آزادی کونصف دہائی سے زائد عرصہ گزر گیا مگر پاکستانی
عوام کے کاسۂ مقدر میں دو ہی چیزیں جیسے زیادہ ڈالی گئی ہیں۔ اوّل تو
ہنگامے، احتجاج اور فسادات در فسادات کا لامتناہی سلسلہ، دوسرے سنہرے وعدوں
کا سبز باغ اور دلکش اعلانات کی بھرمار۔ آزادی کے بعد سے تاحال فسادات اور
دہشت گردی نے پاکستانی عوام کی ترقی اور بہبود کے قدموں میں زنجیر ڈال کر
انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کا کام کیا تو دوسری طرف اعلانات اور وعدوں کے
سبز باغ نے ملت کے مایوس فکر و ذہن کی رگوں میں ایک امید کی لہر دوڑانے کا
کام کیا۔ یعنی دونوں ہی معاملے میں سیاست کی بازی گری پنہا لگتی ہے۔ اور یہ
دونوں حکمتِ عملی کا کھیل آج بھی جاری ہے۔
تیری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا
کہیں زندگی کی بارش کہیں قتلِ عام دیکھا
یہ سیاست کے مکین یہ نہیں سمجھتے کہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ تنہائی میں
گھبراتا ہے اور معاشرے میں دل لگا لیتا ہے۔ ہم جس گھر، محلہ، گاؤں،شہر اور
ملک میں رہتے ہیں ان سے بتدریج فطری لگاؤ ہوتا ہے ، اسی طرح انسان کو اپنے
اہلِ خانہ، اہلِ خاندان اور برادری کے دیگر لوگوں کے ساتھ بھی انسیت کا
تعلق ہوتا ہے۔ دائرہ جتنا چھوٹا ہوگا ، تعلق اور لگاؤ اتنا ہی زیادہ ہوتا
جاتا ہے۔ اسی لئے دنیاوی کاموں میں بھی انسان دل لگاتا ہے تاکہ اس کی
گھبراہت اور تنہائی دور ہو جائے۔ یوں سیاست میں بھی وہ اپنا حصہ ڈال دیتا
ہے ، مختلف جماعتیں، مختلف نظریات اور مختلف قسم کے لوگ ، یہ سب مل کر الگ
الگ جماعتیں بن جاتی ہیں۔ جن میں کچھ جماعتیں حقیقت پسندی پر عمل پیرا ہوتی
ہیں اور کچھ صرف اپنے مفادات پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ بڑی جماعتیں حکمران بن
جاتی ہیں اور پھر عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھول کر دوسرے کاموں میں الجھ
جاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے آج تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں میں
غلامی کی زنجیریں چمٹی ہوئی ہیں۔شاعر حضرات سے معذرت کے ساتھ:
یہ حکمرانوں میں کیا طور ہوگیا رائج
کہ قول و فعل میں جیسے تضاد لازم ہے
کہاں تو جرم سے ایواں کو پاک کرنا تھا
کہاں وزیر ہی نے ایفا کے عہد کو توڑا ہے
موجودہ وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب بظاہر اچھے ہیں اور وہ ملک کو ترقی کی
طرف لے کر جانا چاہتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں وہ کامیاب بھی ہو
جائیں۔ مگر ان کے وزراء ایسے ایسے بیانات دے جاتے ہیں کہ ان کے لئے مشکل ہو
جاتی ہے۔ آج کے اخباروں کی سُرخیوں میں ایک خبر یہ بھی پڑھا کہ طاہر
القادری صاحب کی آمد پر انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے، تو کوئی حکومتی وزیر
یہ بیان دے رہا ہے کہ اُن پر منی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے، اسی طرح شیخ رشید
صاحب ٹرین مارچ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔
اسی طرح پرویز مشرف کیس میں پھر اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے
اور اس طرح کی خبریں شائع کروا کر وہ میڈیا میں تو رہ سکتے ہیں مگر انہیں
یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہی جمہوریت کا حسن
کہلاتا ہے۔ یہ احتجاج، یہ لانگ مارچ، دھرنے، ٹرین مارچ یہ سب جمہوریت کی
خوبصورتی ہے۔ انہیں خوبصورت ہی رہنے دیں بادل نخواستہ ان خوبصورتیوں کو
گرہن لگا تو پھر شاید احتجاج کا سلسلہ وسیع ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی حکمران
