فرزانہ کی الم ناک داستان

سنو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والوں سنو اسلام کے رکھوالوں سنو جمہوریت کے علمبرداروں سنو انقلاب کی باتیں کرنے والو سنو عدلیہ کی آزادی کے متوالوں سنو سڑکوں اور پولیس کا نظام ٹھیک کرنے کے دعوے داروں سنو، میرے لیے آزاد وطن حاصل کرنے والو سنو، عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والی فیشن ابیل بیگمات سنو میری موت کو کیش کرانے والو سنو قرآن اور پیغمبر اسلام پر جان لٹانے والو سنو، دنیا میں پاکستان کی اچھی تصویر پیش کرنے والو سنو،خاموش آوازوں اور بہرے کان والو سنو حکومت کی ناقص کار کردگی کا رونا رونے والو سنو، بیٹیوں کے ماں باپ سنو بھائیوں سنو شوہروں سنو سنو میں 21 ویں صدی کے پتھر کے دور میں پیدا ہونے والی لڑکی ہوں، میرے پچیس سالہ جوان جسم کو اینٹوں سے مار مار کر لہولہان کردیا میرے چمکتی آنکھوں میں پتھر مارے گئے، میرے سر پر چادر اور چار دیواری کے نام پر چادر اوڑھا کر مجھے سرعام ننگا کردیا گیا میرا تماشہ بنایا گیا، میں وہ نہیں ہوں جیسے اینٹیں مار کر قتل کردیا گیا سب سنو غور سے سنو میں ہوں فرزانہ پروین،،،

وہ فرزانہ جس کی خون آلود لاش میرے والدین کے منہ پر طمانچہ ہے، میرے شوہر کے منہ پر میرے بھائیوں کے منہ پر اس اسلامی ملک کے منہ پر اور اس کی ثقافت اور رواج کی حفاظت کرنے والے ٹھیکیداروں کے منہ پر، ایک مجبور بے بس اور حاملہ عورت کو سرعام جب سورج کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی مار دیا گیا خون آلود اینٹ سے خاموش موت مرجائے گی اس کی خوشبو پھیلے گی پاکستان کے اندر رہنے والی لاکھوں فرازنوں کو بچایا جاسکے گا میری موت کو آخر ایسی موت بنایا جائے گا نہیں کبھی نہیں-

کیوں کہ سنا ہے لاہور میٹرو بس چلنے کے بعد ترقی یافتہ ہوگیا ہے، سنا ہے لیپ ٹاپ بانٹنے سے قوم تعلیم یافتہ ہوگی ہے، سنا ہے ساری قوم کو بے حال کرکے چیف جسٹس کی بحالی کے عدالتیں آزاد ہوگی ہے، سنا ہے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ 2008 کے بعد پاکستان عدلیہ آزاد ہونے کے بعد بدل گیا ہے، سنا ہے جمہوریت کا پہیہ چل پڑا ہے، سنا ہے پاکستان کی معشیت بھی ترقی کررہی ہے، سنا ہے ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ ہورہا ہے، سنا ہے فرقہ پرستی بھی ختم ہورہی ہے سنا ہے عورتوں کے حقوق کے قانون پاس ہورہے ہیں، مریم نواز کو اور ڈھیروں خواتین کو آزادی سے سیاست میں حصہ لیتے دیکھ کر اس بات پر یقین نہیں کرے گا، عورتوں کے حقوق کے لیے بنائی گئی تنظیمیں دھڑا دھڑ ہر مسلئے کو اجاگر کرتی ہیں، عورت پر ہونے والی نا انصافی پر آواز بلند کرتی ہیں، جب سب کچھ ہوچکا تو اب ہونے کو کیا ہے-

