اور حملہ ہو گیا

پاکستان آج کل حملوں کی زد میں ہے۔ صبح حملہ شام حملہ۔ دن میں کئی کئی بار بریکنگ نیوز چلتی ہیں کہ طالبان نے فلاں جگہ حملہ کر دیا۔ طالبان کے علاوہ کراچی میں کئی گروپ برسر پیکار ہیں۔ کبھی کسی نے حملہ کیا تو کبھی کسی نے۔ مگر اب حملوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔ پہلے بموں سے حملے ہوتے تھے اب بموں کے ساتھ ساتھ لفظوں کے حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ایک میڈیا گروپ کے کچھ دانشوروں نے فوج پر خودکش حملہ کیا۔ فوج کا نقصان تو کیا ہونا تھا میڈیا گروپ شدید زخمی پایا جاتا ہے۔ الطاف حسین کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں مل رہا۔ ایم کیو ایم کے کارکن اور لیڈر چوہدری نثار پر حملہ آور ہیں مگر چوہدری نثار فی الحال خود کو بچانے میں کامیاب ہیں۔

عمران خان نے موجودہ حکومت اور عدلیہ کے ایک سابق چیف جسٹس پر زور دار حملہ کیا ہے۔ اس حملے میں ان کے ساتھ طاہر القادری اور جماعت اسلامی بھی دے رہے ہیں۔ عام طور پر عدلیہ توہین عدالت کی آڑ میں ہر خامی کے باوجود خود کو بچا لیتی ہے۔ ارسلان افتخار کو جس طرح حکومتی حملے سے شاندار انداز میں بچایا گیا وہ اس چیز کی زندہ مثال ہے اور عدلیہ کے ماتھے کا بدنما داغ۔ عدلیہ نے فوج پر حملہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوج عدل کے دائرے میں کیوں نہیں؟ عدلیہ سچ کہتی ہے اس ملک میں کوئی غیر ضروری مقدس نہیں۔ فوج اور عدلیہ بھی نہیں۔ وہ فوجی جن کے بارے میں شکایت ہے قابل احتساب ہیں او رجو جج کسی غلط کام یا غلط فیصلوں میں ملوث نظر آئیں ان کا احتساب نہ ہونا بھی انصاف کا قتل ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی حملوں کی۔ کیا کہوں چند دن مجھ جیسے بے ضرر اور سادہ دل پر بھی حملہ ہو گیا۔

انگریز لوگ کہتے ہیں کہ ہر وقت اپنی کار کو صاف اور چمکا کر رکھنے والا ذہنی مریض ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے ذہنی طور پر مریض نہیں بلکہ توانا اور صحت مند محسوس کریں۔ اس لئے گاڑی صاف ہی نہیں کرتا۔ کچھ رہائش بھی لاہور کے مضافات میں ایک گاؤں جیسی جگہ پر ہے۔ وہاں دھونے اور صاف کرنے سے بھی گاڑی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح دلدلی اور گندی گلیوں میں رہنے والے کچی آبادیوں کے بچے جتنے بھی بن سج لیں کچھ بھی پہن لیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ بیچارے حلئے سے گندے بچے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح میری گاڑی کا حال ہے۔ ایک تو میرے گھر میں گیراج نہیں۔ کھلی جگہ کھڑی رہتی ہے۔ پرانی گاڑی ہے۔ بڑھاپا تو اپنے طور پر خوبصورتی کا دشمن ہے۔ اوپر سے اڑا ہوا رنگ۔ دھلی ہوئی گاڑی بمشکل ایک آدھ میل چل کر بھی ایسی ہو جاتی ہے جیسے دھلنے سے پہلے تھی۔

مجھے پودوں پر ڈالنے کے لئے سبز رنگ کی جالی کی ضرورت تھی۔ ملتان روڈ پر ایک دکان سے میں نے وہ جالی خریدی۔ گاڑی میں رکھی اور واپس جانے کے لئے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا۔ دروازہ کھولنا چاہتا تھا تو دیکھا ایک خاتون جو اوپر سے نیچے تک برقع میں ملبوس تھیں چہرے پر صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں، تیزی سے آ رہی ہیں اور میری گاڑی کو بری طرح گھور رہی تھیں۔ میں دروازہ کھولتا تو انہیں لگنے کا ڈر تھا۔ ویسے بھی خاتون تھیں احتراماً چند سیکنڈ ان کے گزرنے کا انتظار کیا وہ گزریں تو گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔ اچانک دوسرے دروازے کے شیشے پر کسی نے دستک دی۔ میں نے اس طرف دیکھا وہی برقع پوش خاتون گاڑی کے ساتھ لگی کھڑی تھیں۔ انہوں نے اشارے سے شیشہ نیچے کرنے کا حکم دیا۔

