اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مصائب کے ذریعے انسان کو آزمایا جاتا
ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام سب سے زیادہ مصائب و آلام سے آزمائے گئے
۔ان مصائب پر صبر کرنا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ۔جتنے بڑے مصائب انبیائے
کرام پر آئے اتنا ہی زیادہ انہوں نے صبر بھی فرمایا ۔ہمارے نبی کریم ﷺ پر
سب سے زیادہ مصائب آئے پر حضور اکرم ﷺ نے صبر کا وہ اعلیٰ مظاہرہ کیا کہ
امام الصابرین کہلائے آج اسی صفت صبر پر حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے مختلف
پہلو بیان کئے جاتے ہیں ۔
’’حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے کہ غزوہ حنین میں
نبی اکر م ﷺنے مالِ غنیمت تقسیم فرماتے ہوئے بعض لوگوں کو ترجیح دی‘اقر ع
بن حابس کو سو اونٹ دیئے عیینتہ بن حصن کو بھی اتنے ہی دیئے شرفائے عرب میں
سے بھی بعض کو ترجیحاًکچھ زیادہ مال دیا ‘ایک شخص نے کہا : اﷲ کی قسم !اس
تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا اور نہ رضائے الہی کو پیش ِنظر رکھا گیا
(حضرت سید نا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ) میں نے کہا :
اﷲ کی قسم !میں ضرور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ والہ وسلم کو بتاؤں گا ۔
چنانچہ میں نے خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کردیا ِ‘ یہ سن کر
آپ ﷺکا چہرۂ انور سرخ ہو گیا ‘ فرمایا : اگر اﷲ اور اس کا رسول انصاف نہیں
کریں گے تو کون کرے گا !پھر فرمایا : اﷲ عزوجل موسیٰ (علیہ السلام)پر رحم
فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا ۔
(حضرت سید نا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) فرماتے ہیں : میں نے کہا
کہ آئند ہ میں آپ ﷺکی خدمت میں اس قسم کی بات نہیں پہنچا ؤں گا ۔
صبر کا اجرتمام اعمال سے بڑھ کر :علامہ ابو الحسن ابن بطال رحمۃ اﷲ علیہ
شرح بخاری میں فرما تے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ نے نیک اعمال کی جزا کے ساتھ ایک
حد بھی بیان فرمائی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ۔ترجمہ ’’جو ایک نیکی
لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔‘‘(القرآن)
پھر راہ خدا میں خرچ کرنے کی جزا اس سے بھی زیادہ رکھی اور فرمایا:ترجمہ
’’ان کی کہاوت جو اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس
نے اُگائیں سات بالیاں ہر بالی میں سودانے اور اﷲ اس سے بھی زیادہ بڑھائے
جس کے لئے چاہے اور اﷲ وسعت والا علم والا ہے ۔‘‘(القرآن)
اور صبر کرنے والوں کا اجر بے حساب رکھا اور فرمایا:’’اور بیشک جس نے صبر
کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔‘‘(القرآن)
اذیت پر صبر کرنا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے یہ انبیائے کرام علیہم
السلام و صالحین عظام کے اوصاف میں سے ہے ۔اگر چہ اﷲ تعالیٰ نے تمام نفوس
کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ تکلیف اور مشقت پر درد محسوس کرتے ہیں
جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کو انصاری کی بات سے تکلیف پہنچی حتیٰ کہ آپ کا چہرہ
انور غصے سے سرخ ہو گیا لیکن آپ ﷺ نے صبر کیا اور پر سکون ہو گئے کیونکہ آپ
صابرین کیلئے اﷲ تعالیٰ کے وعدے و اجر کو جانتے تھے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اﷲ
تعالیٰ سے ثواب کی امید کرتے ہوئے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے صبرکو
مد نظر رکھا اور صبر کیا ۔صبر کی کئی اقسام ہیں ۔چنانچہ امیر المؤمنین حضرت
سیدنا مولا ئے کائنات علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ
نے فرمایا :صبر تین قسم کا ہوتا ہے ۔۱۔مصیبت پر صبر کرنا ۔۲۔طاعت(نیک اعمال
)پر صبر کرنا۔۲۔معصیت سے صبر کرنا ۔ پس جس نے مصیبت پر صبر کیا اﷲ تعالیٰ
اس کے لئے تین سو درجات لکھے گا اور ہر درجہ کے درمیان زمین و آسمان کے
درمیان کی مسافت (فاصلہ ) ہے اور جس نے طاعت پر صبر کیا اﷲ تعالیٰ اس کیلئے
