چند سال پہلے جب میری ملاقات بابا مری کے ساتھ نہیں ہوئی
تھی میں نے انکے جلاوطنی کے زمانے کے ایک دوست سے انکے متعلق پوچھا کہ بابا
کیسے مزاج کے انسان ہیں؟ انہوں نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ آپ نے کبھی
گوتم بدھ کے بارے میں سنا ہے؟ بس انہیں دیکھ کر گوتم بدھ کا گمان ہوتا ہے،
جلاوطنی میں جب ہم ساتھ تھے تو وہ خود بیلچہ لے کر اپنے رہائش گاہ کی چھت
پر جمی برف ہٹاتے تھے. وہ غرور سے نا واقف انسان ہیں۔
جب پہلی با ر میری ملاقات بابا سے ہوئی تو انکی بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ
دیکھ اور دھیمہ لہجہ سنکر مجھے انکے دوست کی وہ بات یاد آگئی ۔ اس دن کے
بعد سے ہماری دوستی شروع ہوگئی، ہاں دوستی، کیونکہ وہ غرور و تکبر سے پاک
انسان تھے ، ان میں دکھاوے اور سرداری شان کی رمق بھی نہیں تھی۔ وہ مجھ سے
ایسے ملے جیسے میں انہی کے گھر پیدا ہوئی انکی سگی بیٹی ہوں۔ اور ہاں، بابا
میں ایک اور بات یہ بھی تھی کہ وہ کسی کو دیکھتے تو چند لمحوں کی ملاقات
میں ہی سمجھ لیتے کہ سامنے والا انسان کیسی ذہنیت کا مالک ہے۔اور اس کے
سامنے ہی یہ بات کہہ بھی دیتے۔
بابا، ایک ایسے انسان تھے جو ایک طرف سے محبت کے جذبات سے سیراب ہو اور
ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو۔ بابا ، جو جنگ کی تیاری میں بھی
مصروف رہتے اور اتنی ہی شدت سے انسان سے محبت بھی کرتے ،وہ نواب بھی تھے
درویش و ملنگ بھی ، بہت بڑی طاقت کا مالک انسان پھر بھی نہایت معصوم اور
نرم گو۔بابا ، جو سخت سے سخت بات بھی انتہاء درجے کے نرم لہجے میں کرتے
تھے.
بابا انسان دوست تھے، وہ انسانی برابری کے علمبردار بھی تھے اور اس برابری
کے دشمنوں سے انتہائی نفرت بھی کرتے تھے-
حقیقتاً بابا ایک انقلابی صوفی تھے۔ بابا میری نظر میں اس عہد کا سب سے بڑا
انسان ہے، بے بہا آدرشوں کا تخلیق کار انسان اپنی عہد اور اس کے شرائط پہ
فتح رکھنا والا انسان ، یہ سچ ہے کہ وقت اور حالات انسانوں کو تخلیق کرتے
ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بابا وہ انسان ہے جس نے خود کو تخلیق کیا ، خود
کو تلاش کیا اور پورے انسانی سماج کو راہ دکھانے کی جدوجہد میں کامیاب ہوا۔
بابا جہد مسلسل کا دوسرا نام ہے، مسلسل سفر کرنے والی ایک ایسی علامت جو
بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی۔ جو نا کبھی جھکے، نا رُکے ، نا ٹوٹے اور نا کبھی
منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے ۔ ایسی مستقل مزاجی تو سخت پہاڑوں میں بھی نہیں
ہوتی، موسموں کے نشیب و فراز اور وقت کی ظالم رفتار تو ان سنگلاخ پہاڑوں کو
رگڑ رگڑ کی فضاوں میں ریت کی صورت میں بکھیر دیتی ہے، مگر بابا کو تو
زندگی، غلامی، اور برے سے برے حالات کے نشیب و فراز کے آ ہنی ہاتھ بھی نہ
ہلا سکے ۔
بابا کی کٹھن اور تکلیف دہ زندگی کے انگنت راز ایسے بھی ہیں جو کبھی عیاں
ہوئے ہی نہیں کیونکہ انکی عظمت ایسی ہے کہ انہوں نے کبھی جتایا ہی نہیں،
کبھی کوئی گلہ کیا ہی نہیں ، کبھی اپنے ماتھے پر شکن تک آنے نہیں دی ۔ عظمت
کی بلند روح انکی شخصیت میں پوشیدہ تھی ۔ خاموشی سے سب سہہ لیا اور خاموشی
سے چلے بھی گئے ۔
انگریز لاٹ کی بگھی کھینچنے سے انکاری عَلم بغاوت بلند کرنے والے خیر بخش