طبقے کو بہت تحمل اور بُرد باری سے ان سب کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ہر قدم
پھونک پھونک کر رکھنا چاہیئے۔
پاکستان اور پاکستان کے عوام کا وجود لازم و ملزوم ہیں، اس لئے عوام کے
وجود کا بھی خیال رکھا جائے ، انہیں دَر دَر کی ٹھوکروں سے بچایا جائے، ان
کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے، انہیں جینے کے لئے وہ تمام سہولتیں میسر کی
جائے جن سے ان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ سکیں، ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار
تار کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں، بے گناہوں کو جیل کے پیچھے
ڈھکیلنے کے بجائے قصور واروں کو جیل میں ڈالا جائے۔ اب ہمیں یہ سوچنا اور
سمجھنا ہوگا کہ ان پیش آمدہ مسائل کا حل کیا ہے؟ اور پہلی ہی فرصت میں
قانون کی بالا دستی لاگو کی جائے تاکہ جرائم میں ، نشانہ وار قتل میں، دہشت
گردی میں نہ صرف کمی واقع ہو سکے بلکہ اس کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہو جائے۔جس
طرح انتخابات سے پہلے ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ کا نعرہ دیا گیا تھا اور
عوام نے ان کے نعروں پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا
ہے، اب عوام کو ان کی سرکار سے اچھے دنوں کی اُمید ہے تو انہیں بھی عوام کے
لئے بھرپور حکمتِ عملی کے ساتھ ان کی داد رسی کی جائے تاکہ غریب عوام دو
وقت کی روٹی چین سے کھا سکیں اور سکون کی سانس لے سکیں۔
آج ملک میں کمر توڑ مہنگائی ہے۔ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں بچوں کو
پالنا اور انہیں دو وقت کی روٹی کھلانا دو بھر ہو گیا ہے۔ مہنگائی اس قدر
ہے کہ پانی بھی سوچ سوچ کر پینا پڑتا ہے کیونکہ بجلی کے بل کی طرح ہی پانی
کے بلوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ پانی لائینوں میں ناپید ہے۔ اور
بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور لوڈ شیدنگ نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے۔ اب
روٹی کی فکر بعد میں اور بجلی و پانی کے بلوں کی فکر پہلے کرنی پڑتی ہے۔
سرکار متوسط طبقے کے سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ نوکری پیشہ لوگوں کی فوری
داد رسی کرے کیونکہ نئے بجٹ میں بارہ ہزار روپئے کم از کم تنخواہ رکھا گیا
ہے مگر کیا ان بارہ ہزار سے ایک چار افراد کی فیملی پورے مہینے اپنا گزر
بسر کر سکتا ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے ؟ ایک کرایے کے مکان کا سستے سے سستا
کرایہ بھی پانچ ہزار سے کم نہیں ہے۔ اور بجلی گیس کا بل الگ سے ادا کرنے کی
شرط بھی لاگو ہوتا ہے۔ کیا ہماری سرکار کو یہ معلوم نہیں کہ کتنے ہی گھرانے
دو وقت کے پیٹ بھر کھانے کو ترس گئے ہیں۔ حکمرانوں سے نہایت مؤدبانہ التماس
ہے کہ اس کمر توڑ مہنگائی کو کم کریں، تنخواہوں میں حسبِ حال اضافہ کیا
جائے، یہ پانچ دس فیصد اضافہ مہنگائی کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔
متوسط طبقے کے ملازمین اس تنخواہوں میں نہ تو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم
دلوا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی مہیا کرا سکتے
ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں کمی اور لوڈ شیڈنگ ختم کیا جائے، پانی کی فراہمی کو
یقینی بنایا جائے کیونکہ پانی بنیادی ضرورت ہے، شہرِ قائد اس وقت پانی کے
سنگین بحران سے گزر رہا ہے ، قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے۔خلاصہ
کلام یہ کہ سرکار اپنے وعدوں کا پاس رکھے اور ان تمام مسائل کا سدّباب کرے
تاکہ عوام کو اپنے خواب کی تعبیر مل سکے۔
٭٭٭ |