آپریشن ’’ضرب عضب‘‘....قوم کی امنگوں کا ترجمان

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

پاک فوج کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیر ستان میں ’’ضرب عضب ‘‘آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔فورسز کی جانب سے میر علی، میران شاہ اور دیگر علاقوں میں جیٹ طیاروں سے بمباری کرکے شدت پسندوں کے متعددٹھکانوں کو تباہ کیا گیا اور انہیں گھیرے میں لیکر فرار ہونے کی کوششیں ناکام بنائی جارہی ہیں۔شدت پسندوں کی نقل و حمل روکنے کیلئے باقی ایجنسیوں سے سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ آپریشن میں جیٹ طیاروں کے علاوہ جنگی ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ افواج پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ پاک افغان سرحد کی مکمل طور پر نگرانی رکھی جائے تاکہ یہ لوگ یہاں سے نکل کر افغانستان داخل نہ ہو سکیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی بڑی تعداد ازبک دہشت گردوں کی بتائی جاتی ہے جو بیرونی اشاروں پر پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔ آپریشن کے دوران اب تک دو سو سے زائد شدت پسند ہلاک جبکہ پاک فوج کے متعدد جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔قبائلی علاقوں سے متاثرہ خاندانوں کی بڑی تعداد محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کر رہی ہے۔ بنوں میں پچھلے چار دن سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ خاندانوں کو وہاں سے نکلنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

