حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14 اگست ء 1947ء
کے دن انگریزوں سے سیاسی آزادی حاصل کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنایا
۔انگریز ایک مہذب،بااصول اور اہل قوم ہے۔اُنہوں نے جہاں جہاں حکومت کی،جن
جن لوگوں کو اپنا غلام بنایااُنہیں بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے پر بھر پور
توجہ دی ۔مثلاََ اُنہوں نے ہندوستان پراپنے تقریباََ ایک سو سالہ دورِ
حکومت میں سڑکوں کا جال بچھایا،ریلوے کا وسیع نظام قائم کیا،نہروں کا جال
بچاکر ہندوستان کے بہت بڑے رقبے کو سرسبزوشاداب کرنے کا اہتمام کیا، سکولز،
کالجز اور یونیورسٹیز کا سسٹم متعارف کروایا، دیہاتوں میں ڈسپنسریاں اور
شہروں میں ہسپتال تعمیر کروائے،خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں،موجودہ
عدالتی نظام قائم کیا ، فوجی اور دیوانی قوانین نافذ کیے، شورش زدہ
ہندوستان میں قانون کی حکمرانی نافذ کرکے امن و امان بحال کیا اور اسی طرح
بہت سے دوسرے فلاح و بہبود کے کام کیے ۔اور پھر ہندوستان کی دولت سے مستفید
ہوئے۔ انگریزوں کی کارکردگی کی نزدیک ترین مثال ہانگ کانگ کی بندر گاہ ہے
جو اُنہوں نے 100 سال کے لیے حاصل کی تھی۔جب اُنہوں نے ہانگ کانگ کا انتظام
سنبھالا تھا تو وُہ ایک عام سی بندرگاہ تھی مگر انگریز قوم نے 100 سال میں
ہانگ کانگ کا نقشہ ہی تبدیل کردیا اور اُسے دنیا کی ایک بہترین بندرگاہ بنا
دیا اور جب اُنہوں نے ہانگ کانگ کا قبضہ چین کے سپرد کیا تو مقامی لوگ
اُنہیں چھوڑ کر نہ جانے کی درخواست کر رہے تھے ۔
قائداعظم نے قوم کو انگریزوں سے سیاسی آزادی دلوائی۔ قائداعظم کی وفات کے
بعد اشرافیہ کا ایک گروہ ریاست کی طاقت کے اداروں پر قبضہ کرکے عوام پرمسلط
ہوگیا۔ اشرافیہ کا یہ گروہ 500 خاندانوں پر مشتمل ہے اور اس میں بڑے بڑے
جاگیردار، وڈیرے،نواب،سردار،گدی نشین سرمایہ دا ر اور گریڈ 18 سے گریڈ 22
کے بیوروکریٹس شامل ہیں۔ بدقسمتی سے اس گروہ کے تین ہزار افراد میں اکثریت
ایسے افراد کی ہے جومفاد پرست، غیر مہذب، نااہل،کرپٹ ، رشوت خور ہیں ،اُن
کی سوچ،اعمال اور افعال کا محور ذات،کنبہ اور اپنی جماعت ہے۔ یہ گروہ عوام
کوبنیادی سہولتیں بہم پہنچانے اور ملک کو اخلاقی طور پر مہذب،اقتصادی لحاظ
سے خوش حال،سیاسی نقطہ ء نگاہ سے مستحکم اور بین الاقوامی تناظر میں ایک
خود مختار ریاست بنانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔یہ گروہ بظاہرعوام کو ــ’’طاقت
کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ‘‘ ۔ مگر عوام کو طاقت کو اقتدار کے ایوانوں یعنی
اسمبلیوں سے باہررکھتا ہے۔ متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی
شخص چاہے وُہ کتنا ہی اہل، دانشور اور حبّ الوطن ہو، الیکشن میں کھڑا ہونے
کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اشرافیہ کے گروہ کے اکثر ممبران عوام (جو کہ معصوم ،
غریب، لاچار، ناخواندہ، سیاست کی پیچیدگیوں سے بے خبراور الیکشن کے داؤ پیچ
سے ناواقف ہیں) کو اپنی جاگیروں کو سرسبزاور محلوں کو روشن رکھنے، جلسے اور
جلوسوں کی رونقیں بڑھانے، حکومت کے حق یا مخالفت میں ریلیاں نکالنے،پبلک
مقامات اور سڑکوں پر ہنگامے اور توڑ پھوڑ کرنے، مخالفین کو کچلنے، اپنے نام
کے نعرے لگوانے، ووٹ حاصل کرنے، اپنی ملوں اور کارخانوں کی چینی، آٹا اور
دوسری اشیاء مہنگی فروخت کرنے،مہنگائی،دھونس،جبر اورناانصافی کی چکی میں
پسنے، ملکی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ اٹھانے وغیرہ کے لیے استعمال کرتے
ہیں۔مگر اُنہیں اقتدار اعلیٰ کے قریب نہیں آنے دیتے ۔
67سالوں میں ا شرافیہ اس گروہ نے عوام کو غربت کے غار میں دھکیل دیا ہے۔جب
پاکستان معروضِ وجود میں آیا تھا تو عوام پر کوئی قرضہ نہیں تھا جب کہ آج
ملککم و بیش 20000 ارب روپوں کا مقروض ہے اور ہر فرد تقریباََ ایک لاکھ
روپے کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں بجلی ،گیس
رہائش،خوراک، علاج ، جان و مال کے تحفظ ، ملازمت ،روزگار وغیرہ کو ترس رہے
ہیں ۔جب کہ مہنگی کا گراف گھڑی کی سوئیوں کے گردش کے ساتھ اوپر جا رہا ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال دیکھ کر مصنّف یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہے کہ 99
فی صد عوام ایک بیرونی مگر مہذب،بااصول اور اہل قوم (انگریزوں ) کی غلامی
سے نکل کر مفاد پرست، غیر مہذب، بے اصول، نااہل،کرپٹ اور رشوت خو ر مقامی
اشرافیہ کے گروہ کی غلامی کے جال میں پھنس چکی ہے۔
مصنّف کو یقینِ کامل ہے جو شخص قوم کو مقامی اشرافیہ کے گروہ کی غلامی سے
رہائی دلائے گا وُہ قائد اعظمؒ سے بڑا کارنامہ سرانجام دے گا اور قائداعظم
ؒسے بڑا سیاسی لیڈر ہو گا۔کیونکہ مفاد پرست، غیر مہذب،بے اصول، نااہل،کرپٹ
، رشوت خور مقامی اشرافیہ کے گروہ سے آزادی کا حصول کسی بیرونی مگر
مہذب،بااصول اور اہل قوم سے آزادی حاصل کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ |