جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے اور جب
جنگل کے نصیب میں ذِلّت اور بدنامی لکھ دی جاتی ہے تب اُس کا ذکر اِنسانوں
کی گفتگو میں ہونے لگتا ہے! کراچی ہو یا کوئی اور شہر، جب بھی حالات کی
خرابی کا ذِکر چِھڑتا ہے تب یہ کہا جاتا ہے کہ جنگل کا قانون نافذ ہوگیا
ہے۔ کبھی آپ نے جنگل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے؟ ہم شہر کے ماحول کی
خرابی کو جنگل کے ماحول سے مشابہ تو قرار دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ
اِس کے نتیجے میں بے چارے جنگل اور اہلِ جنگل کے دِل پر کیا گزرتی ہوگی!
جنگل، ظاہر ہے، جنگل ہے۔ وہ ایک الگ دنیا ہے۔ اُس دنیا کا سبھی کچھ کسی اور
طرح کا ہے، منفرد ہے۔ شہروں نے جو شاندار ’’ترقی‘‘ کی ہے اُس کی تو ابھی تک
جنگل کے ماحول کو ہوا بھی نہیں لگی۔ جو لوگ شہروں کے ماحول کو جنگل کے
ماحول سے مشابہ قرار دیتے ہیں اُنہیں اپنی سوچ کے محدود ہونے کا ماتم کرنا
چاہیے۔ جنگل کے جانور اب بھی آٹھ دس ہزار سال پہلے کے ماحول میں جی رہے
ہیں۔
جنگلوں میں آج بھی بہت کچھ ایسا ہے جس پر جانوروں کو شرمندہ ہونا چاہیے اور
ایسا بہت کچھ نہیں ہے جن کے ہونے ہی پر ’’ترقی یافتہ‘‘ اور ’’مہذب‘‘
ٹھہرائے جانے کا مدار ہے۔ ہزاروں برس کے عمل میں اِنسان کہیں سے کہیں پہنچ
گیا ہے اور جانور وہیں کے وہیں رہ گئے ہیں۔ جانوروں کی دُنیا میں ایسا ہے
ہی کیا جس کی بنیاد پر وہ فخر کریں؟ اِنسان چار پانچ ہزار سال پہلے جس
دُنیا میں رہتا تھا وہ اب ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ملے بھی کیسے، اِنسان ہر
نقشِ کہن کو مٹانے کی بھرپور کوشش کرتا آیا ہے۔ ہزاروں سال کیا، سو سال
پہلے کی دنیا بھی تلاش کیجیے تو دِماغ کا چُولیں ہِلنے لگتی ہیں۔ اور دوسری
طرف جانور ہیں کہ قدامت پرستی ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اُن کی یہی سوچ بعض
انسانوں میں بھی در آئی ہے۔ اِس پر اُن انسانوں کو جتنا ’’فخر‘‘ کرنا چاہیے
اُس سے کہیں زیادہ جانوروں کو شرمندہ ہونا چاہیے کیونکہ اُن کی قدامت پرستی
تو فطری، خالص اور بے لوث ہے جس کا کسی غرض سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں!
معاشرے میں جنگل کا قانون نافذ ہونے کا رونا رونے والے اپنی سوچ سے رجوع
کریں۔ جنگل میں ہر معاملہ چند طے شدہ اور مُسلّمہ اُصولوں کا پابند ہوا
کرتا ہے۔ اور اِدھر اِنسان آزاد پیدا ہوا ہے اور مرتے دم تک آزاد ہی رہتا
ہے۔ قدرت نے اب تک اِنسانوں کو کسی پابندی کی توفیق نہیں بخشی!
