نپولین بونا پارٹ کیا خوب کہا ہے کہ ہزار تلواروں کے
مقابلے میں چار مخالف اخباروں سے زیادہ ڈرنا چاہیے!
اگر نپولین آج ہوتا (یا ہمارا زمانہ ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ اَیّام تو‘‘
کے اُصول کی بنیاد پر نپولین کو مل جائے) تو وہ اِسی بات کو کچھ یوں کہتا
کہ ہزار ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں تین چار ایسے نیوز چینلز سے زیادہ
ڈرنا چاہیے جو کئی ہفتوں کا راشن پانی لیکر مخالفت کے محاذ پر ڈٹ گئے ہوں!
نپولین کا قول پاکستانی معاشرے پر ایسا صادق آتا ہے کہ لگتا ہے اُس نے
پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور اِس خواب میں اُسے صرف میڈیا کی کارستانیاں
یاد رہ گئی تھیں! ایک زمانے سے ہمارے ہاں میڈیا میں مخالفت بلکہ بے سَر پیر
کی مخالفت ’’پیشہ ورانہ ایمانیات‘‘ کا حصہ ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوئی
اخبار اگر رُوٹھ جاتا تھا تو اُسے منانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا
تھا۔ اشتہارات سمیت خدا جانے کیا کیا دے کر منانا پڑتا تھا۔ کسی نے کہا ہے
کہ رُوٹھے رب کو منانا آسان ہے، رُوٹھے یار کو منانا مشکل ہے۔ ہم نے تو یہ
دیکھا ہے کہ رُوٹھا یار بھی دو چار تحائف میں مَن جاتا ہے مگر میڈیا والے
تیوری پر بَل چڑھالیں تو اِس بَل کو نکالنے میں فریقِ ثانی کے کَس بَل نکل
جاتے ہیں! اگر حکومت میڈیا کو منانے کے مِشن پر نکلے تو اُنہیں خوب نوازتی
ہے اور وہ بھی عوام کے خرچ پر۔ سیدھی سی بات ہے، حکمرانوں کو کو ن سا اپنی
جیب سے کچھ دینا ہوتا ہے؟
وہ زمانے ہوا ہوئے جب حزبِ اختلاف سڑک پر آکر معاملات کو اپنے ہاتھ میں
لینے یعنی بگاڑنے کا کریڈٹ لیا کرتی تھی۔ وہ سادہ زمانے تھے۔ ذرا سا شور
مچایا اور بات بن گئی۔ بعد میں یہ ہونے لگا کہ یار لوگ اختلاف کی ہانڈی میں
تھوڑا سا صحافت کا تڑکا لگانے لگے۔ جب حزبِ اختلاف تھوڑا سا جوش دکھاتی تھی
تو صحافت کے جادوگروں کو بھی کچھ کر دکھانے کی فکر لاحق ہوتی تھی۔ یہ احساس
ستاتا رہتا تھا کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں اور سارا میلہ صرف حزبِ اختلاف
نہ لوٹ لے! تب حزبِ اختلاف اہلِ صحافت کے لیے مُرغِ باد نما ہوا کرتی تھی۔
مگر یہ بھی بہت پُرانی بات ہے۔ اب تو میڈیا والے طے کرتے ہیں کہ حزبِ
اختلاف کو کس سمت چلنا چاہیے! لیجیے، قِصّہ ہی ختم ہوگیا۔ پہلا غم تو یہ ہے
کہ اب حقیقی معنوں میں حزبِ اختلاف رہی نہیں۔ اقتدار کی سَرکار میں پہنچ کر
سبھی ایک ہوگئے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے حصے بانٹ لیے ہیں۔ جو چھوٹے موٹے ہوا
کرتے تھے اُنہیں دو چار ہڈیاں ڈال کر چُپ کرادیا گیا ہے۔ بُھولے بھٹکے اگر
کوئی ایک آدھ گروپ محروم رہ جاتا ہے تو وہ میڈیا کے ذریعے تھوڑا بہت شور
مچاتا ہے تاکہ بندر بانٹ کرنے والوں کو خیال آجائے اور اُس کی محرومی بھی
ختم ہو۔
دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کسی معاملے پر کَمر کَس کر میدان
میں نکلتی ہے تو میڈیا والے ساتھ ہولیتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے
برعکس ہے۔ حزبِ اختلاف والے اخبارات اور نیوز چینلز پر نظر رکھتے ہیں اور
جو رجحان خبروں میں چل رہا ہو اُسی کے مطابق چلتے ہیں۔ یعنی مُدعی سُست،
گواہ چُست!
