شیخ الاسلام ، مجتہدالعصر پروفیسر ڈاکٹر علّامہ طاہر
القادری ایک دفعہ پھر یہ کہتے ہوہء کینیڈا سے تشریف لا رہے ہیں کہ
ساقی میرے خلوص کی شدت کو دیکھنا
پھر آ گیا ہوں گردشِ دَوراں کو ٹال کے
پچھلی بار جب وہ پاکستان تشریف لائے تو مقصد تب بھی انقلاب تھا لیکن اُن کے
ساتھ ’’ہتھ‘‘ ہو گیا ۔ایم کیو ایم عین وقت پر ساتھ چھوڑ گئی ، تحریکِ انصاف
نے سرے سے’’ لفٹ‘‘ہی نہ کروائی اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی وقت آنے پر ’’جھنڈی‘‘
کرا دی لیکن سب سے بڑا دھوکا تو پیپلز پارٹی نے دیا ۔ عین اُس وقت جب اسلام
آباد میں تخت گرانے اور تاج اچھالنے کا سمے قریب آن لگا تو پیپلز پارٹی کے
اکابرین ’’کنٹینر‘‘ میں آ دھمکے ۔مفاہمت کی یاداشت پر دستخط ہوئے ، کچھ
زبانی وعدے وعید بھی ہوئے اور مُرشد نے دھرنا ختم کر دیا ۔پھر پیپلز پارٹی
حسبِ عادت صاف مُکر گئی اور مُرشد کو کینیڈا لوٹنا پڑا ۔لیکن اب کی باروہ
بھرپور تیاریوں کے ساتھ آ رہے ہیں۔اِس دفعہ انقلابی فوج کا میمنہ چوہدری
برادران سنبھالیں گے اور میسرہ شیخ رشید ۔فوج کے وسطی حصّے کی کمان کمانڈو
پرویز مشرف کے پاس ہو گی کیونکہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق پندرہ
دِن بعد وہ ہر لحاظ سے آزاد و خود مختار ہونگے ۔ویسے سندھ ہائی کورٹ کے
فیصلے پر بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ
پرویز مشرف کے ساتھ ’’ ہَتھ‘‘ ہو گیا ہے کیونکہ چودہ دِنوں بعد حکومت سپریم
کورٹ میں اپیل کر دے گی اور پرویز مشرف طبلے کی تھاپ پر یہ گاتے رہ جائیں
گے’’میں کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کِس کے لیے‘‘۔سندھ ہائی کورٹ
کے فیصلے پر سب سے خوبصورت تبصرہ ڈاکٹر خالد رانجھا نے یہ کیا کہ’’یہ فیصلہ
He ہے نہ She ۔
مُرشد کی ریزرو فوج کی کمان ایم کیو ایم کے سپرد ہو گی اورعدلیہ کے ’’زباں
بندی‘‘ کے فیصلے کے بعد مبشر لقمان نے بھی ’’اینکری‘‘ چھوڑ کر شیخ الاسلام
کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔یقیناََ ’’لمبی لمبی چھوڑنے‘‘ کا شعبہ
مبشر لقمان ہی کے سپرد ہوگا البتہ تحریکِ انصاف اب بھی دور دور ہی ہے ۔ وجہ
شاید یہ کہ عمران خاں اپنی ’’سونامی‘‘ کے ذریعے انقلاب بپا کرنا چاہتے ہیں
جو تباہی و بربادی کی علامت ہے جبکہ مُرشد کوئی پتّا تک ہلائے بغیر
’’محبتوں بھرے‘‘ انقلاب کے داعی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کہیں
’’دو ملّاؤں میں مُرغی حرام‘‘ نہ ہو جائے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ کپتان
صاحب اور مولانا صاحب ، دونوں ہی اپنے آپ کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے فِٹ بلکہ
