بالآخر فیصلے کی گھڑی آن پہنچی اور آپریشن ضربِ عضب کا
آغاذ ہو گیا۔ آپریشن کے مطلق آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز جاری کی
حالانکہ یہ کام حکومت کو کرنا چائیے تھا کیونکہ آئینِ پاکستان کی روح سے
وزیر اعظم ہی اصل ایگزیکٹیو اتھارٹی ہے۔ خیر میاں صاحب نے بھی بعدازاں
پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔ آپریشن کا فیصلہ تو فوج بہت پہلے ہی کر چکی
تھی۔ لیکن حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے مابین مزاکرات کی لاحاصل کوششیں
جاری تھیں جنکے سبب آپریشن تاحیر کا شکار ہوا۔
ایسے عناصر سے مزاکرات کرنے کا فیصلہ فقط اکیلی حکومت کی من مرضی نہیں تھی
بلکہ کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے جنگ کی بجاۓ مزکرات کی
راہ اپنانے پر زور دیا اور اس فعل پر عمل درآمد کی صورت میں مکمل تعاون کی
یقین بھی دھیانی کرائی۔ اسلئے حکومت نے عسکریت پسندوں سے بات چیت کا انتخاب
کیا۔ یوں طالبان سے مزاکرات کے دور کا آغاذ ہو گیا۔ طالبان نے بھی اس عمل
کا خیر مقدم کیا اور باقاعدہ طور اپنی جانب سے مزاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا
جس کو حکومتی کمیٹی سے مل بیٹھ کر مزاکرات کا مکمل اختیار دیا۔ کبھی اسلام
آباد ، کبھی وزیرستان اور کبھی نامعلوم مقام پر بہت سی ملاقاتیں ہوئیں مگر
مزاکرات کا حاصل صفر جمع صفر رہا کیونکہ اس دور کے دوران کچھ عرصہ تو
تخریبی کاروئیاں تھمی رہیں مگر پھر سے وہی سلسہ شروع ہوگیا اسلام آباد
کچہری کا واقعہ سامنے آیا جس میں بڑا قیمتی جانی نقصان ہوا۔ گو کہ طالباں
نے اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن یہ کہا کہ یہ حملہ جس نے کیا ہے وہ
کبھی ہمارا اتحادی گروپ تھا پر اب نہیں ہے۔ اس طرح اور بھی متدد واقعات پیش
آۓ جیسا کہ نہتے ، معصوم پولیو ورکرز کا قتلِ عام جنکی از خود طالبان کے
ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بڑے دھڑلے کے ساتھ براہ راست ذمہ داری بھی قبول
کی۔ ایسی صورت میں مزاکراتی عمل کا رک جانا ایک فطری بات تھی۔ فوج اور
حکومت کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ آپریشن کے حق میں سیاسی اور
عوامی راۓ کافی حد تک ہموار ہوچکی تھی، فوج اور حکومت کے درمیان اس کو کرنے
کے لئے موزوں وقت کا تعین کیا جانے لگ گیا تھا ایسے میں طالبان کی طرف سے
خود حماقت کی گئی اور کراچی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر حملہ کر دیا جسکے نتیجہ
میں ٣٠ کے قریب افراد جاں بحق ہوۓ اور بہت سے زخمی بھی ہوۓ۔
ان حالات و واقعات کے بعد تو آپریشن ناگزیر ہو گیا تھا۔ آپریشن ہی واحد حل
بچا تھا جسکے ذریعے دہشتگردوں کا مکمل قلعہ قمعہ کیا جا سکتا ہے وایسے بھی
مزاکرات عمل کے کامیاب ہونے کی گنجائش نا ہونے کے برابر تھی کیونکہ تشدد
پسند گروپ کوئی ایک تو نہیں۔ بے شمار ہیں، کم وبیش سبھی کا ایجنڈا ایک ہے
کہ کسی نا کسی طرح طاقت کے بل پر سارے پاکستان کو یرغمال بنا کر اپنی مرضی
کی شریعت نافظ کی جاۓ۔ جو کے کسی صورت بھی ملک کو قبول نہیں۔ شریعت و دین
میں اس طرح کے تخریبی ہربوں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
دین اسلام میں جبر نہیں۔ کسی کو بازور و جبر شریعت کا پابند کرنے کی بجاۓ
پیار، محبت ، درس و تدریس اور بذریعہ تبلیغ دین کی طرف رغبت دلانے کی اپنی
سی مخلاصانہ کوشش کرنی چاہیے، یہی کل انبیاء علیہ سلام کا بھی طریق رہا ہے۔
اب جب آخری فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے تمام قوم کو ایک جُٹھ ہونا پڑے گا۔ فوج
اور حکومت کے اس فیصلے کی بھرپور تائید کرنی چاہیے۔ قطع نظر اس کے کہ حکومت
نے خیبر پوختونخوا کی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا، جس نے اس آپریشن کے
نتیجے میں ممکنا طور پر براہراست سب سے زیادہ متاثر ہونا ہے، آئی ڈی پیز کا
مسئلہ ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اس سے نبرد آزما ہونے کیلۓ ایک مربوط و
منظم حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات
چھوڑ کر ملکی سلامتی و بقا کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ یہ وقت مناسب نہیں
ہے کہ باہمی کمزوریوں کو اجاگر کیا جاۓ اس کے بر عکس ہر ادارے، سیاسی، و
مزہبی جماعت کو چاہیے کہ اپنے اپنے سیاسی و نظریاتی مقاصد کو بالاۓ طاق
رکھتے ہوۓ قومی مفاد کو اپنائیں۔ ایسے میں سب سے اہم و بھاری ذما داری
علماء کرام کی ہے کہ وہ اسلام دشمنوں کو بے نقاب کرتے ہوۓ بین العقائد و
بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے بھر پور کردار ادا کریں۔ باہمی رواداری و بھائی
چارے کو فروغ دیں۔
ایسے وقت میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا ہر مٰیڈیا
گروپ سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی پاک دھرتی کے دشمنوں کو بے نقاب کرنے اور
ناکام کرنے کیلئے اپنا کردار کریں ناکہ ایسے عناصر کو شہہ دیں اور ہیرو بنا
کر پیش کریں۔ اور نہ ہی طالبان حامی لوگوں کو میڈیا کی زینیت بخشیں۔ شکریہ
آخر میں تہ دل سے دعا ہے کہ ضربِ عضب جلد کامیابی سے ہمکنار ہو، پاک فوج کا
کم سے کم نقصان ہو، اللہ دشمنانِ وطن کو نیست و نابود کرے اور ملکِ پاکستان
کا چپاچپا امن و آشتی کا گہوارا بن جاۓ۔ آمین |