سات سو درجات لکھے گا اور ہر درجہ کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر منتھائے
عرش کا فاصلہ ہے اور جس نے معصیت سے صبر کیا اﷲ تعالیٰ اس کے لئے نو سو
درجات لکھے گا اور ہر درجہ کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر منتھائے عرش کا
دگنا فاصلہ ہے ۔(شرح بخاری)
نبی کریم ﷺ کی توہین کفر ہے :رسول اﷲ ﷺ کی توہین کرنا بالا جماع کفر ہے اور
توہین کرنے والا با لاتفاق واجب القتل ہے اور اس کی توبہ قبول کرنے میں
ائمہ مذاہب کے مختلف اقوال ہیں خواہ توہین آپ ﷺ کی ذات کی ہو یا آپ کے نسب
کی ،آپ کے دین میں ہو یا آپ کی کسی صفت میں ہو اور یہ توہین کرنا خواہ
صراحۃً ہو یا کنایۃً (چھپے الفاظ) تعریضاً(ایسا کلام جس سے مراد کچھ اور ہو
اور اشارہ کسی اور جانب ہو ) یا تلویحاً(ایسا کلام جس میں بہت ہی دور کے
معنی مراد لئے جائیں )اسی طرح کوئی شخص آپ کو بد دعا کرے ،اسی طرح (معاذ اﷲ
)کوئی شخص آپ پر لعنت کرے یا آپ کا برا چاہے ،آپ کے عوارض بشریہ یا آپ سے
متعلق اشیاء یا اشخاص کا آپ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بطریق طعن یا مذمت ذکر
کرے، الغرض جس شخص سے کوئی ایسا کلام صادر ہو جس سے آپ علیہ السلام کی
اہانت ظاہر ہو وہ کفر ہے اور اس کا قائل واجب القتل ہے ۔(الشفاء للقاضی
عیاض)
حضور اکرم ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے کو سزا کیوں نہیں دی گئی ؟:جس نے
حضور اکرم ﷺ کی توہین کی واجب القتل ہے حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کو سزا نہیں
دی ہو سکتا ہے کہ اس کا یہ قول ثابت نہ ہوا ہو اور چونکہ صرف ایک صحابی نے
حضور اکرم ﷺ تک یہ قول پہنچایا تھا اور ایک شخص کی گواہی پر کسی کو قتل
نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت سیدنا جابر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے غزوہ حنین
کی واپسی پر حضور اکرم ﷺ نے چاندی تقسیم کی تو ایک شخص نے کہا اے محمد ﷺ
عدل کرو ً تو امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے حضور اکرم ﷺ سے
اجازت مانگی کہ میں اس کو قتل کروں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ۔(معاذ اﷲ )
کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں تو یہ وہ وجوہات
ہیں جن کی وجہ سے حضور ﷺنے اس کو قتل نہیں کروایا۔
غیبت کی جائز صورت:علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:’’ اس
حدیث سے پتہ چلا کہ اگر کوئی شخص کسی حاکم یا معظم و محترم شخصیت کے بارے
میں کوئی ایسی بات کہے جو اُس کی شان کے خلاف ہو تو اسے اس بات کی اطلاع
دینا جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبت کی یہ صورت جائز ہے کیونکہ جب
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے یہ خبر حضور اکرم ﷺ کو پہنچائی تو آپ
نے انہیں اس سے منع نہ فرمایا کیونکہ حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اﷲ عنہ حضور
اکرم ﷺ کی خیر خواہی کا ارادہ کیا اور آپ ﷺ کی بارگاہ میں اس شخص کی
نشاندہی کی جو منافق تھا تاکہ اس سے بچا جا سکے اور یہ جائز ہے جیسا کہ
کفار کی جاسوسی کرنا جائز ہے تاکہ ان کے مکرو فریب سے بچا جائے اور جس شخص
نے حضور ﷺ کے بارے میں یہ بات کہی بے شک وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا پس
اس کیلئے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ۔‘‘(فتح الباری )
حدیث مذکور میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو اس انصاری کی بات سے سخت صدمہ پہنچا
اور آپ کو اتنا جلال آیا کہ چہرۂ انور سرخ ہو گیا لیکن آپ ﷺ نے غصے پر قابو
رکھا ،صبر فرمایا اور کسی قسم کی کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی ۔چنانچہ
ہمیں بھی آپ ﷺ کے اس سلوک سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور غصے کے وقت اپنے اوپر
قابو رکھنا چاہیے ۔لیکن یہ اس وقت ہے جب معاملہ ہماری اپنی ذات سے متعلق ہو
اور اگر کوئی بد بخت شخص اﷲ تعالیٰ یا اس کے پیارے نبی ﷺ یا اسکے دین کی
توہین کرے تو ہمیں اسے معاف کرنے کا اختیار نہیں ۔جب اپنی ذات سے متعلق کسی