’’سُپر فِٹ‘‘ سمجھتے ہیں۔ویسے اگر تحریکِ انصاف بھی اِس عظیم الشان انقلابی
تحریک میں شامل ہو جاتی تو کہا جا سکتا تھا کہ پرویز مشرف کے سارے سابقہ
ساتھیوں کا ’’اکَٹھ‘‘ ہو گیا ہے ۔اگر ایسا ہو جاتا توپھر کتنا مزہ آتا جب
ہم اپنے ’’مسلمہ رہنماؤں‘‘ عمران خاں ، مولانا طاہر القادری ، چوہدری
برادران ، پرویز مشرف اور شیخ رشید کی قیادت میں محوِ سفرِ انقلاب ہوتے ۔مبشر
لقمان ہاتھ میں ’’بھونپو‘‘ پکڑے نعرے لگواتے اور ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر ’’آوے
ای آوے اور جاوے ای جاوے‘‘ جیسے نعرے لگاتے۔اب ہمیں 20 جون کو شیخ صاحب کے’’
تاریخی‘‘ ٹرین مارچ ، 22 جون کو بہاولپور میں عمران خاں کی سونامی اور 23
جون کو مولانا طاہر القادری کے انقلابی مارچ میں’’وَکھو وَکھ‘‘ شریک ہونا
پڑے گا ۔ابھی تک تو ہمارا پختہ ارادہ ایسا ہی کرنے کا ہے لیکن کبھی کبھی
اندر بیٹھا شیطان ہمیں ورغلاتا رہتا ہے کہ 29 جون سے رمضان شریف شروع ہو
رہا ہے ، اگر ہم شوقِ انقلاب میں نکل پڑے تو مارے تھکن کے ہمارا ــ’’کَکھ‘‘
نہیں رہے گا اور ہم رمضان شریف کی برکتیں سمیٹنے سے محروم رہ جائیں گے۔اِس
لیے یہ تجویز بھی زیرِ غور ہے کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ہی ’’انقلاب زندہ
باد‘‘ کے نعرے لگاتے رہیں اور’’ ایک پنتھ ، دو کاج‘‘ کے مصداق رمضان شریف
کے لیے اپنی توانائیاں بھی بچا لیں اور انقلابی مارچ میں شرکت کا فرضِ
منصبی بھی ادا کر لیں۔جن خواتین و حضرات کو ہماری اِس تجویز سے اتفاق ہو ،
وہ شوق سے ہماری پیروی کر سکتے ہیں ، ہمیں کوئی اعتراض ہو گا نہ ہمارے ’’رہنماؤں‘‘
کو۔
شیخ الاسلام نے فرمایا’’میں 23 جون کو 20 کروڑ عوام کی خاطر آ رہا ہوں ۔فوج
اسلام آباد کی سکیورٹی سنبھالے کیونکہ حکومت کے طالبان سے رابطے ہیں اور وہ
دہشت گردی کروا سکتی ہے۔ اگر مجھے نقصان پہنچا تو میاں نواز شریف ، میاں
شہباز شریف ، خواجہ آصف ،خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید ، عابد شیر علی اور
رانا ثنا اﷲ ذمہ دار ہونگے‘‘۔دروغ بَر گردنِ راوی چوہدری نثار احمد اِس
طویل فہرست میں اپنا نام نہ پا کر غصّے سے کھول رہے ہیں اور یہ کہتے پائے
گئے ہیں کہ کیا مولانا صاحب کے نزدیک وہ ’’خواجگان‘‘ سے کم طاقتور ہیں جو
اُن کا نام اِس فہرست میں شامل نہیں؟۔بہرحال یہ معاملہ نواز لیگ جانے یا
مولانا طاہر القادری ، ہمیں اِس میں سَر کھپانے کی ضرورت نہیں البتہ ہم یہ
ضرور کہنا چاہیں گے کہ طالبان تو ملک کے چپّے چپّے میں موجود ہیں اِس لیے
شیخ الاسلام کی سکیورٹی کے لیے پورا ملک ہی فوج کے سپرد کر دیا جائے اور جب
فوج کو ایک دفعہ تکلیف دے ہی دی گئی تو پھر اِس میں بھی کو ئی حرج نہیں کہ