جنگل میں غار کم کم پائے جاتے ہیں مگر درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بھی
جانور غار کے زمانے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی کہ
پیٹ بھر جائے تو کوئی کسی کو خُوں خوار نظروں سے نہ دیکھے؟ پیٹ بھر چکا ہو
تو شیر اپنے سامنے گھاس چَرتے ہوئے ہرن کی طرف آنکھ اُٹھاکر دیکھنا گوارا
نہیں کرتا۔
اِنسان کو اﷲ نے ’’دُور اندیش‘‘ ذہن سے نوازا ہے۔ وہ آج سے زیادہ گزرے ہوئے
اور آنے والے کل میں رہتا ہے، بالخصوص آنے والے کل میں۔ جنگل میں کوئی اپنی
ضرورت سے بڑھ کر جمع نہیں کرتا، بلکہ جمع کرتا ہی نہیں۔ جانور یومیہ بُنیاد
پر رزق تلاش کرتے ہیں۔ اُنہیں صرف مَشقّت سے پیٹ بھرنا آتا ہے۔ کسی کو اِس
بات سے غرض نہیں ہوتی کہ کِسی کے پاس کیا ہے۔ بوٹیاں نوچنے کا فن تو
جانوروں کی سَرشت میں ہوتا ہے مگر بوٹیوں پر لڑنا اُنہیں کم کم آتا ہے۔
شہروں میں اِنسانوں کے درمیان پلنے والی بِلّیاں بھی اب تک اپنی ’’جنگلیت‘‘
نہیں بُھول سکیں۔ اُن کے سامنے بوٹی ڈالیے تو بوٹی اُس کی جس نے جھپٹ لی۔
اور پھر وہ اطمینان سے بوٹی کے مزے اُڑاتی ہے اور دوسری اُس کا منہ تکتی
رہتی ہیں۔ افسوس کہ ایک زمانے سے اِنسانوں کے درمیان رہ کر بھی بِلّیوں نے
کچھ نہیں سیکھا!
جنگل میں کوئی کوئی کسی کے حق پر ڈاکا نہیں ڈالتا۔ کسی جانور کو کسی کے
پلاٹ یعنی ٹِھکانے پر قبضہ کرنے کی فکر لاحق نہیں رہتی۔ ذرا ’’قدامت
پرستی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ رہنے کے لیے جتنی جگہ درکار ہوتی ہے بس اُتنی ہی
جگہ گھیرتے ہیں! اِس قناعت پسندی ہی کے باعث جانور اِتنے پیچھے رہ گئے ہیں
کہ اُن میں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کا ’’ہنر‘‘ پایا ہی نہیں جاتا۔
اور ڈِھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے کِسی جانور کو اِس ’’خامی‘‘ پر کبھی
شرمندہ ہوتے نہیں دیکھا!
جنگل میں بچے ماں باپ کا کہنا مانتے ہیں یعنی شام کا دُھندلکا پھیلتے ہی
اپنے اپنے ٹھکانوں اور آشیانوں میں بند ہوجاتے ہیں۔ جنگل میں کسی جانور کا
بچہ رات کے تین فون پر فُضول گفتگو کرتا ہوا نہیں ملے گا!
اِنسانوں نے پانچ چھ ہزار سال میں ایسے ایسے ٹرینڈز دیئے ہیں کہ جانور غور
کریں تو جانور نہ رہیں، تجزیہ کار ہوجائیں۔ (اِس جُملے پر ہم شرمندہ ہیں،
جانوروں سے!) جنگل میں رُجحان ساز روےّے پائے ہی نہیں جاتے۔ بھتہ خوری ہے
نہ اغوا برائے تاوان۔ کوئی جانور کیسا ہی خُوں خوار ہو، کرائے کے قاتل کی
حیثیت سے کام نہیں کرتا۔ جانوروں میں اب تک سیاسی شعور پیدا نہیں ہوسکا۔
جنگل میں فرشتوں کا گزر نہیں کیونکہ وہاں سیاسی سرگرمیاں ہیں نہ جمہوری
ادارے۔ لے دے کے بس ایک بندر میں ذرا سی ’’جموریت‘‘ پائی جاتی ہے کیونکہ
شہر پہنچ کر وہ مداری کا ’’بچہ جَمورا‘‘ بن جاتا ہے! جنگل کے جانوروں کو اب
تک معلوم نہیں الیکشن کیا ہوتے ہیں اور کیسے چُرائے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ
جمہوریت کے نام پر آمریت کیسے متعارف کرائی اور پروان چڑھائی جاتی ہے۔ شیر
جنگل کا بادشاہ ہے مگر اُسے اب تک پردہ داری نہیں آئی۔ اپنی چودھراہٹ بے
پردہ ہوکر نافذ کرتا ہے، جمہوریت وغیرہ کا سہارا لے کر اُسے دِل کش نہیں
بناتا!