جمہوریت بھی ہے عدل بھی ہے انصاف بھی ہے قانون بھی ہے اور حقوق کی بات کرنے والی تنظیمیں بھی ہے ہم آزاد بھی ہیں اور ہم مسلمان بھی ہیں، تو کیا کرے گی میری موت، اس سب کے ہوتے ہوئے بھی خادمہ اعلی کے ترقی یافتہ سیاسی شعور والے شہر میں ہائی کورٹ کی ناک کے نیچے پولیس والے قانون کے محافظوں کے سامنے مجھے انیٹیں مار مار کر قتل کردیا گیا تو میرا ہی کوئی قصور ہوگا یہ میرے پیٹ میں پلنے والے بچے کا قصور ہوگا، ان ماں باپ کا بھی نہیں جنہوں نے مجھے پیدا کیا، ان بہن بھائیوں کا بھی نہیں جن کے ساتھ کھیلتے کودتے لڑتے اور کھاتے پیتے بچپن گزارا تھا اس شوہر کا بھی نہیں جو پہلی بیوی کو مار کر مجھ تک پہنچا تھا، نہیں اس میں شاہد میرا ہی کوئی قصور ہوگا، میں ہی ایک گھر کے جہنم سے بچنے کے لیے دوسرے گھر کے جہنم کو منتخب کرلیا، میں نے تو اپنے شوہر پر اندھا اعتبار کیا سو اسے اپنی ڈھال سمجھا یہ مجھ تک گرم ہوا بھی نہیں پہنچنے دے گا، میں نے ارد گرد کھڑے پولیس والوں کو دیکھ کر سوچا ہوگا کہ جب میرے محافظ کھڑے ہیں، جو میرے ہم رنگ ہم مذہب اور ہم وطن ہیں یہ مجھ پر آنچ بھی نہیں آنے دیں گے، سوچا ہوگا کہ اتنے لوگوں میں کون مجھے کچھ کہہ سکتا ہے، پر مجھے انسانوں اور پتھروں میں فرق ہی پتہ نہیں چلا تو پھر میرے ساتھ یہی ہونا تھا نا میرے سر لہو لہان ہونا چاہیے تھا۔

ہائی کورٹ کی اونچی عمارت دیکھ کر سوچا ہوگا یہاں تو انصاف ملتا ہے تو پھر میرا انصاف یہی تھا جو مجھے مل گیا۔ مگر اسلام کے دعوے داروں میرے گھر والوں میرے پیٹ میں جو بچہ تھا اس کا کیا قصور تھا؟ جس کا سورج بھی میری کوکھ سے گزر کر جاتا تھا، جو کھانے پینے اور سانس لینے تک ؛مرا محتاج تھا، اس نے اپنے حصے کا سورج زندگی سوچ بھوک اور خوشی غم کچھ بھی تو نہیں دیکھا تھا، اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ایک آزاد وطن میں پیدا ہونا چاہتا تھا، وہ تو کسی ایسے گمان میں بھی نہیں تھا، کہ اس کے ارد گرد کھڑے اس کے اپنے سگے نانا نانی ماموں چچا خالائیں پورا خاندان اس کے اپنے شہر والے اپنے محافظ چاروں طرف کھڑے ہیں، اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ دن کے اجالے میں پیرس بنتے شہر لاہور کی ترقی یافتہ سڑک پر انصاف کی عمارت کے سامنے محفوظ کھڑا ہے، اس نے تو اعتبار کرنے کا گناہ بھی نہیں کیا اسے تو کوئی گمان بھی نہیں تھا کوئی خوش فہمی بھی نہیں تھی تو پھر وہ بے گناہ ہوا نہ اسے کس بات کی سزا دی گئی؟ یہ تھی فرزانہ بی بی کی الم ناک کرب ناک فریاد باقی سب کو پتہ ہے تیزاب سے جھلسنے والی بچیاں بے آبرو ہونے والی بچیاں عورتیں ونی کا شکار خواتین کارو کاری ہونے والی بازاروں میں ننگی گھمائی جانے والی کمسن بچیاں بوڑھوں سے بیاہی جانے والی ان سب کی الم ناک کرب ناک داستان پر بات چیت ہورہی ہیں-

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 55599 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More