میں نے شیشہ نیچے کیا اور بولا۔ جی فرمائیں۔۔۔ کہیں جاب کرتے ہیں۔۔ جی ہاں استاد ہوں۔۔۔ ماشاء اﷲ۔ کس سکول میں پڑھاتے ہیں۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔۔۔ پروفیسر ہو ۔۔۔ جی۔۔۔ میں نے جواب دیا۔۔۔ ایک بات کہہ رہی ہوں امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔ جی۔۔۔ لباس تو آپ کا بہت اچھا ہے۔ ویسے بھی معقول آدمی دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ گاڑی آپ کی۔۔۔ اس نے گاڑی پر بھرپور نظر ڈالتے ہوئے آخری فقرہ کہا ’’اسے صاف بھی کر لیا کریں۔‘‘

حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ میں سنبھل ہی نہ پایا۔ گاڑی کے شیشے سے پیچھے دیکھا تو خاتون بہت تیزی سے کوئی سو گز دور بہت تیزی سے چلی جا رہی تھی۔ طالبان تو چوروں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں مگر اتنی جرأت، اتنی دلیری اور اتنی بے باکی سے حملہ آور ہونا واقع بہت بڑا کام ہے۔ اس حملے سے مجھے افسوس نہیں بلکہ خوشی ہوئی۔ دنیا بھر میں ایک تاثر ہے اور اس تاثر کو پھیلانے میں ہمارے اپنے براول دستے کی طرح کام کرتے ہیں کہ نقاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پردہ کرنے والی خواتین میں کوئی حسِ مزاح نہیں ہوتی۔ وہ سوچ اور سمجھ سے عاری ہوتی ہیں۔ مجھ پر ہونے والا حملہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ معاشرتی اصلاح کا ایک مضبوط پہلو یہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی چیز کو غلط سمجھیں تو اس کا اظہار بھی کریں اور یہی کام اس خاتون نے بھی کیا۔

میں ذاتی طور پر سخت پردے کا حامی نہیں اور نہ ہی میرے گھر میں اس طرح کا اہتمام ہے مگر پردہ حیا کی علامت ہے اور حیا عورت کا زیور ہے۔ حیا والی عورت جہاں بھی ہو دوسروں کے لئے سراپا ہدایت ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آخر میں اسلامی تاریخ کی سب سے باوقار، عظیم، نیک دل، صوفی اور قلندر خاتون حضرت رابعہ بصریؒ نے جس دلیری سے معاشرے میں اصلاح کا کام کیا اور رشد و ہدایت کی شمعیں روشن کیں وہ یقینا ہماری خواتین کے لئے ایک مشعلِ راہ ہے۔ ضرورت تو صرف اتنی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور نظام زندگی چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے ساتھ اس قابل ہو جائے کہ لوگوں کو اسلامی مساوات، بھائی چارے، حب الوطنی اور پاکستانیت کے جذبوں سے روشناس کر دے۔ افسوس اس وقت ہماری نئی نسل تعصب، نفرت اور تنگ نظری کا شکار ہے اور اس صورتحال کے زیادہ ذمہ دار ہمارے سیاستدان ہیں جو اپنے مفادات سے ہٹ کر نہ کچھ سوچتے ہیں اور نہ سوچنے کے قابل ہیں مگر امید ہے بہتری آئے گی اور اس وقت تک ہمیں اپنے اپنے حصے کا دیا روشن رکھنا ہے۔

کام لکھ چکا تو پتہ چلا کہ مجھ پر تو خوشگوار حملہ ہوا تھا مگر برادرم اصغر عباس پر ایک ناخوشگوار حملہ ہو گیا ہے۔ سادہ دل اصغر عباس نے حملہ آوروں کو پڑھا لکھا بتایا اور افسوس کا اظہار کیا کہ پڑھے لکھے لوگ بھی دشنام طرازی کرتے رہے۔ برادرم! تعلیم ایک طرز زندگی ہے۔ وہ عمل جو آپ کو اٹھنا، بیٹھنا، بولنا، کھانا، پینا، لوگوں سے حسن سلوک کرنا سکھاتا ہے۔ تعلیم ڈگریوں کی محتاج نہیں۔ بیسیوں ڈگریاں رکھنے والا شخص بھی اگر اچھی زندگی جینے کا ہنر نہیں جانتا تو وہ جاہل ہے اور میرا مشورہ ہے کہ جاہلوں کی باتوں پر دل گرفتہ نہیں ہوتے۔ حفیظ جالندھری نے کہا ہے:
خبثِ دروں دکھا دیا دہنِ غلیظ نے
کچھ نہ کہا حفیظ نے ہنسا اور مسکرا دیا

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447429 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More