آپ نے وہ کہانی تو سُنی ہی ہوگی کہ ایک صاحب اپنے گھر میں پلنے والی بلی سے
بہت پریشان تھے۔ کئی بار پکڑ کر دو تین گلیاں دور چھوڑ آئے مگر وہ ہر بار
واپس آگئی۔ ایک دن بلی کو تھیلے میں بند کرکے گھر سے دس پندرہ میل دور لے
گئے اور وہاں چھوڑ دیا۔ مگر پھر رستہ بھول گئے اور بلی کے پیچھے پیچھے چلتے
چلتے گھر پہنچے!
پاکستان میں میڈیا اور حزبِ اختلاف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اب حزبِ
اختلاف والے میڈیا کی بلی کے پیچھے پیچھے چلتے چلتے گھر تک واپس آتے ہیں! ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی!
نپولین بونا پارٹ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا مگر ہمارے ہاں یار لوگ اُسے
کچھ زیادہ ہی سَچ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ تلوار تو زخم لگاکر چھوڑ
دیتی ہے یا مار ڈالتی ہے۔ میڈیا کا معاملہ یہ ہے کہ جس کی گردن کٹتی ہے وہ
پھر زندہ ہوکر ’’گردن کٹائی‘‘ کا مزا لینا چاہتا ہے! ’’بدنام اگر ہوں گے تو
کیا نام نہ ہوگا؟‘‘ کے اُصول کی بنیاد پر لوگ اب میڈیا والوں کے معتوب
ٹھہرنے میں بھی لطف لینے لگے ہیں!
بہت سوں کو شکایت رہتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا والے بے لگام ہوگئے ہیں۔
مگر اِس بے لگامی میں بھی تو بہت سوں کا فائدہ ہی ہے۔ پاکستان میں اخبار کو
تلوار بنانے والے اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ اِس تلوار سے اپنی مرضی کے ذبیحے
کرتے پِھریں۔ بیشتر معاملات میں میڈیا والے محض مجبور ہوتے ہیں۔ وہ سیدھے
راستے پر چلنا چاہیں تو یاروں کو زیادہ گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اگر میڈیا سچ
بولنا چاہے تو قدغن کا مرحلہ فوراً آجاتا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز نے اِس کا حل یہ
تلاش کیا ہے کہ آپس کی لڑائی میں میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا
جائے۔
کبھی کبھی خبروں کی ہانڈی میں مسالا تیز ہو جاتا ہے۔ اور کا نتیجہ ہانڈی کے
بے ذائقہ ہو جانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ مگر صاحب، ہانڈی پر جو کچھ
گزرتی ہے اُس سے کسی کو کیا غرض؟ سب کو چٹخارے کی پڑی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب
اخبار کو تلوار کی حیثیت سے استعمال کرنے سے قبل بہت کچھ سوچا جاتا تھا،
عواقب کی فکر لاحق ہوا کرتی تھی۔ اب وہ وضع داری کہاں؟ جن کے ہاتھ میں
اختیار ہے وہ میڈیا کو ہتھیار کی طرح ہاتھ میں لیکر میدان میں آ جاتے ہیں
اور مخالفین کو زیرِ دام لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوم یہ تماشا اِس قدر مگن
ہوکر دیکھتی ہے کہ پھر کسی اور بات کا ہوش اُسے رہتا نہیں۔ پیٹ بھر جاتا
ہے، نِیّت نہیں بھرتی۔
یہ سب کچھ نیا نہیں۔ جب سے اخبارات کا اجرا ہوا ہے یعنی صحافت میدان میں
آئی ہے تب سے اِسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والوں کی کمی نہیں رہی۔
وہ لطیفہ تو آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ ہٹلر جَنّت کے دروازے پر پہنچا تو دربان
نے پوچھا تم نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جَنّت میں داخل کئے
جاؤ۔ ہٹلر نے اپنے ’’کارنامے‘‘ گنوانا شروع کیا۔ جَنّت کے دربان نے کہا کہ
تمہارا نامۂ اعمال تو کچھ اور بتا رہا ہے۔ اِس پر ہٹلر نے کہا۔ ’’فرشتوں کے
لِکھے پر مت جاؤ، میرے دور میں شائع ہونے والے جرمن اخبارات کا مطالعہ
کرو!‘‘
حالات نے پاکستانی میڈیا کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے
سَچ بول سکتے ہیں نہ جُھوٹ۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، سب وہی راستہ
اختیار کرنے پر مجبور ہیں جس کی اُن سے فرمائش کی جائے۔ اطلاعات اور تفریح
کو اِس طور خلط ملط کردیا گیا ہے کہ سچ مکمل سچ ہے نہ جُھوٹ مکمل جُھوٹ۔ یہ
گورکھ دھندا میڈیا کے حق میں ہے نہ قوم کے۔ اِسے عذاب ہی کی ایک صورت
سمجھیے اور اﷲ سے نجات کے طالب ہو رہیے۔ |