اول کے فکر کا اکلوتا وارث بابا خیر بخش مری ہی تھے ، اب یہ وراثت کب، کہاں
اور کتنے نسلوں بعد اس گلزمین کو نصیب ہو کون جانے ؟، کیوں کہ بابا مری روز
روز پیدا نہیں ہوا کرتے ، صدیوں کی مسافت درکار ہوتی ہے۔
29فروری1928کو مہراللہ مری کے گھر میں جنم لینے والا یہ مضبوط آدرشوں کا
مالک انسان بچپن ہی میں اپنے والد اور والدہ کے سائے سے محروم ہوگیا ۔ میں
نے ایک دفعہ جب سوال کیا کہ بابا آپ کے کتنے بھائی بہن ہیں تو وہ دھیمی
آواز میں بولتے رہے میرے سارے بہن بھائی بچپن میں پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئے
تھے ، میری پیدائش کے چند مہینوں میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اور جب میں
چھ سال کا ہی تھا تو میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا تھا اپنے سارے بہن
بھائیوں میں صرف میں ہی زندہ رہ سکا، چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ
مسکراتے ہوئے اپنے متعلق بولے۔
1933 میں جب بابا 6سال کے تھے تو انکے والد کا انتقال ہوگیا، اس وقت وہ بہت
چھوٹے تھے اس لئے عارضی طور پر انکی جگہ انکے چچا دودا خان مری کو قبیلے کے
سرداری کے فرائض سونپے گئے ، بابا مری کی ابتدائی تعلیم انکے اپنے آبائی
علاقے کوہلو میں ہوئی اسکے بعد وہ لاہور ایچی سن کالج پڑھنے گئے وہاں سے
تعلیم مکمل کر کے 1950میں کوہلو واپس آئے اور باعدہ طور پر قبیلے کے سردار
ی کے فرائض سنبھالے ۔
ایوب کے دور حکومت میں مارکسسٹ نظریہ رکھنے والے بابا مری نے جب سیاست میں
قدم رکھا تو پہلی بار انہوں نے سوشلزم کا نعرہ دیا ، ایوب خان بابا مری کی
فکر سے خائف تھے۔ انہوں نے 1964 انکی سرداری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے
انکے جگہ انکے چچا دودا خان مری کو سردار مقرر کرنے کا اعلان کیا تو مری
قبیلے نے دودا خان کو اپنا سردار تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ
انکا سردارصرف خیر بخش مری ہی ہیں، جس کے نتیجے میں مری قبائل نے دودا خان
کو قتل کردیا اور طویل عرصے تک بابا مری کی ایوبی آمریت سے مخاصمت جاری رہی
1968 میں جب ایوب خان نے تمام سرداروں سے صلح کرنے کا اعلان کیا تو باقنے
صلح کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں حکومت کی تمام کو چھوڑ کر بابا
مری ا ساتھی نہیں بن سکتا۔
بابا مری اپنے ابتدائی سیاسی ادوار میں پارلیمانی سیاست سے مکمل دلبرداشتہ
نہیں تھے، آپ پہلی بار 1962 میں ایم این اے بنے، دوسری بار 1970 کے
انتخابات میں حصہ لیا پھر جیت کر ایم این اے بنے اس دوران ذولفقار علی بھٹو
نے آپ کو بلوچستان کی گورنر شپ کی بھی پیشکش کی ،مگر بابا نے گورنر شپ قبول
نہ کیا ، آپ نے 1973 کے آئین پر بھی دستخط کرنے سے انکار کردیا حالانکہ نیپ
کی باقی قیادت اسے قبول کرچکی تھی۔
بھٹو نے جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی توبابا مری، عطااللہ مینگل ،
غوث بخش بزنجو اور ولی خان کو گرفتار کر کے ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جو
حیدر آباد ٹریبونل کے نام سے مشہور ہے،اس کیس میں وہ غدار بھی قرار دیئے
گئے تھے اور سزائے موت کا بھی امکان تھا مگر اس دوران بھٹو کی حکومت ختم
کرکے جب ضیاالحق نے مارشل لاء لگائی تو انہوں نے بلوچوں کی ہمدردی حاصل
کرنے کیلئے حیدر آباد ٹریبیونل ختم کرکے بابا مری سمیت نیپ کی باقی قیادت
