چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کوئٹہ میں
ایک تقریب سے خطاب کرتے کہا ہے کہ کسی انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل
ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان ہومگر غیر ریاستی عناصر
اسلام کے تشخص کومسخ کرکے اسلام کے نام پر تشدداور قتل وغارت و دہشتگردی کو
فروغ دے رہے ہیں اور ایک مائنڈسیٹ تیار کررہے ہیں،ہمیں اس مائنڈ سیٹ کو
تبدیل کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن جس رواداری اور امن کی تلقین کرتا
ہے ہمارے معاشرے میں اس کی نفی ہورہی ہے جس کی روک تھام کیلئے ہمیں برداشت
کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا جبکہ ترقی کے لئے مسلمانوں کو تعلیم اور تربیت
پر توجہ دینا ہوگی۔چیف جسٹس تصدق جیلانی کا کوئٹہ میں تقریب سے خطاب اور ان
کے خیالات یقینا خوش کن اور مبنی بر حقائق ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے
کہ کچھ عناصر پاکستانی معاشرے میں موجود جہالت اور ناخواندگی کا فائدہ
اٹھاکر مذہب کو اپنے مفادات کیلئے تلوار اور ڈھال کی طرح استعمال کررہے ہیں
اور ایک جانب اپنی ذات کی خامیوں اورمفادات کی بجاآوری کیلئے اسلام کو ڈھال
کی طرح استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی حکمرانی کے قیام اور طاقت کے
اظہار کیلئے اسی اسلام کو تلوار کی طرح اسلام کرتے ہوئے ’’جہاد ‘‘ کے نام
پر قتل و غارت کا طوفان مچاکر تذلیل انسانیت و تحقیر اسلام اور دنیا بھر
میں مسلمانوں کیلئے بدنامی و مصائب کے اسباب بھی پیدا کرتے ہیں اسلام کے
نام پر اپنی حکمرانی کا خواب دیکھنے والے ایسے ہی غیر ریاستی عناصر نے
اسلام کے نام پر پاکستان کے غریب طبقات کی کم علمی اور مایوسیوں سے فائدہ
اٹھاکر انہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے جلائی جانے والی آگ کا ایندھن
بنالیا ہے اورحکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے یہ عناصر ریاست پر غلبے و قبضے
کیلئے اس آگ کی تپش تیز سے تیز تر کرتے چلے جارہے ہیں جس میں یقینا ایندھن
کا استعمال بڑھتا ہی جارہا ہوگا اور دونوں ہی جانب عوام کا نقصان ہورہا ہے
کیونکہ عوام مریں یا دہشتگرد کہلانے جانے والے وہ معصوم جن کی برین واشنگ
کردی گئی ہے ہوتے دونوں ہی پاکستانی ہیں کیونکہ وہ غیر ملکی اور اسلام کے
نام پر اپنی ریاست و حکومت قائم کرنے کے شوقین مذہبی ٹھیکیدار ہمیشہ محفوظ
رہتے ہیں جو اس آگ کو جلائے ہوئے ہیں ۔ حکومت نے ہمیشہ دہشتگردی کے اس
ناسور کے خاتمے اورآتش کو سرد کرنے کیلئے مثبت اقدامات اٹھائے اور سیکورٹی
اداروں نے دیانتداری فریضہ ادا کرتے ہوئے دہشتگردوں کو گرفتار کیا مگر
افسوس کہ قانون کی مبہم شقوں کا سہارا لیکر دہشتگردوں کو رہا کرنے کے حوالے
سے سابقہ چیف جسٹس کے دور میں عدالت کا کردار ہمیشہ فعال دکھائی دیا کسے
کسی بھی طور قابل ستائش نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ توقع ضرور رکھی جاسکتی ہے
کہ موجودہ چیف جسٹس تصدق جیلانی اپنے سابق پیشرو کی تقلید و پیروی کی بجائے
پاکستان میں امن و انصاف کی عملداری کیلئے اپنا مثالی کردار ادا کریں گے
اورقیام امن کیلئے قربانیاں دینے والی افواج پاکستان ‘ سیکورٹی اداروں اور
تحقیقاتی محکموں کو عدالتی فیصلوں سے یہ احساس ضرور ہوگا کہ عدلیہ
دہشتگردوں ‘ جرائم پیشہ عناصر ‘ حکمران طبقات کے تحفظ اور مخصوص شخصیات
کیلئے جانبدارانہ رویوں کے اظہار کی بجائے ملک میں آئین و قوانین کی
حکمرانی اور انصاف و مساوات کی فراہمی کے ساتھ امن و اخوت کے قیام کے ذریعے
پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ایسی اسلامی و فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے
جہاں ہر شخص اپنے عقائد کے ساتھ محفوظ اور ریاستی قوانین کی پاسداری کے
ساتھ مکمل آزاد ہو ۔
|