دَس بارہ سال کے لیے ملکی انتظام و انصرام فوج کے سپرد کر دیا جائے ،ہم
اپنے’’ انقلاب ‘‘کا شوق دَس ، بارہ سال بعد پورا کر لیں گے ۔حکومت تو کسی
کی حفاظت سے پہلے ہی قاصر ہے اور کسی بھی سانحے پر الزام تراشیوں کے ذریعے
دامن چھڑانے کی کوشش کرتی ہے ۔سانحہ کراچی ایئر پورٹ میں سات مزدوروں کے
قتلِ عمد کا مقدمہ پتہ نہیں تاریخ کِس کے خلاف درج کرے گی ۔یہ وہی مزدور
تھے جو جان بچانے کی خاطر ایک کمرے میں گھسے اور دہکتی ’’نارِ نمرود‘‘ میں
زندہ رہنے کی جد و جہد کرتے ہوئے گھنٹوں زندہ بھی رہے ۔فیضان نامی ایک شخص
تو دوپہر دو بجے تک مدد کی اپیلیں کرتا رہا لیکن دہشت گردوں کا صفایا کرنے
کا جشن مناتے حکمرانوں کو خبر تک نہ ہوئی کہ کوئی مجبور زندہ جَل رہا
ہے۔لیکن شیخ الاسلام مزدور ہیں نہ مجبور ۔ اُن کی خاطر تو ایسے بیس کروڑ
مزدور بھی قُربان۔ مُرشد جب پچھلی بار انقلاب لانے کے لیے آئے تھے تو مجمع
30 لاکھ کا تھا ، اب کی بار 30 کروڑ کا ہوتا اگر ہماری آبادی 20 کروڑ نہ
ہوتی۔ اتنے بڑے مجمعے کو کنٹرول کرنا حکومت کے بَس کا روگ نہیں اِس لیے ملک
کو فوج کے حوالے کر دینا ہی بہتر ہے ۔
اُدھر شیخ رشید احمد 20 جون کو تاریخی ٹرین مارچ کر رہے ہیں جبکہ خواجہ سعد
رفیق ’’ایویں خوامخواہ‘‘ ٹانگ اڑائے بیٹھے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ 65 افراد کے
لیے500 مسافروں کو وقفِ مصیبت نہیں کیا جا سکتا ۔اگر شیخ صاحب کو ٹرین مارچ
کا اتنا ہی شوق ہے تو پوری سپیشل ٹرین بُک کروائیں ۔شیخ رشید کہتے ہیں کہ
اگر اُن کے پاس کروڑوں روپے ہوتے تو وہ عمران خاں کے جلسوں میں تقریریں
کرنے کی بجائے خود ہی بڑے بڑے جلسوں کا انتظام کر لیتے۔گویا شیخ صاحب نے
بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیاکہ عمران خاں صاحب پیسے کے زور پر اتنے بڑے بڑے
جلسے کرتے ہیں ۔شاید اسی لیے جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ شیخ رشید صاحب ہمیں
پھنسا کر خود کھسک جاتے ہیں ۔ شیخ رشید نے یہ کہا ہے ’’ہم خود کُش سیاستدان
ہیں اور اپنا تابوت کندھے پر لیے پھرتے ہیں ‘‘۔شیخ صاحب تو بقول جاوید
ہاشمی موقع پا کر کھِسک لیں گے اور تابوت پتہ نہیں کِس کے حصّے میں آئے
گااور کِس کی سیاسی موت ہو گی ۔شیخ صاحب کے’’ عظیم الشان‘‘ ٹرین مارچ کا
استقبال سابقہ پرائم منسٹر چوہدری شجاعت اور سابقہ ڈپٹی پرائم منسٹر چوہدری
پرویز الٰہی گجرات میں کر رہے ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ
اِس ٹرین مارچ میں اُن کے لوگ بھی شامل ہیں ۔اب پتہ نہیں اِن 68 ’’ٹرین
مارچیوں‘‘ میں قاف لیگ کے کتنے ہیں اور عوامی لیگ کے کتنے؟۔ |