کو رہا کردیا ۔
رہائی کے بعد بابا علاج کے غرض سے لندن بھی گئے اور فرانس بھی ، بعد میں آپ
وہاں سے افغانستان چلے گئے جہاں پر مری قبیلہ پہلے سے ہزار خان مری اور شیر
محمد مری کی سربراہی میں موجود تھا ۔ بابا مری نے ہلمند میں اس وقت بلوچوں
کو منظم کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں
ثور انقلاب برپا ہوچکی تھی اور وہاں حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور نجیب
جیسے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کی حکومت تھی۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد باباِ اور بلوچ قوم کو ادراک ہوگیا تھا
کہ طالبان کی جڑیں کہاں پیوست ہیں اور وہ بلوچوں کے خلاف کیا کر سکتے ہیں
تو یہ انکی قائدانہ صلاحیت ہی تھیں کہ انہوں نے بر وقت فیصلہ لے کر وہاں سے
نکلنے اور وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔
1992کو جب وہ بلوچستان واپس آئے تو کوئٹہ ائرپورٹ پر بلوچ عوام نے انکا
تاریخی استقبال کیا کہتے ہیں کے اس موقعے پر بابا نے طنزکرتے ہوئے کہا تھا
کہ مجھے لگا تھا کہ میں جنگ چھوڑ کر آ رہا ہوں تو لوگ میرا استقبال ٹماٹروں
سے کریں گے مگر یہاں لوگ مجھ پر پھول برسا رہے ہیں، اور افسوس کا اظہار بھی
کیا کہ ہماری ذہنیت ابھی تک لیڈر شپ اور شخصیت پرستی سے آگے نا جا سکی ۔
حقیقت یہ ہے کہ بابا جنگ چھوڑ کر نہیں آئے تھے ، بلکہ اس جنگ کو جیتنے کے
لئے بر وقت اور صحیح فیصلہ کر کے آئے تھے، جنگ کی تیاری اور بھی منظم طریقے
سے کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ آئے تھے ، یہ تو انکی شان اور بے نیازی تھی،
ان کو کبھی اپنی تعریف آپ نہ کرنی پڑتی، وہ بزور دست بنایا گیا لیڈر نہ تھا
بلکہ ان صلاحیتوں کا بذات خود مالک تھا۔ 1992 میں بلوچستان آنے کے بعدوہ
کوئٹہ میں گوشہ نشین ہوگئے اور حق توار سرکلز کا آغاز کر دیا۔ بابا کے انہی
تعلیمی سرکلز کے کوکھ سے سگار جیسے ہزاروں ایسے فرزندانِ وطن پیدا ہوئے ،
جن کا آج تک کوئی نعم البدل پیدا نا ہوسکا۔
آئی ایس آئی کو بابا مری گوراہ نا تھے جب مشرف کا دور حکومت آیا تو جسٹس
نواز مری کو قتل کرکے آئی ایس آئی نے بابا مری کو اس کیس میں ملوث کر کے
راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی ،بابامری کو گرفتار کر کے 18ماہ تک پابند
سلاسل رکھا ، رہائی کے بعد وہ کراچی چلے گئے جہاں جاوید مینگل کے رہائشگاہ
میں اپنی باقی کی زندگی گزاری ۔
بلوچ تاریخ نام خیر بخش کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی، اس نام کے دو ایسے
شخصیات ہیں کے جنہوں نے بلوچ تاریخ کو سیاہ ہونے نہیں دیا، بابا بلوچ
خیربخش دویم اور دوسرے بابا بلوچ خیر بخش مری کے دادا خیر بخش مری اول۔
خیر بخش مری اول جب مری قبیلے کے سردار تھے تو اس وقت انگریزوں نے زبردستی
دوسرے قبائل کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کی تو مری قبیلے نے خیر بخش اول کی
سربراہی میں فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر کے بغاوت کردی تھی۔ انکی قیادت
میں مری قبیلے نے انگریزوں کے خلاف تاریخی مزاحمت کی ، جس میں سبز گنبد
جیسے تاریخی معرکے بھی شامل ہیں، اس جنگ میں انگریزوں نے ہر مری کی سر کی
قیمت دس روپے رکھا تھا.