شمالی وزیرستان میں حالات کافی دیر سے خراب تھے اور اس بات کی پختہ اطلاعات تھیں کہ ملک بھر کے مختلف شہروں و علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی ، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں ملوث شدت پسند انہی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بھارت و امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے یہاں وسیع نیٹ ورک بنا رکھا ہے اور افواج پاکستان و سکیورٹی اداروں پر حملے کرنے والوں کو ہر قسم کے وسائل ، جدید اسلحہ ، حساس مقامات کے نقشے اور دیگر معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔شمالی وزیر ستان میں موجود دہشت گردوں کی جانب سے افواج پاکستان کوبم دھماکوں اور خودکش حملوں کے نتیجہ میں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑے ۔ قومی املاک کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں افواج پاکستان اور عام شہری جاں بحق ہوئے جس پر اگرچہ پاکستان کے مختلف طبقات کی طرف سے آپریشن کے مطالبات بڑھتے جارہے تھے مگر پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے اس آپریشن سے گریز اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے کی خواہشات کا اظہار کیاجاتا رہا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی اور طالبان سے مذاکرات کئے جاتے رہے کہ کسی طرح انہیں قومی دھارے میں لایا جائے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور پاکستانی امن و سکون سے رہ سکیں مگر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے بھی ملک گیر تحریک چلائی گئی اورملک کے کونے کونے میں جہاں حکومت پاکستان کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت جو مسائل درپیش ہیں وہ ماضی میں کی گئی غلطیوں اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا نتیجہ ہیں وہیں پر اس بات کی طرف زور دیاجاتا رہا کہ حکومت اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے محب وطن قبائلیوں کو اعتماد میں لے اور طالبان سے مذاکرات و مفاہمت کا راستہ اختیا رکیاجائے۔دفا ع پاکستان کونسل نے ملک کے کونے کونے میں جاکر اس سلسلہ میں آواز بلند کی اور مذاکرات کی راہیں ہموار کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا لیکن جب بھی مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھنا شروع ہوئے امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے کر کے انہیں سبوتاژ کیاجاتا رہا ۔ بعد ازاں ہم نے دیکھا کہ بھارت و امریکہ کی مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ امریکہ کو ڈرون حملے کرنے کی بھی خاص ضرورت نہیں رہی اور شدت پسندوں نے مذاکرات کی بجائے قتل و غارت کا راستہ ہی اختیار کیا اور مذاکرات کو محض خود کو مضبوط کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔کراچی ایئرپورٹ پر حملے سے پہلے تک اکثر مذہبی و سیاسی جماعتوں کا موقف مذاکرات کے حق میں ہی تھا تاہم کراچی ایئرپورٹ پر جس طرح حملہ کیا گیا۔ سکیورٹی اداروں اور وہاں کھڑے طیاروں اور دیگر قومی املاک کو نشانہ بنا کر ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اس کے بعد ملک بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی تنظیموں اور قوم کے ہر طبقہ کا مطالبہ یہی ہے کہ شمالی وزیرستان میں بھرپور آپریشن کر کے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیاجائے۔قومی اسمبلی میں بھی متفقہ قرارداد پاس کر کے آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آپریشن سے نہ صرف قیام امن ممکن ہوگا بلکہ سماجی اقتصادی خوشحالی کا بھی ذریعہ بنے گا۔قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد پرمسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے نمائندوں نے دستخط کئے جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے قرارداد کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید، مسلم لیگ (ق)، پاکستان عوامی تحریک اور ملک بھر کی دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے جس سے شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالہ سے قومی یکجہتی کا اظہار دیکھنے میں آرہا ہے۔ بہرحال ہمیں اس بات کا سخت افسوس ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے اور معاملہ آپریشن تک جا پہنچا لیکن اس وقت جب آپریشن شروع ہو چکا ہے تو اس بات کا ضرور خیال رکھاجانا چاہیے کہ قبائلی عوام نے ہمیشہ وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کیلئے قربانیاں پیش کیں اور دفاع پاکستان کی جدوجہد میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ہے اس لئے آپریشن کے دوران محب وطن قبائلی عوام جن کا شدت پسندی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے جان و مال اور املاک کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے بلکہ اس آپریشن کا دائرہ صرف ملک دشمنوں تک محدود رہنا چاہیے۔ امریکہ کافی عرصہ سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کر تے ہوئے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا تھا تاکہ اس آپریشن کے نتیجہ میں قبائلی عوام میں مزید اشتعال پھیلے اور انہیں انتقام کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ آپریشن کے حوالہ سے اس کا اپنا ایک ایجنڈا تھا مگر افواج پاکستان کی طرف سے اچانک جس طرح شمالی وزیر ستان میں آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے اس پر اگرچہ امریکہ کی طرف سے بھی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے تاہم اندرون خانہ وہ اس پر خوش نہیں ہے کہ کیونکہ وہ یہ آپریشن اپنے ڈیزائن کے مطابق چاہتا تھا مگرپاکستانی فوج نے خود اپنی مرضی اور وقت کے مطابق فیصلہ کر کے امریکیوں کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس آپریشن کا بڑا مقصد درحقیقت بھارت و امریکہ کی مداخلت ختم کرنا بھی ہے جس کیلئے پوری قوم کی دعائیں افواج پاکستان کے ساتھ ہیں۔ شمالی وزیر ستان آپریشن کے دوران جو متاثرہ خاندان نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات کی جانب آر ہے ہیں حکومت کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے اور انہیں کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ جماعۃالدعوۃ کی طرف سے متاثرین کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے جونہایت خوش آئند ہے۔ دوسری جماعتوں کو بھی اس کام میں حصہ لینا چاہیے۔اب تک جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس کے مطابق نقل مکانی کر کے آنے والے بے گھر افراد کیلئے باقاعدہ کیمپ قائم نہیں کئے جاسکے ہیں۔ بنوں حکام کے مطابق اب تک ساٹھ ہزار کے لگ بھگ افراد گھر بار چھوڑ کر خواتین اور بچوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں اور یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق بکا خیل میں پناہ گزیں کیمپ قائم کیا گیا ہے جس میں سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ ہے متاثرہ خاندان اس طرف جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ متاثرین کی ہر ممکن مدد حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ ذمہ داری ادا کرنے میں کسی قسم کے تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آپریشن کے دوران بھی جو لوگ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کئے جانے چاہئیں اور ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس آپریشن کے بعد بھارت کنٹرول لائن پر حالات خراب کرے گا۔ امریکہ کے کہنے پر افغانستان سے بھی چھیڑ چھاڑ کی جائے گی اور تخریب کاری و دہشت گردی کے ذریعہ پاکستان کو عدم استحکام اور نقصانات سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ ان حالات میں جب تک حکومت ، افواج پاکستان اور قوم کا ہر طبقہ متحد و بیدارنہیں ہو گا اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں ناکام بناناممکن نہیں ہے۔

Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.