لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے سیکریٹیریٹ
کے قریب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں کم
از کم آٹھ افراد ہلاک اور 97 کے قریب زخمی ہوگئے۔ مسئلہ کھو کھاتے ڈالنے کے
لئیے یک ممبر جوڈیشل کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی
معزز عدلیہ میں ایسا کوئی سورما ہے جو وقت کے وزیر اعلٰی کو قانون کے سامنے
کھڑا کرسکے ؟ جناب طاہرالقادری صاحب سے آپکو ہزار اختلافات ہو سکتے ہیں مگر
یہ بات مانے بغیر کوئی چارا نہیں کہ انکی جدوجہد اور کارکن پرامن ہیں۔
حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور نہتے پرامن لوگوں کو پنچاب پولیس کے
سورماؤں کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو ہر حاکم وقت نے
پولیس کو ہمیشہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئیے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن بزدل
حکمرانوں نے کبھی کسی بھی سانحہ کی ذمہ داری نہیں لی۔ نزلہ بھی اگر گرتا ہے
تو چھوٹے افسران پر۔ انھیں معطل کردیا جاتا ہے۔ لوگ بھی قادری صاحب کے قتل
ہوے ہیں اور ملامت کے تیر بھی ان پر چل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مرد تو دور
کی بات ہے خواتین بھی میدان میں اتر آئیں ۔ ٹیلی ویژن پر پولیس کے جوانوں
کی پھرتیاں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے جا
رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ پولیس ڈاکوؤں کے مقابلے میں بھیگی بلی بنی ہوتی ہے۔
خادم اعلٰی فرما رہے ہیں کہ مجھے اس آپریشن کا علم نہیں تھا جبکہ کالعدم
تنظیموں کا بغل بچہ پنچاب کا وزیر قانون رانا ثناالله کچھ اور ہی کہانی سنا
رہا ہے۔ کہتا ہے کہ وہاں اسلحہ کی موجودگی کی اطلاعات تھیں یہ وزیر بڑی
صفائی سے جھوٹ بولنے کا ماہر ہے اور اسی قابلیت کی بنا پر اسے وزارت ملی ہے۔
سارا ملبہ پولیس پر ڈالا جا رہا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پولیس تو حکم
کی غلام ہے۔ شریف برادران بھی جھوٹ اور تہمت لگانے کے بڑے ماہر ہیں ۔ جب
انکو حکومت ملتی ہے تو یہ حجاج بن یوسف بن جاتے ہیں اور علماء اور مدرسوں
پر چڑھائی کردیتے ہیں لیکن جب ان پر مارشلاء کا ڈنڈا پڑتا ہے تو پھر جیل
میں عورتوں کیطرح روتے ہیں۔ اور مظلوم بن جاتے ہیں ، پھر انھیں علماء یاد
آتے ہیں۔ جب ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو مشرف نے مارشلاء لگایا اور شریف برادران کو
جیل میں ڈالا تو انھوں نے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے ذریعہ پاکستان کے جید
علماء سے کہلوایا کہ ہماری مدد کرو کیونکہ مشرف قادیانی ہے اور حکومت پر
قابض ہوگیا ہے انکی ذہنیت کا اندازہ لگائیں کہ اپنی کرسی کے لئیے یہ کس حد
تک چلے جاتے ہیں کہ ایک مسلمان پر قادیانی ہونے کی تہمت لگانے سے بھی دریغ
نہیں کرتے۔ علماء نے جواب دیا تھا کہ مشرف مسلمان ہے ہمیں سو فیصد یقین ہے
لیکن ایک منٹ کے لئیے اگر اسے قادیانی مان لیا جائے تو اسے آرمی چیف کس نے
بنایا تھا ؟ لیکن جب جدہ سے یاترا کے بعد وآپس آتے ہیں تو میاں صاحب بیان
داغتے ہیں کہ قادیانی ہمارے بھائی ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ ان شریفوں
کو ایک بہت بڑا مغالطہ ہے کہ یہ اپنے پارٹی ورکرز کو طاہرالقادری کے ورکرز
پر قیاس کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ ان کے ورکرز کا حال یہ ہے کہ جب حاجی
سید مشرف نے انھیں پابند سلاسل کیا تو دس بندے بھی مال روڈ پر احتجاج کے
لئیے نہیں نکلے جبکہ پارٹی ساری کی ساری مشرف کی گود میں پکے پھل کی طرح
جاگری جیسے کبھی یہ ضیاء کی گود میں جا بیٹھے تھے۔ خیر دوسری طرف قادری کے
ورکر اسکے ایک اشارے پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں آخر اسکی وجہ کیا ہے ؟
اسکی وجہ یہ ہے کہ شریفوں کو اپنے خاندان کے باہر کچھ نظر نہیں آتا ان کے
خاندان سے کچھ بچے تو ورکر کو ملے، ٢٥ سال سے یہ پنچاب کے مطلق العنان حاکم
ہیں اور کارکردگی یہ ہے کہ پولیس کو صحیح ادارہ نہیں بنا سکے۔ کسی دانا کا
قول ہے کہ لیڈر اپنے پیچھے چلنے والے مٹی کے مادھو نہیں بناتا بلکہ اور
لیڈر بناتا ہے۔ موٹروے اور پلوں کا تذکرہ بڑا کرتے ہیں انکو کنسٹرکشن کا
ٹھیکدار ہونا چاہئیے تھا حادثاتی طور پر وزیر اعلی بن گے۔ سارے ملک کے
ادارے برباد کردیے، خدا ہی ہے جو پاکستان کی ان فیملی لمیٹڈ کمپنیوں سے جان
چھڑا دے جو حکومت تو پاکستان میں فرماتے ہیں مگر پیسہ پاکستان سے باہر
انویسٹ کرتے ہیں ۔۔۔ |