے اوریہ شہادت ہی سے حاصل ہوتی ہے ۔ اﷲ پر ایمان لاؤ اور جہاد کو فرض جان کر باہر نکلو۔ (قرآنی آیات)
میں اس وقت پلندری جیل میں ہوں میرے ساتھ اس وقت میرے عزیز عظیم دت ، محمد بشیرتبسم ، چوہدری محمد صادق اور محترم چوہدری نور حسین صاحب بھی بیٹھے ہیں اور ماسٹرمحمد شفیع دت صاحب بھی ہیں میں عبدالخالق انصاری اپنے ہم وطنو سے مخاطب ہو رہا ہوں اس وقت پلندری جیل میں دو درجن کے قریب سیاسی ساتھی مقید ہیں آزاد مسلم کانفرنس کے چاچا علی محمد صاحب ایڈووکیٹ ، چوہدری نور حسین کے بردار اصغر چوہدری خادم حسین صاحب سابق ممبر اسمبلی پیپلز پارٹی کے راہنما چوہدری عبدالمجید صاحب ایڈووکیٹ ، نشاط کاظمی ایڈووکیٹ ، آفتاب مرزا ، نعیم قریشی ہمارے علاوہ محاذ کے چوہدری رفیق صاحب اور چوہدری خالد جوشی کے علاوہ میر خالد محمود ، مرزا ناصر ایڈووکیٹ اور ڈڈیال کے وکلاء منیر چوہدری ، فرید چوہدری ، افسر شاہد، مسعود خالد، اور طالب علم رہنما فاروق شاہد ، مرزا ہدایت اﷲ ایڈووکیٹ و کونسلر یہاں موجود ہیں اور محاذکے بہادر بچے جو دو درجن سے زائد ہیں جن کی عمر 11سے 14سال تک ہیں وہ دیگر محاذکے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ میرپور کی جیل میں مقید ہیں میرپور میں مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والے دوست کیپٹن سرفراز صاحب ، ارشد غازی ، بشارت شیخ کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر چوہدری عبدالخالق اور لبریشن لیگ کے سابق ممبرپنوں خان چوہدری کے علاوہ درجن کے قریب وکلاء مظفرآباد جیل میں ہیں ۔ اس وقت ڈیڑھ سو کے قریب جیلوں میں پڑے ہیں ۔ تھانوں اور عقوبت خانوں میں بھی ان گنت ہیں ۔ بہت سے لاپتہ ہیں۔ آپ دعا کریں کہ اﷲ سب کو ثابت قدم رکھے مرکزی مجلس عمل کے سیکرٹری اور بار ایسوسی ایشن میرپور کے صدر ریاض انقلابی ایڈووکیٹ اس وقت مظفرآباد جیل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہیں تمام ساتھیوں کو میرا سلام ۔

پلندری جیل سے
محمد عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ کا
کشمیر ی قوم کے نام
پیغام
جاری کردہ شعبہ نشر واشاعت جموں کشمیر محاذ رائے شماری (چیئرمین اشفاق ہاشمی )

Mian Shafiq Shafiq
About the Author: Mian Shafiq Shafiq Read More Articles by Mian Shafiq Shafiq: 3 Articles with 2020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.