بات پر غصہ آئے تو کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس میں اپنا نقصان کر بیٹھیں
عموماً غصے کی حالت میں انسان ایسا کام کر جاتا ہے جس کے بعد اسے پچھتانا
پڑتا ہے ،کیونکہ غصے کی حالت میں شیطان انسان سے اس طرح کھیلتا ہے جیسے بچہ
گیند سے کھیلتا ہے ۔کئی آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ میں غصہ پینے کی
فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں چند فضائل بیان کئے جاتے ہیں:
غصہ پینے کے فضائل:اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ:’’اور
غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اﷲ کے محبوب
ہیں۔‘‘(القرآن)
اُمت کے بہترین لوگ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میری اُمت کے بہترین لوگ وہ ہیں
کہ جب انہیں غصہ آجائے تو فوراً رجوع کر لیتے ہیں۔‘‘(معجم الاوسط)
سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ:فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے:اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس گھونٹ
سے زیادہ اجر والا کوئی گھونٹ نہیں جو غصے کا گھونٹ بندے نے رضائے الہٰی
کیلئے پیا۔‘‘(ابن ماجہ)
سینہ ایمان سے بھر دیا جاتا ہے :فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے : اﷲ تعالیٰ کے نزدیک
کوئی گھونٹ اتنا پسندیدہ نہیں جتنا بندے کا غصے کا گھونٹ پینا پسند ہے ،جو
بندہ غصہ پی لیتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے سینے کو ایمان سے بھر دینا ہے
۔‘‘(کنزالعمال)
غصہ آنا بھی چاہیے :یاد رکھیے ! فی نفسہ غصہ برا نہیں ہاں غصے میں آکر
شریعت کی نا فرمانی کرنا مذموم و ناجائز ہے ۔صحیح موقع پر غصہ آنا مومن کی
علامت ہے ۔غصہ میں تفریط یعنی اس قدر کم غصہ آنا کہ بالکل ہی ختم ہو جائے
یا پھر یہ جذبہ ہی کمزور پڑجائے ،یہ ایک مذموم صفت ہے کیونکہ ایسی صورت میں
بندے کی مروت اور غیرت ختم ہو جاتی ہے اور جس میں غیرت یا مروت نہ ہو وہ
کسی قسم کے کمال کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ ایسا شخص عورتوں بلکہ حشرات الارض
(یعنی زمینی کیڑے مکوڑوں ) کے مشابہ ہوتا ہے ۔حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ
اﷲ علیہ کے اس قول کا یہی معنی ہے :’’جسے غصہ دلایا گیا اور وہ غصہ میں نہ
آیا تو وہ گدھا ہے اور جسے راضی کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ راضی نہ ہوا تو
وہ شیطان ہے ۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی حمیت اور شدت کی تعریف بیان کرتے
ہوئے فرمایا:’’مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت‘‘(القرآن)
اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :’’کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم
دل۔‘‘(القرآن)
دین کی خاطر غصہ نیک لوگوں کو ہی آتا ہے :فرمان رسول ﷺ ہے :’’دین کے لئے
غصہ میری اُمت کے بہترین اور نیک لوگوں ہی کو آتا ہے ۔‘‘(کنز العمال) ایک
اور حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’سینوں میں موجود قرآن کریم کی عزت و عظمت کی
خاطر حاملین قرآن کو بھی غصہ لاحق ہو جاتا ہے ۔‘‘(کنز العمال)
صبر نبی ﷺ کے 6حروف کی نسبت سے حدیث مبارکہ اور اسکی وضاحت سے ملنے والے
6تحفے:
1﴾ اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرماتا ہے ۔
2﴾ صبر انبیائے کرام علیہ السلام اور صالحین کی صفات میں سے ایک اعلیٰ صفت
ہے ۔
3﴾ حضور ﷺ کی توہین کرنا بالا جماع کفر اور آپ کی توہین کرنے والا واجب
القتل ہے ۔
4﴾ اگر کوئی شخص کسی حاکم یا معظم دینی شخصیت کے بارے میں کوئی ایسی بات
کہے جو اس کی شان کے خلاف ہو تو کسی کا اس تک یہ بات پہنچادینا جائز ہے ۔
5﴾ ہماری ذات کے بارے میں چاہے کوئی کیسی ہی غصہ دلانے والی بات کہے ہمیں
غصہ پی کر صبر سے کام لینا چاہیے۔
6﴾ احکام شریعت کی خلاف ورزی دیکھ کر غصہ آنا مذموم نہیں محمود ہے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں غصہ پینے اور مواقع اظہار پر اسے ظاہر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ! آمین ۔ |