حکومت وقت کو طالبان قیادت سے مذاکرات کے عمل کو
شروع کیئے کافی عر صہ گزر گیا مگر تا وقتیکہ کچھ حا صل نہ ہوا۔حکومت
وطالبان مذاکرات کو کئی بار دھچکے لگے جس کے نتیجہ میں مذاکراتی عمل بری
طرح متاثرہوا۔اس مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے میں بلا شبہ بیرونی قوتیں بھی
شا مل ہیں جو ہمیشہ سے استحکام پاکستان کی مخالف رہی ہیں۔امریکا کی جا نب
سے طالبان سے مذاکراتی عمل کی ہمیشہ مخالفت کی گئی اور بات یہیں ختم نہیں
ہوئی بلکہ کسی نہ کسی سازش کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل بری طرح
متاثر کیا گیا۔اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں شروع ہونے والے مذاکراتی عمل
کے بعد امریکی نا نئب وزیر خا رجہ نے امریکی افواج کے سربراہ سے ملاقات کی
اور شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ طالبان خود دو گروہوں میں بٹ
چکے ہیں۔ طالبان کا ایک گروہ حکومت سے مزاکرات کا حامی ہے اور اس قتل غارت
سے تنگ آتے ہوئے امن و امان کے قیام کیلئے حکو مت کی جانب سے مذاکرات کی
پیشکش کا خیر مقدم کرتا ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کا دوسرا گروہ حکومت کی
جانب سے مذاکراتی عمل کی مخالفت کر رہا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ
مذاکراتی عمل اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا کیونکہ اگر طالبان کا ایک
گروہ جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا گروہ اسکی مخالفت میں اپنی
کاروائیاں شروع کاردیتا ہے جسکے نتیجہ میں بے اعتمادی کی فضاء جنم لیتی ہے
اور سارا مذاکراتی عمل متاثرہوجاتا ہے۔
یہ تو چند ظاھری اسباب کا طائرانہ جائزہ ہے جو حکومت پاکستان اور طالبان
قیادت کے درمیان مذاکراتی عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔مگر ایک تلخ حقیقت یہ
بھی ہے کہ طالبان اور حکومت میں مذاکرات ایک غیر فطری عمل ہے۔کیونکہ طالبان
روز اول سے دنیا میں قیام خلافت کے لئے کو شاں ہیں اور اپنے زیر حکومت
علاقوں میں نظام خلافت کو قائم کئے ہوئے ہیں اور خلافت کے اس طرز حکومت کو
ساری دنیا میں نا فذ کرنے کیلئے کوشان ہیں۔علا وہ ازیں وہ ملک میں اسلامی
نظام کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔جو کہ اس وقت شاید ممکن نہیں ہے۔اسکے
علاوہ طالبان قیادت اپنے چند ساتھیوں کی رھا ئی کا مطالبہ حکومت سے کر چکی
ہے اور شاید ان قیدیوں کی رھائی حکومتی مفاد مین نہیں۔جبکہ دوسری جانب
حکومت پاکستان جمہوریت کے فروغ و استحکام کے لئے پر عزم ہے اور جمہوریت کی
بقا کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریزاں نہیں اور جمہوریت کے تحفظ
کیلئے ہر حد تک جانے کو تیارہے۔کیونکہ موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی جما
عتیں ہمیشہ جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑتی آرھی ہیں اور ان جماعتوں کے قائدین
نے استحکام جمہوریت کیلئے لا زوال قربانیا ں دے رکھی ہیں۔
اس ساری صورت حال کے پیش نظر اول تو ان دونوں فریقین کے درمیان مذاکراتی
عمل ایک غیر فطری عمل ہے کیونکہ ان دونوں قوتوں کی بنیاد ایک دوسرے کے بر
عکس ہے۔اور یہی بنیادی اختلاف ان دونوں قوتوں کہ آپس مین مل بیٹھنے نہیں دے
رہا۔اور اسی کمزوری کو چند پاکستان مخالف قوتین اپنے ناپاک عزائم کیلئے
استعمال کر رہی ہیں۔
لھذا ان حقائق کے پیش نظر حکومت پاکستان سے التماس ہے کہ اگر وہ واقع ہی
مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہے اور اسکو اسکے منطقی انجام تک پہنچاناچاہتے ہیں
تو پھر اپنے مؤ قف میں کچھ لچک پیدا کریں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد
پر اس عمل کو آگے بڑھائیں۔اوردوسری جانب طالبان قیادت بھی اپنے مؤقف میں
نرمی سے کا م لیتے ہوئے امت مسلمہ اور ملک پاکستان کے وسیع تر مفاد میں
مذاکرات کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں
کیونکہ ان مذاکرات کی کامیابی دونوں فریقین کے اپنے اپنے مؤقف میں نرمی
پیدا کرنے سے مشروط ہے۔اور اگردونوں فریقین اپنے اپنے مؤقف پر بضد رہے تو
پھر حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس معاملہ میں کوئی حتمی حکمت عملی وضع کردے
کیونکہ اب دہشتگردی کا سدباب ناگزیرہو چکا ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں یہ
ملک و ملت مزید کسی بھی قسم کی دہشتگردی کے متحمل نہیں ہو سکتی۔آخر میں اﷲ
سے دعا ہے کہ مالک ارض و سماء اس پاک دھرتی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے،
آمین۔ |