جانوروں کی ’’بے شعوری‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اُن میں مُنافقت ہوتی ہے نہ
پوشیدہ عزائم۔ محض خوشامد سے کام نہیں چلتا۔ چاپلوسی کرنے والوں کو پیٹ بھر
نہیں ملتا یعنی کام سب کو کرنا پڑتا ہے۔ گویا جنگل میں امریکن سسٹم کے تحت
زندگی بسر کی جاتی ہے۔ (ہمیں اندازہ نہیں کہ امریکیوں سے تشبیہ دیئے جانے
پر جانور متعرض ہوں گے یا مطمئن!)
جنگل میں چونکہ اب تک تعلیم دینے کے لیے ادارے بنانے کا رواج پروان نہیں
چڑھا اِس لیے وہاں دُہرا معیار بھی نہیں پایا جاتا۔ کوئی جانور انگریزی میں
گِٹ پِٹ کرکے ’’ماں بولی‘‘ میں بات کرنے والوں کا تمسخر نہیں اُڑاتا۔ جب
ذہنی سطح اِتنی ’’پست‘‘ ہو تو جانور کیا خاک ترقی کریں گے؟ یہی سبب ہے کہ
وہ اب تک ’’ترقی پاس‘‘ قسم کی زندگی بسر کر رہے ہیں!
جانوروں نے اِنسانوں کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ پیدا کیا ہے۔ وہ خود کو
بدلتے ہیں نہ ماحول بدلنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے کی
دُنیا کو اصل حالت میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بے چارے اِنسان رات
دن کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں۔ وہ حالات کو قبول بھی نہیں
کرسکے اور بدل بھی نہیں پائے۔ جانوروں نے خود کو بدلنے کی کوشش ہی نہیں اِس
لیے ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘ جیسی کیفیت سے اب تک محفوظ رہے ہیں!
خود نہ بدل کر اور حالات سے مطمئن رہ کر جانوروں نے اِنسان کے لیے شدید
مخمصہ پیدا کیا ہے۔
اِنسان آج بھی اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کی کچھار میں ہے۔ علم و فن کی
بلندیوں کو چُھوکر بھی وہ جہالت سے غار سے باہر نہیں آسکا۔ جُھوٹی اَنا،
مفاد پرستی، مَکّاری، چَھل کَپٹ، لالچ، خود غرضی، بے حِسی، بے دِلی، بے
دماغی، بے نگاہی اور دوسرے کِتنے ہی گڑھے ہیں جن میں وہ آج بھی گِرا ہوا
ہے۔ پانچ ہزار سال کی معلوم دانش بھی اِنسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
اچھا تھا کہ اِنسان جنگل کا بغور مُشاہدہ کرکے جانوروں ہی سے کچھ سیکھ
لیتا۔ اِس دُنیا سے بے سیکھا تو نہ جاتا۔
اُمید ہے کہ اِن گزارشات کی روشنی میں وہ لوگ اپنی سوچ سے رجوع کریں گے جو
بات بات پر کہتے ہیں کہ معاشرہ جنگل کے قانون کے مطابق چل رہا ہے یا چلایا
جارہا ہے۔ بے زبان جانوروں پر اِتنا بڑا بہتان تراشنا ہم اِنسانوں کو زیبا
نہیں! |