انگریز استعمار اپنی پوری قوت استعمال کرنے کے بعد بھی انہیں زیر کرنے میں
ناکام ہوا اور بالآخر خیر بخش اول کے مطالبات مان کر صلح کے میز پر آگیا
۔یہ صلح 1903میں ہوئی تھی جس کے بعدپہلی با ران کو نواب کا خطاب دیا گیا ۔
معاہدہ امن کے بعد انگریز لاٹ نے ایک دفعہ تمام بلوچ سرداروں کو ایک میٹنگ
کے غرض سے اور اپنا مطیع بنانے کیلئے سبی میں جمع کیا ، اجلاس کے بعد
انگریز لاٹ نے تمام سرداروں کو حکم دیا کہ وہ اسکی بگھی (جس میں انگریز لاٹ
کی اہلیہ بھی بیٹھی ہوئی تھی)کو تمام سردار کھینچ کر ریلوے اسٹیشن تک لے
جائیں اور بصورت دیگر وہ انگریز سرکار کی دشمنی قبول کریں ،تو باقی تمام
قبائل کے سرداروں نے یہ بگھی کھینچ کر اپنے نام تا ابد رسوائی رقم کردی،
لیکن اس دوران خیر بخش اول نے اپنی تلوار میان سے نکال کر کہا ہم جنگجوہیں
بگھی کھینچنے والے نہیں۔
ایک بابا خیر بخش دویم جو جدید بلوچ سیاسی تحریک کا خالق جو زندگی بھر ایک
بات پر اٹل رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے جس کے علاوہ دوسرا راستہ
نہیں، نہ کبھی کسی انٹرنیشل کمپنی سے کوئی ڈیل کی، نا تحریک کے نام
بلوچستان کے وسائل کاسودہ کیا نا کسی سامراجی قوت سے تحریک کی کمک کے نام
پر سودے بازی کی۔
سلیگ ہیریسن بابا مری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ شائستہ، وجیہہ
اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا ۔اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ
اپنے نوابانہ عظمت کو ہمیشہ قربان کرتے آئے ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے
ان کا طاقتور مری قبیلہ گزینی و بجارانی میں تقسیم تو ہوگئی مگر بابا نے
کبھی قومی سیاسی اصولوں پر سمجھوتہ نا کیا ۔ انہوں نے اپنی نوابی کو پس پشت
ڈال کر سیاسی نظریہ کواولیت دی۔بابا جیسے انسان صدیوں میں اس دھرتی پر پیدا
ہوتے ہیں اور جب آتے ہیں تو کبھی مرتے نہیں۔ بابا مری مرہی نہیں سکتے کیوں
جسم مرا کرتے ہیں نظریہ اور افکار نہیں، کوئی بھی موت روح کو مار نہیں
سکتی، بابا محض ایک جسم نا تھے۔
کریمہ بلوچ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد کی کی قائمقام چیئرپرسن ہیں۔ |